Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

حد کا اصطلاحی مفہوم
ARI Id

1707476245802_56118788

Access

Open/Free Access

حد کا اصطلاحی مفہوم
ایسے امور جن کی حلت و حرمت اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما ئی ہے اور ان سے تجاوز کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ یہ امور " حدود اللہ " کہلاتے ہیں۔ اہل علم نے حد کی اصطلاحی تعریفیں مندرجہ ذیل بیان کی ہیں:
ایسے کام جن کی حلت و حرمت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہو، جیسا کہ ابن منظور افریقی تحریر کرتے ہیں
"وحُدُود الله تعالى الأَشياء التي بيَّن تحريمها وتحليلها وأَمر أَن لا يُتعدى شيء منها۔"8
"حدود اللہ سے مراد ایسی اشیاء ہیں کہ جن کی حلت و حرمت اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ ان سے آگے نہ بڑھا جائے۔ "
علامہ زبیدی ؒ (م:1205ھ)حدود کی اقسام اور اس کا مفہوم بیان کرتے ہیں
"فَحُدُودُ ا الله عزّ وجلّ ضَرْبَانِ : ضَرْبٌ منها حُدودٌ!حدَّها للنّاسِ في مَطَاعِمِهم ومَشارِبِهم ومَنَاكِحِهِم وغيرها ممّا أَحَلّ وحَرَّم،وأَمَرَ بالانتِهَاءِ عمّا نَهَى عنه منها ونَهَى عن تَعَدِّيهَا ، والضَّرْب الثانِي عُقوباتٌ جُعِلَتْ لمنْ ركِبَ ما نَهَى عنْه ، كحَدّ السّارِق۔"9
"حدود اللہ کی دو اقسام ہیں: ایک تو ایسی حدود جو لوگوں کے لیے ان کے ماکولات ، مشروبات اور مناکحات وغیرہ میں بسبب حلال اور حرام متعین کی گئی ہیں یہ ان اشیاء سے رکنے کا سبب ہیں جن سے تجاوز کرنے سے روکا گیا ہےاور دوسری قسم وہ سزائیں ہیں جو ممنوع کام کرنے والوں کو دی جاتی ہیں جیسا کہ چور کی حد ۔ "
امام سرخسی ؒ (م:483ھ)حد کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"في الشرع الحد اسم لعقوبة مقدرة تجب حقا لله تعالى ولهذا لا يسمى به التعزير لأنه غير مقدر ولا يسمي به القصاص لأنه حق العباد وهذا لأن وجوب حق العباد۔"10
"شریعت میں حد اس مقررہ سزا کا نام ہے جو بطور حق اللہ واجب ہوتی ہے اسی لیے تعزیر کو اس نام سے موسوم نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ مقرر شدہ نہیں ہوتی اور نہ ہی قصاص کو حد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ وہ بندوں کا حق ہے۔ "
علامہ شوکانیؒ (م:1250ھ) حد کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں
"فی الشرع عقوبۃ لاجل حق اللہ فیخرج التعزیر لعدم التعزیر والقصاص لانہ حق آدمی۔"11
"شریعت میں حد ایسی سزا ہے جوبطور حق اللہ متعین کی گئی ہو ، تعزیر اس سے خارج ہے کیونکہ تعزیر مقرر نہیں اور قصاص بھی ، کیونکہ قصاص حق العبد ہے۔ "
ابن حجر عسقلانی ؒ (م:852ھ)حد کا مفہوم شارع کی طرف سے مقرر کردہ سزا بیان کرتے ہیں
" وَأَصْلُ الْحَدِّ مَا يَحْجِزُ بَيْنَ شَيْئَيْنِ فَيَمْنَعُ اخْتِلَاطَهُمَا وَحَدُّ الدَّارِ مَا يُمَيِّزُهَا وَحَدُّ الشَّيْءِ وَصْفُهُ الْمُحِيطُ بِهِ الْمُمَيِّزُ لَهُ عَنْ غَيْرِهِ وَسُمِّيَتْ عُقُوبَةُ الزَّانِي وَنَحْوِهِ حَدًّا لِكَوْنِهَا تَمْنَعُهُ الْمُعَاوَدَةَ أَوْ لِكَوْنِهَا مُقَدَّرَةً مِنَ الشَّارِعِ وَلِلْإِشَارَةِ إِلَى الْمَنْعِ سُمِّيَ الْبَوَّابُ حَدَّادًا "12
"حد سے مراد وہ شے ہے جو دو اشیا کو باہم ملنے سے روک دے اور حد الدار یہ ہے کہ جو ایک گھر کو دوسرے سے جدا کر دے اور حد الشی سے یہ مراد ہے کہ اس شے کا ایسا وصف جو اس پر محیط ہو اور دوسرے شے سے اس کو جدا کردے اور زانی وغیرہ کی سزا کو اس لیے حد کہا جاتا ہے کہ وہ اسے دوبارہ ایسا کام کرنے سے روکتی ہے یا اس لیے کہ یہ شارع کی طرف سے مقرر ہے ۔ "
علامہ کاسانی ؒ (م:587ھ)حد سے متعلق تحریر کرتے ہیں
"الحد في الشَّرْعِ:عِبَارَةٌ عن عُقُوبَةٍ مُقَدَّرَةٍ وَاجِبَةٍ حَقًّا للّٰهِ تَعَالَى عز شَأْنُهُ بِخِلَافِ التَّعْزِيرِ فإنه ليس بِمُقَدَّرٍ قد يَكُونُ بِالضَّرْبِ وقد يَكُونُ بِالْحَبْسِ وقد يَكُونُ بِغَيْرِهِمَا وَبِخِلَافِ الْقِصَاصِ فإنه وَإِنْ كان عُقُوبَةً
