Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

1۔ حدِ زنا
ARI Id

1707476245802_56118795

Access

Open/Free Access

Pages

29

1۔ حدِ زنا
زنا کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
زنا کثیر المعنی لفظ ہے ۔ اس کا ایک معنی ہے، عظیم ، بلند، چنانچہ ابن فارس تحریر کرتے ہیں
"الزاء والنون والحرف المعتل لا تتضايف، ولا قياس فيها لواحدةٍ على أخرى. فالأوَّل الزِّنَى، معروف. ويقال إنّه يمدّ ويقصر. یقال أبا حاضِرٍ مَنْ يَزْنِ يُعرَف زنَاؤُهُ ۔ "71
"زنا کا اصل زا ء اور نون اور آخر میں ی معتل ہے اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوسکتا اور اس میں ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ اس میں پہلا مادہ زَنَی َ ہے اور یہی معروف ہے اور یہ مدہ اور قصر دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا بلند مرتبہ شخص ہے جس کا عظیم مرتبت ہونا مشہور ہے۔ "
زنا حرام کا م ہے اور عظیم گناہوں میں ایک گناہ ہے ۔ ابن قدامہ نے زنا کو عظیم اور بڑا گناہ کہا ہے
"الزنا حرام وهو من الكبائر العظام ۔"72
زنا کا ایک معنی ہے گھر والے سے بغاوت کرنے والی عورت ،جیسا کہ ابن منظور لکھتےہیں
"الزِّنا يمد ويقصر زَنَى الرجلُ يَزْني زِنىً مقصور وزناءً ممدود وكذلك المرأَة وزانى مُزاناةً وزَنَّى كَزَنى... والمرأَة تُزانِي مُزاناةً وزِناء أَي تُباغِي۔ "73
"زنا مدہ اور قصر کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے" زَنَى الرجلُ يَزْني زِنىً" یہ مقصور ہے اور "وزناءً " یہ ممدود ہے اور اسی طرح عورت کے بارے میں ہے کہ زانیہ عورت یعنی اپنے گھر والے کے حق میں بغاوت کرنے والی ہے۔ "
بغیر نکاح کے کسی غیر عورت سے ہم بستری کرنا زنا کہلاتا ہے اور امام راغب اصفہانی کے بقول زنا
"الزنا وطءُ المراۃمن غیر عقد شرعی۔ "74
"عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنا ہے۔ "
اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ مرد اجنبی عورت کی شرم گاہ میں مباشرت کرے،جیسا کہ ابن رشد ؒ لکھتے ہیں
"فأما الزنا فهو كل وطء وقع على غير نكاح صحيح ولا شبهة نكاح ولا ملك يمين۔"75
"ایسی عورت کے ساتھ ، جو نہ ملک اور نکاح میں ہو اور نہ اس کے ساتھ ملک و نکاح کا شبہ پایا جاتا ہو ، رحم کی جانب سے مباشرت کرنا زنا کہلاتا ہے۔ "
ان تمام تعریفات سے ثابت ہوا کہ بغیر نکاح کے کسی عورت سے مباشرت کرنا زنا کہلاتا ہے اور یہ حرام کا م ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ۔

