Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

حدود میں تخفیف کے مواقع
ARI Id

1707476245802_56118792

Access

Open/Free Access

Pages

21

حدود میں تخفیف کے مواقع
مندرجہ ذیل چند اہم پہلوؤں کی نشان دہی کی جا رہی ہے، جن کی بناء پر حدود (عقوبات) میں معافی یا تخفیف کی گنجائش ملتی ہے:
1۔ اگر شریعت کا کوئی دوسرا اصول کسی خاص مجرم پر سزا کے نفاذ میں مانع ہو تو اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گایا اس کے لیے متبادل سزا تجویز کی جائے گی ، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے فیصلوں سے ثابت ہے۔ حضرت نعیم بن مسعود اشجعی  (م:36ھ)سے روایت ہے ، جب بنو حنیفہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کے دو قاصد اس کا خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مسیلمہ کی نبوت پر ایما ن رکھتے ہیں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا
" لو لا أن الرسل لا تقتل لضربت أعناقكما۔"49
" اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کی روایت ہوتی تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ "
اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ ارتداد کی وجہ سے وہ دونوں قاصد قتل کے مستحق ہو چکے تھے ، لیکن قاصدوں اور سفیروں کے احترام اور ان کی حفاظت کا ایک دوسرا اخلاقی اصول اس پر عمل کرنے میں مانع تھا اور آپ نے اسی کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں بحفاظت واپس جانے دیا ۔ آپ ﷺنے اسی اصول پر یہ ہدایت کی کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کردے تو اسے قصاص میں قتل نہ کیا جائے۔ حضرت سراقہ بن مالک  (م:24ھ)سے روایت ہے
" رسول الله ﷺ يقيد الأب من ابنه ولا يقيد الابن من أبيه۔"50
" رسول اللہﷺ باپ پر بیٹے کے قتل میں قصاص نہیں دلوایا کرتے تھے جب کہ بیٹے سے باپ کے قتل میں قصاص دلواتے تھے۔ "
2۔ سزا نافذ کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا مجرم کو سزا دینے سے کسی بے گنا ہ کو کوئی نقصان تو نہیں ہو گا اور یہ مجرم جسمانی لحاظ سے سزا کا متحمل بھی ہے یا نہیں ۔ چنانچہ نبی ﷺ نے بد کاری کی مرتکب ایک حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم نہیں کیا جب تک وہ بچے کی ولادت سے فارغ نہیں ہوگئی ۔
" قَالَتْ إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزِّنَا. فَقَالَ « آنْتِ ». قَالَتْ نَعَمْ. فَقَالَ لَهَا « حَتَّى تَضَعِى مَا فِى بَطْنِكِ ». قَالَ فَكَفَلَهَا رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ قَالَ فَأَتَى النَّبِىَّ ﷺ فَقَالَ قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ. فَقَالَ « إِذًا لاَ نَرْجُمَهَا وَنَدَعَ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ ». فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ إِلَىَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِىَّ اللَّهِ. قَالَ فَرَجَمَهَا."51
" اس نے کہا میں زنا کی وجہ سے پیٹ سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا ، تو خود ! اس نے کہا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا ابھی جا یہاں تک کہ تیرے بچہ پیدا ہو جائے۔ پھر جب بچہ پیدا ہو گیا تب حا ضر ہو کر اس نے آگاہ کیا ۔پھر آپ نے فرمایا ابھی جا یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دے ، پھر جب دودھ چھڑا دیا تو حاضر ہوئی۔ آ پ نے فرمایا ابھی ہم اس کو رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو بے دودھ نہیں چھوڑیں گے۔ ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے کہ میں اس بچہ کی پرورش کروں گا تب اللہ کے نبیﷺ نے رجم کا حکم دیا ۔ "
آپﷺ نے ایک بوڑھے کو، جو کوڑوں کی سزا کا جسمانی طور پرمتحمل نہیں ہو سکتا تھا ، حقیقی طور پر سو کوڑے لگوانے کے بجائے یہ حکم دیا