مُقَدَّرَةً لَكِنَّهُ يَجِبُ حَقًّا لِلْعَبْدِ حتى يَجْرِيَ فيه الْعَفْوُ وَالصُّلْحُ۔"13
"شریعت میں حد اس شرعی سزا کو کہتے ہیں جو بطور حق اللہ واجب ہو ، یہ تعزیر کے خلاف ہے کیونکہ تعزیر مقرر نہیں ہوتی بلکہ مار پیٹ ، قید یا اس کے علاوہ کسی طریقے سے بھی یہ دی جا سکتی ہے یہ (حد) بخلاف قصاص ہے کیونکہ قصاص اگرچہ ایسی سزا کو کہتے ہیں جو مقرر ہے لیکن یہ حق العبد کے طور پر واجب ہوتی ہے اور اس میں معاف کرنے اور صلح کی گنجائش ہوتی ہے۔ "
عبدالقادر عودہ شہید (م:1374ھ)حد کے حوالے سے لکھتے ہیں
"والحدھوالعقودۃالمقررۃحقاللہ تعالی، او ھو العقوبۃالمقررۃلمصلحہ الجماعہ وحینما یقول الفقھاءان العقوبۃ حق للہ یعنون بذلک انھا تقبل الاسقاط من الافراد ولا من جماع۔"14
"حد سے مراد وہ مقرر شدہ سزا ہے جو بطور حق اللہ مقرر ہو یا جماعت کی مصلحت کی خاطر مقرر کی گئی ہو ۔ جب فقہا اس کو حق اللہ قرار دیتے ہیں تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس سزا کو افراد یا جماعت ساقط نہیں کر سکتے۔
فقہا ئے احناف کے نزدیک حدود وہ معین شرعی سزائیں ہیں جن کا طریقہ کار بھی متعین ہے، جیسا کہ وہبۃ الزحیلی(م:1437ھ) اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں
"والحد فی الشرع فی الاصطلاح الحنفیہ : عقوبۃ مقدرۃواجبۃ حقا للہ فلا یسمی التعزیرحدا لانہ لیس بمقدرولا یسمی القصاص ایضالانہ اسن کان مقدرا، لکنہ حق العباد، فیجری فیہ العفو الصلح وسمیت ھذہ العقوبات حدودا لانھا تمنع من الوقوع فی مثل الذنب۔"15
"احناف کی اصطلاح میں حد وہ مقرر کردہ شرعی سزا ہے جو اللہ کے حق کے طور پر واجب ہو ۔ تعزیر کو حد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ مقرر نہیں اور نہ قصاص کو حد کہا جا سکتا ہے اگرچہ یہ مقرر تو ہے لیکن یہ بندوں کا حق ہے اوراس میں معافی اور صلح کی گنجائش ہوتی ہے ان سزاؤں کو حدود اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ گناہ میں واقع ہونے سے انسان کو روکتی ہیں۔ "
ان تمام تعریفات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حد سے مراد معاشرتی جرائم پر مقرر شدہ ایسی سزا جو نص سے ثابت ہو ، بطور حق اللہ مقرر کی گئی ہو اور اس کا طریقہ کار بھی معین ہو۔ اس کے علاوہ کسی بھی سزا پر حد کا اطلاق نہیں ہو گا، چاہے وہ تعزیر ہو یا قصاص۔
قرآن مجیدمیں لفظ حد
قرآن مجید میں حد کا مفہوم احکام یا حقائق کا بیان یا کسی کام سے روکنا مرادہے۔ قرآن مجید میں لفظ حد " چودہ " مرتبہ "نو " آیات مبارکہ میں استعمال ہوا ہے ، لیکن تمام مقامات پر جمع "حدود" کی صورت میں مذکور ہے ۔ یہ قرآنی مقامات مندرجہ ذیل ہیں:
1﴿ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ﴾16
"اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہوتو بیویوں سے مباشرت نہ کرو ، یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے قریب بھی نہ جانا۔ "
اس آیت مبارکہ میں روزے کی حالت میں کھانے پینے اور اعتکاف میں رات کوبیویوں سے مباشرت کی ممانعت کا حکم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام یا حدود ہیں ان کے قریب جانے سے منع کیا گیا ہے۔
2 ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آَتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ ﴾17
"طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو عورت کو روک لیا جائے یا بہتر طریقےسے اسے رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے وقت تمہارے لئےیہ جائز نہیں کی جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لو ، البتہ یہ صورت اس سے مستثنی ہے کہ زوجین کواللہ کاحکم قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدوداللہ پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لیں۔ یہ اللہ کی مقررکردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود اللہ سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔ "
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد اختیار ہے کہ عدت پوری کرنے کے بعد اسے اپنے پاس رکھےیا چھوڑ دے لیکن حدود اللہ کے قائم نہ رہنے کا اندیشہ ہے تو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے جو اللہ کی حدود کو توڑے گایا تجاوز کرے گا تو ایسے شخص کے لیے وعید ہے۔
3 ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ۔ ﴾18
"پھر اگر دوبارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے تیسری بار طلاق دے دی تو پھر وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہو گی الایہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ وہ حدوداللہ پر قائم رہیں گے تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جنہیں وہ اس قوم کے واضح کر رہا ہے جو جانتے ہیں۔ "
4﴿ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۔ ﴾19
"یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اسے اللہ ایسے باغات میں داخل فرمائے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔ "
اس آیت مبارکہ میں میراث کے احکام بیان کرنے کے بعد احکام کو ماننے اور اس پر انعام کا تذکرہ ہے۔
5﴿وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ۔ ﴾20
"جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرےگاتو اسے اللہ تعالی آگ میں ڈالوائےگاجس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ "
اس آیت میں میراث کے احکام بیان کرنے کے بعد احکام کونہ ماننے والوں کو وعید سنائی جا رہی ہے۔
6﴿ الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ ﴾21
"یہ عرب گنوار کفر ونفاق میں زیادہ سخت ہیں اور اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ وہ اس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل فرمایا ہے اور اللہ جاننے والا ، حکمت والا ہے۔ "
اس آیت مبارکہ میں دیہاتی اعرابی جو شہریو ں سے زیادہ کفر و نفاق میں سخت ہیں علماء اور علم سے دور رہنے کے سبب ، وہ اپنے ماحول کی وجہ سے حدود کے احکام سے لاعلم ہیں۔
7﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ۔ ﴾22
"اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے ، اس کی عبادت کرنے والے ، اس کی حمد بیان کرنے والےاور اس کی خاطر زمین میں چلنے پھرنےوالے، اس کےآگے رکوع کرنے اور سجدہ ریز ہونے والے ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سےروکنے والے ، اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے(مومن ہیں)اور ان مومنین کو خوشخبری دے دو۔ "
8﴿ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔ ﴾23
" پس جو شخص غلام نہ پائے وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا ئے۔ یہ حکم اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمانبردار بن جاؤ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے د ردناک عذاب ہے۔ "
اس آیت میں کفارہ ظہار کے لیے عورت کو چھونے سے قبل غلام آزاد کرو یا دو ماہ کے مسلسل روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ یہ کفارہ کے احکام اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز حرام ہے۔
9﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا ﴾24
"ائے نبی! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دوتو ان کو ان کی عدت پر طلاق دو اورگنتے رہو عدت کو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔نہ تم ان کو گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جواللہ کی حدوں سے تجاوز کرےگا وہ اپنے اوپر ظلم کرےگا۔ "
احادیث مبارکہ میں لفظ حد