زنا کی اقسام
زنا کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں: اول: زنا بالرضا اور دوم: زنا بالجبر
یہ اصلاً دونوں گناہ ہیں ، لیکن ان میں فرق قانون کے نفاذ اور اطلاق کے حوالے سے ہو سکتا ہے، مثلاً زنا بالرضا میں کسی انسان کے حق پر تعد ی نہیں پائی جاتی اور اس کے ارتکاب پرا زخود نہیں ، بلکہ کسی کی طرف سے شریعت کی بیان کردہ کڑی شرائط کے مطابق شکایت کا اندراج کرائے جانے کے بعد ہی کاروائی کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ زنا بالجبر کو اصل میں فرد کے خلاف تعدی کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے اور اس پر ریاست کسی کی شکایت کے بغیر کاروائی کا لازمی حق رکھتی ہے۔ 76
زنا کی حرمت
شریعت مطہرہ نے عفت و عصمت اور انساب کی حفاظت کے لیے جہاں زنا کو حرام قرار دیا، وہاں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾77
"اورزنا کے قریب بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔ "
مزید ارشاد فرمایا
﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ۔ ﴾ 78
"اے نبی !جب تمہارے پاس مؤمن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی اور نہ زناکریں گی ۔ "
لوگوں کو زنا جیسے برے کام سے دور رکھنے کے سزا بتائی جا رہی ہے، جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آَخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ۔ ﴾79
"اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جن جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر، اور زنا نہیں کرتے ۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا۔ "
رسول اللہ ﷺ نے ایک مجلس میں صحابہ کرام سے بیعت لیتے ہوئے ارشاد فرمایا
" تبايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا۔ "80
"تم اس چیز پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے اور نہ چوری کرو گے اور نہ زنا "۔
زنا کا ثبوت
حد زنا کی سزا کے اثبات کے تین طریقے ہیں: ایک اس کے خلاف گواہی جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق ہو، دوسرا مجرم کی جانب سے عدالت کے سامنےآزادنہ اقرار جرم اور تیسرا قرائن یعنی حمل کا ظاہر ہو جانا ۔
گواہی
حد زنا میں گواہی کا نصاب یہ ہے کہ چار گواہ ایک مرد و عورت پر زنا کی گواہی دیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
﴿ وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ ﴾81
"اور مسلمان عورتوں میں جو بد کاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں سے چار اشخاص کی شہادت لو ۔ "
قرآن مجید میں زنا کا الزام ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا گیا ہےگواہو ں سے زنا کی گواہی بارے حاکم شرع گواہوں سے یوں سوال کرے کہ زنا کیا ہے ؟ یعنی گواہوں سے زنا کی حقیقت پوچھے گا ۔ جو وہ بیان کرتے ہیں کیا اس پر زنا کی تعریف صادق آتی ہے یا نہیں۔کس طرح ہوا ؟ یعنی زنا رضامندی سے ہوا یا بحالت اکراہ (بالجبر ) ہوا۔ کہاں ہوا ؟ مقام کا پوچھا جائے گا کہ کس جگہ ہوا ۔ دارالاسلام میں ہوا یا دارالحرب میں ہوا۔ کب ہوا ؟ یعنی زنا ہوئے کتنی مدت گزری ہے حال ہی میں ہوا ہے یا مدت گزر گئی ہے۔
کس عورت سے زنا کیا ؟ یعنی اس عورت بارے سوال جس سے زنا ہوا۔ پس اگر وہ گواہ سب باتیں بیان کر دیں اور یوں کہیں کہ ہم نے اسے دیکھا کہ اس نے عورت کی شرمگاہ میں اس طرح مباشرت کی جیسے سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے۔