" فخذا له عثكالا فيه مائة شمراخ فاضربوه ضربة واحدة۔"52
"کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی لے کر جس میں سو پتلی شاخیں ہوں، ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر ماردی جائے۔ "
3۔ کسی خاص صورتحال میں سزا کے نفاذ سے اگر کوئی فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی شارع کا منشایہی ہو گا کہ سزا نافذ نہ کی جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کے دوران چور کے ہاتھ نہیں کاٹے۔ جنادہ بن ابی امیہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا
" « لاَ تُقْطَعُ الأَيْدِى فِى السَّفَر، وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَقَطَعْتُهُ۔"53
"سفر کے دوران ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دیتا۔ "
چنانچہ جنگ کے لیے نکلنے والے لشکر میں سے کسی شخص نے اگر چوری کی، تو رسول ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا۔
4۔ اگر مجرم کسی فعل کی حرمت سے ناواقف ہو تو یہ چیز سرے سے سزا کے سقوط یا اس میں تخفیف کا سبب بن سکتی ہے ۔ جیسے ایک لونڈی نے زنا کو گناہ نہ سمجھتے ہوئےبلا جھجک اس کا تذکرہ کیا کہ ہاں ! میں نے مرغوش نامی شخص سے دو درہم لے کر زنا کیا تھا حضرت عمر  نے اسے سزا دینا چاہی تو حضرت علی  نے کہا کہ یہ جس انداز میں بے جھجک زنا کا ذکر کر رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اس کی حرمت سے واقف نہیں ، جب کہ حد اسی شخص پر نافذ کی جا سکتی ہے جو اس فعل کی حرمت سے واقف ہو ۔
" فجلدها عمر رضي الله عنه مائة وغربها۔"54
" پس عمر نے اسے ایک سو کوڑے لگائےاور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا ۔ "
5۔ حرمت محل میں واقع ہونے والے اشتباہ کی بنا پر سزا میں تخفیف کے نظائر بھی روایات و آثار میں موجود ہیں، چنانچہ زنا کے مقدمات میں اس اصول کے اطلاق کی مثال یہ ہے
" عن حبيب بن سالم قال رجل وقع على جارية امرأته فقال لأقضين فيها بقضاء رسول الله صلى الله عليه و سلم لئن كانت حلتها لأه لأجلدنه مائة وإن لم تكن أحلتها له رجمته۔"55
"حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مقدمے میں ، جس میں شوہر نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کیا تھا ، یہ فیصلہ فرمایا اگر تو خاوند نے بیوی کی اجازت کے بغیر ایسا کیا ہے تو اسے رجم کیا جائے گا ، لیکن اس میں بیوی کی رضامندی شامل تھی تو خاوند کو ایک سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ "
6۔ جن حالات میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ، اگر وہ سزا میں تخفیف کے متقاضی ہوں تو بھی سزا معاف کی جا سکتی یا کم تر سزا دی جا سکتی ہے56 ، چنانچہ مجبوری کے عالم میں کیے جانے والے جرم پر سزا معاف کر دی گئی ۔
"أتى عمر بن الخطاب رضي الله عنه بامرأة جهدها العطش فمرت على راع فاستسقت فأبى أن يسقيها إلا أن تمكنه من نفسها ففعلت فشاور الناس في رجمها فقال علي رضي الله عنه هذه مضطرة أرى أن تخلي سبيلها ففعل۔ "57
"سیدنا عمر کے سامنے ایک عورت کا مقدمہ پیش کیا گیا جس نے زناء کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ ایک سفر کے دوران میں اس نے ایک چرواہے سے پینے کیلئے پانی مانگا تو اس نے اس شرط پر پانی دینے پر رضا مندی ظاہر کی کہ خاتون اسے اپنے ساتھ زنا کرنے کی اجازت دے ۔ چنانچہ خاتون نے شدید پیاس سے مجبور ہو کر اس کی شرط پوری کر کے اس سے پانی حاصل کیا۔ سیدنا عمر  نے اس ضمن میں صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو سید نا علی نے کہا کہ اس نے حالت اضطرار میں ایسا کیا ہے ۔ چنانچہ اس خاتون کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ "

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...