Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

حدود کےنفاذ کی شرائط
ARI Id

1707476245802_56118791

Access

Open/Free Access

Pages

17

حدود کےنفاذ کی شرائط
حدود کی تنفیذ کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:
1۔ حدود کا اجراء ہر کسی کے لیے جائز نہیں بلکہ یہ حق صرف اسلامی حکومت کو حاصل ہے اور حکومت بھی اس وقت یہ سزا دے گی جب معاملہ کی پوری تحقیق ہو جائے اور ثبوت ، اقرار یا قرائن سے جرم ثابت ہو جائے اور کوئی شبہ باقی نہ رہے کیونکہ حد حق اللہ ہے اور شبہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اسلامی قانون میں جائز نہیں کہ جرم ثابت ہو جانے کے بعد سزا میں کوتاہی کی جائے بلکہ ایسا کرنا جرم ہے۔ حد ودکا نفاذ اسلامی حکومت کے قیام سے ہو گااور امام کے ذمہ ہے ، جیسا کہ امام سرخسی ؒ نے لکھا ہے
"استيفاء الحد إلى الإمام"38 "حد کا استیفا ء امام کا کام ہے۔ "
حاکم وقت یا اس کا نمائندہ ہی حد کا نفاذ کر سکتا ہے ، جیسا کہ علامہ مرغینانی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ
"حد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے اس کو امیرالمومنین یا حاکم وقت یا حاکم کا نمائندہ قائم کرے۔ "39
2۔ آزاد ، عاقل ، بالغ اور مرضی سے فعل سر انجام دینے والے پر حد جاری ہوتی ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں جس پر حد لگائی جائے وہ "آزاد ، عاقل ، بالغ ہواور یہ فعل آزاد ی و مرضی سے ہوا ہو۔ "40
3۔ جس پر حد قائم کی جائے وہ سلیم البدن ہو۔ پاگل ، مجنون ، مریض، ناتواں، ضعیف اور نشہ کی حالت میں حد قائم نہ ہو گی۔ ہاں البتہ ان کمزوریوں کے دور ہونے پر حد قائم ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تندرست پر ہی حد جاری کی جاتی، سوائے رجم کے ۔ حضرت عبد الرحمان سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی کو ایک لونڈی پر حد زنا جاری کرنے کا حکم فرمایا
" فَإِذَا هِىَ حَدِيثُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ أَقْتُلَهَا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِىِّ ﷺ فَقَالَ « أَحْسَنْتَ »۔"41
"جب سیدناعلی نے ایک لونڈی پرزناکی سزا نافذ کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ وہ بچے کی ولادت کے بعد ابھی حالت نفاس میں تھی تو نبی ﷺ نے ان کے اس عمل کی تحسین کی۔ "
4۔ مکمل ثبوت کے ساتھ حد نافذ کی جائے گی۔ قابل اعتماد شہادت یا بینہ کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر سزا نہیں دے سکتا۔ اس حوالے سےامام کاسانؒی لکھتے ہیں
"الْحُدُودُ كُلُّهَا تَظْهَرُ بِالْبَيِّنَةِ وَالْإِقْرَارِ لَكِنْ عِنْدَ اسْتِجْمَاعِ شَرَائِطِهَا" 42
"تمام حدود بینہ اور اقرار سے ثابت ہوتے ہیں لیکن اس وقت جب اس کی تمام شرائط پوری ہوں ۔ "
مدینے میں ایک عورت کھلی فاحشہ تھی لیکن اس کے خلاف بد کاری کا ثبوت میسر نہیں تھا۔ اس لیے اس کو کوئی سزا نہ دی جا سکی،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکلے
"فقال له ابن شداد هي التي قال لها رسول الله ﷺلو كنت راجما أحدا بغير بينة لرجمتها ؟ فقال ابن عباس تلك امرأة أعلنت۔ "43
"اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا۔ ابن عباس نے کہا (نہیں ) وہ تو اعلانیہ فاحشہ تھی۔ "
5۔ حد سر عام لگائی جائے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور آئندہ اس فعل سے باز رہیں ،جیسے ارشاد باری ہے
﴿وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ ﴾44
"اور ان کی سزا کے وقت مؤمن لوگوں کی ایک جماعت حاضر ہو۔ "
6۔ سزاؤں کے نفاذ کے حوالے سے شریعت کا یہ عمومی رجحان بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ شریعت کا اصل زور مجرم کو ہر حال میں سزا دینے پر نہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اسے سزا سے بچا کر اصلاح احوال کا موقع فراہم کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جن سے جرم سر زد ہوجائے ، یہ ترغیب دی ہے کہ اگر جرم کے ساتھ کسی بندے کا حق متعلق نہیں ہے تووہ اپنے جرم پر پردہ ڈالے رکھیں اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
"قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تَنْتَهُوا عَنْ حُدُودِ اللَّهِ مَنْ أَصَابَ مِنْ هَذِهِ الْقَاذُورَاتِ شَيْئًا فَلْيَسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ فَإِنَّهُ مَنْ يُبْدِي لَنَا صَفْحَتَهُ نُقِمْ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ۔"45
"اے لوگو ! تحقیق تمہارے لیے ہے کہ حدود اللہ سے بچو۔ جو شخص ان ناپاک چیزوں میں سے کسی میں ملوث ہوجائے تو وہ اس پردے سے اپنے آپ کو چھپا لے جو اللہ نے ڈال رکھا ہے ، کیونکہ جو شخص ہمارے سامنے اپنے جرم کو بے نقاب کرے گا ، ہم اس پر اللہ کے قانون کو نافذ کردیں گے۔ "
آپ ﷺ نے معاشرے کے لوگوں کو بھی یہی ترغیب دی ہے کہ ایسے مجرموں کو عدالت میں پیش کرنے سے گریز کریں کیونکہ عدالت میں مقدمہ پیش ہو جانے کے بعد مجرم پر سزا کا نفاذ حاکم یا قاضی کی ذمہ داری قرار پاتا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
"تعافوا الحدود فيما بينكم فما بلغني من حد فقد وجب"46
"حدودکو تم آپس میں معاف کر دیا کرو، میرے پاس پہنچنے کے بعد واجب ہو گی (یعنی اب ضرور قائم ہو گی)۔ "
رسول اللہ ﷺ نے اس ضمن میں ارباب حل و عقد کے لیے بھی یہ رہنما اصول بیان فرمایا ہے کہ ان کی اصل دلچسپی مجرم کو سزا دینے سے نہیں بلکہ عدل و انصاف کی حدود میں رہتے ہوئے اس کے لیے معافی کی گنجائش تلاش کرنی چاہیے ، جیسا کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے
"ادروا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن كان له مخرج فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة 47
"جہاں تک ہو سکے مسلمانوں سے سزاؤں کو ٹالو ۔ پس اگر تمہیں کسی مسلمان کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ ملے تو اس کو چھوڑ دو کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلط فیصلہ کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی کو سزا دینے میں غلطی کرے۔ "
7۔ اس کے علاوہ حد جاری کرنے میں جو شخص مانع بنے۔ وہ اسلام کی نظر میں سخت مجرم اور لائق ملامت ہے، جیساکہ عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ ارشاد فرماتے سنا
"مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ "48
"جس کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں مانع بنے (تو وہ ایسا ہے ) کہ اس نے اللہ کے فیصلہ میں اس کی مخالفت کی۔ "

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...