اگر قاضی گواہوں کے جوابات سے مطمئن ہو اور ان کا عادل ہو نا قاضی کو معلوم ہے تو خیر ، نہیں تو عدالت خود اس بات کی پوشیدہ یا اعلانیہ تحقیق کرے گی کہ وہ شخص عادل ہے اور اس کی گواہی قابل قبول ہے تو اس اطمینان اور ثبوت کے ساتھ گواہ صالح اور قابل اعتماد ہے تو اس شخص کو جس پر زنا کا الزام لگایا گیا ، بروئے گواہان بلایا جائے گا اور اس سے دریافت کیا جائے گا کہ آیا وہ شخص (آزاد ، عاقل ، بالغ) اور اگر خود اس نے محصن ہونے کا اقرار کیا اور گواہوں سے بھی دریافت ہوا تو اس کور جم کرنے کا حکم دیا جائے گا اور اگر اس کا محصن نہ ہونا ثابت ہو تو قاضی اسےدرے مارنے کا حکم دے گا۔ اور زانی کو گواہیاں مکمل ہونے تک محبوس رکھا جائے گا۔
شہادت کی شرائط
گواہوں کے لیے اسلامی قانون شہادت کی رو سے قا بل اعتماد ہونا لازمی ہے مثلاً کہ وہ قبل ازیں کسی مقدمے میں جھوٹا گواہ ثابت نہ ہوئے ہوں ، سزا یافتہ نہ ہوں، خائن نہ ہوں اور نہ ہی ملزم سے کوئی ذاتی دشمنی رکھتے ہوں وغیرہ اس کے سا تھ ساتھ گواہوں کو اس بات کی کھلی کھلی شہادت دینا ہو گی کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالت مباشرت میں دیکھا اس کے ساتھ ساتھ گواہوں کو اس امر میں بھی متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب کہاں کس کو کس سے زنا کرتے دیکھا۔ 82
مندرجہ بالا بنیادی امور میں اختلاف پایا جائے تو رجم کی سزا قائم نہیں ہو گی ۔
اقرار
خود زنا کا ارتکاب کرنے والے کے اقرار و اعتراف کی صورت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ مجالس میں زنا کا اعتراف کرے او ر ہر مرتبہ جب اقرار کرے تو قاضی اسے اپنے آگے سے ہٹا دے اپنی ذات پر قاضی کے سامنے جب اس طریقہ سے وہ چار مرتبہ اقرار کر لے ، اور چار کا عدد پورا ہو جائے ، تو قاضی اس پر حد لازم کردے، زانی سے چار مرتبہ اقرار کی شرائط احناف ؒ کے نزدیک ہے ۔
حضرت امام شافعی ؒ (م:204ھ)ایک مرتبہ اقرار کو کافی قرار دیتے ہیں اس لیے کہ اعتراف سے زنا کا اظہار ہو رہا ہے اور دوبارہ اقرار سے زنا کے اظہار میں زیادتی نہ ہو گی ۔ جیسا کہ دوسرے حقوق میں ایک بار اقرار کافی ہوتا ہے تعداد اقرار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ امام شافعیؒ کے نزدیک زنا کی گواہی میں چار گواہ ضروری ہیں اور دیگر حقوق کی گواہی میں دو گواہ کافی ہیں تو امام شافعی ؒ نے گواہی کی جانب میں زنا اور بقیہ حقوق کے درمیان فرق کیا ہے کہ بقیہ حقوق میں گواہوں کی زیادتی ، اطمینان دل کی زیادتی کا سبب ہوتی ہے اور احنافؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے حضرت ماعز اسلمیٰ کے واقعہ میں اس وقت تک زنا ثابت ہونے کا حکم نہیں فرمایا ، جب تک انہوں نے چا ر مرتبہ اس کا اقرار نہیں کیا۔
"فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِى. فَقَالَ النَّبِىُّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ « فِيمَ أُطَهِّرُكَ ». فَقَالَ مِنَ الزِّنَى. فَسَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ « أَبِهِ جُنُونٌ ». فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ. فَقَالَ « أَشَرِبَ خَمْرا ». فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ. قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ « أَزَنَيْتَ ». فَقَالَ نَعَمْ. فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ۔ "83
"پس کہا ائے اللہ کے رسول مجھے پاک کر دیجیے تو پھر نبی ﷺ نے اسی طرح فرمایا ۔ حتیٰ کہ جب چوتھی مرتبہ انہوں نے کہا تو رسول ﷺ نے ماعز  سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے تجھے پاک کروں ۔ ماعز بولے زنا کی وجہ سے ۔ رسول ﷺ نے دریافت فرمایا کیا یہ مجنون ہے تو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ، پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس نے شراب پی ہے تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سونگھا تو شراب کی بو نہیں پائی ، پھر آپ نے دریافت فرمایا: کیا تو نے زنا کیا ہے ؟وہ بولا ہاں، تو آپ ﷺنے رجم کا حکم فرمایا۔"
زنا کی سزا