ذخیرہ حدیث میں لفظ حد اورحدود دونوں استعمال ہوئے ہیں ، البتہ حد کا لفظ احادیث میں بہت زیادہ مرتبہ استعمال ہواہے۔ ذیل میں حدود کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں، تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ حدود کا اصطلاحی ، فقہی اور قانونی مفہوم عہد رسالت میں بالکل واضح تھا، جیسا کہرسول اللہ نے ارشاد فرمایا
"أقيموا حدود الله في القريب و البعيد. ولا تأخذكم في الله لومة لائم"25
"اللہ کی حدود کو قریب و بعید سب میں قائم کرو اور اللہ کے حکم بجا لانے میں ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں نہ روکے"
حضرت انس بن مالک  (م:93ھ)سے مروی ہے
" كنت عند النبي ﷺفجاءه رجل فقال يا رسول الله ﷺإني أصبت حدا فأقمه۔"26
"ہم نبی ﷺ کے پاس تھے۔ پس ایک شخص آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے ،پس آپﷺ مجھ پر حد جاری فرما دیں ۔ "
حضرت علی (م:40ھ)سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
"من أصاب حدا فعجل عقوبته في الدنيا فالله أعدل من أن يثني على عبده العقوبة في الآخرة ومن أصاب حدا فستره الله عليه وعفا عنه فالله أكرم من أن يعود الى شيء قد عفا عنه۔"27
" جو شخص گناہ کرے پھر اس پر جلدی سے حد جاری ہو ۔پھر اس کی سزا دنیا میں اس کو دی جائے ،تو اللہ اس سے زیادہ عادل ہے کہ اپنے بندےکو دوبارہ سزا دے اور جو شخص دنیا میں گناہ کرے پھر اللہ اس کا گناہ ڈھانپ لے تو اس کا کام اس سے زیادہ ہے کہ دوبارہ اس کا مواخذہ کرے جس کو ایک بار معاف کر چکا۔ "
حضرت عائشہ (م:58ھ)سے مروی ہے کہ قریش کے قبیلہ بنو مخزوم کی عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی۔ لوگ اسامہ بن زید (م:54ھ)کو رسول ﷺ کے پاس سفارشی بناکرلے آئے تو آپ ﷺ نے حضرت اسامہ سے ارشاد فرمایا
" أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "28
"کیا تو حدود اللہ میں سفارش کرتا ہے ؟ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا پھر فرمایا : تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک کر دیے گئے کہ ان میں سے جب کوئی امیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر غریب جرم کرتا تو اسے سزا دیتے ۔ اللہ کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ ؓچوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ "
ابی بردہ (م:104ھ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
"لا يحد فوق عشرة أسواط إلا في حد من حدود الله ۔"29
"حد(تعزیر) میں دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دی جائے مگر اس سزا میں سے جو حدوداللہ میں سے ہو۔ "
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے دور مبارک میں لوگ حدود سے اچھی طرح واقف تھے اور جانتے تھے کہ حدود سے مرا دایسی سزائیں ہیں جو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں اور ان سزاؤں میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کی گنجائش نہیں اور ان کا طریقہ کا ر بھی متعین ہے ، نیز یہ سزائیں ناقابل معافی اور سفارش سے بالاتر ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے نزدیک حدود
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بھی حدود کو انہی مفہوم میں لیا ، خصوصاً خلفائے راشدین کے دور میں حدود کی عملی تنفیذ اسی بات کی غمازی ہے ۔ ان کےعہدکی عملی مثالیں اگلے صفحات میں پیش کی جائیں گی۔
متقدمین اور متاخرین کے نزدیک حدود
جہاں پر بھی شریعت محمدی ﷺ نافذ رہی، چاہے وہ دور بنو امیہ کا ہو یا بنو عباس کا ، خلافت عثمانیہ ہو یا مغلیہ دور یا آج کےجدید دور میں سعودی عرب، پاکستان اور برونائی میں اسلامی حکومت ، حدود کا مفہوم آج تک وہی سمجھا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ البتہ یہ مسئلہ رہا کہ دنیا میں حدود کا نفاذ نہ رہا ہو یا ان پر عمل درآمد نہ ہو رہا ہو، لیکن ان کا مفہوم آج تک وہی لیا جاتاہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...