قرآن مجید میں زنا کی سزا دو مقامات پر بیان کی گئی ہے: پہلی سزا عبوری ہے، جو بعد میں منسوخ ہو گئی ، جب کہ دوسری حتمی سزا ہے۔ عبوری سزاسورۃ النساء میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے
﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا۔ ﴾84
"اور مسلمان عورتوں میں جو بد کاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں سے چار اشخاص کی شہادت لو ، پس اگر وہ(ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھیں یہاں تک کہ ان کو موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے۔ "
حتمی سزا
زنا کی حتمی سزا سورہ النور میں مذکورہے جس کہ وجہ سے عبوری سزا کا حکم منسوخ ہوگیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ ﴾85
"زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو ، سو کوڑے مارو اور تمہیں اللہ کے حکم ماننے میں ان پر ترس نہ آئے ۔ اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایما ن رکھتے ہو اور چاہیئے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ان کی سزا کے وقت موجود ہو ۔ "
شادی شدہ (محصن ) کی سزا
محصن کی سزا رجم ہے اور رجم ایسی سزا ہے، جس میں زانی یا زانیہ کو جرم کے ثبوت کے بعد کھلے میدان میں جا کر اس قدر پتھر مارے جائیں کہ ان کی موت واقع ہو جائے۔ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت غامدیہ(ازد) کی آئی ۔ پس کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے پاک کر دیجئے
"قَالَ « وَمَا ذَاكِ ». قَالَتْ إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزِّنَا. فَقَالَ « آنْتِ ». قَالَتْ نَعَمْ. فَقَالَ لَهَا « حَتَّى تَضَعِى مَا فِى بَطْنِكِ ». قَالَ فَكَفَلَهَا رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ قَالَ فَأَتَى النَّبِىَّ -ﷺ- فَقَالَ قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ. فَقَالَ « إِذًا لاَ نَرْجُمَهَا وَنَدَعَ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ ». فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ إِلَىَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِىَّ اللَّهِ. قَالَ فَرَجَمَهَا۔"86
"آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کیا ہوا ، اس نے کہا میں زنا کی وجہ سے پیٹ سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا ، تو خود ! اس نے کہا ۔ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا ابھی جا یہاں تک کہ تیرے بچہ پیدا ہو جائے پھر جب بچہ پیدا ہو گیا تب حا ضر ہو کر اس نے آگاہ کیا ۔پھر آپﷺ نے فرمایا ابھی جا یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دے،پھر جب دودھ چھڑا دیا تو حا ضر ہوئی ۔آ پ ﷺنے فرمایا ابھی ہم اس کو رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو بےدودھ نہیں چھوڑیں گے۔ ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے (کہا کہ )میں اس بچہ کی پرورش کروں گا تب آپ نے رجم کا حکم دیا ۔ "
رجم کی صورت یہ ہے کہ لوگ نماز کی طرح صفیں باندھ کر کھڑے ہو جا تے ہیں اور ہر ایک صف باری باری پتھر مارتی ہے ۔ اگر زنا گواہوں سے ثابت ہو تو رجم کا طریقہ یہ ہے کہ رجم میں پہلے گواہ پتھر ماریں گے اور اس کے بعد حاکم یا قاضی پتھر مارے گا اور پھر باقی لوگ اور اگر زنا کا ثبوت اقرار سے ہو تو پہلے بادشاہ پتھر مارے گا اور پھر اور لوگ، جس کو رجم کیا گیا اسے غسل دینا، کفن دینا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنی جائز اور ضروری ہے۔ حضرت بریدہ  کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کی اور ارشاد فرمایا
" لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ۔"87
"اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو۔ "
غیر شادی شدہ (غیر محصن ) کی سزا
غیر شادی شدہ مرد و عورت کہ سزا قرآن مجید میں یہ ہے کہ ان کو درے مارنے کا حکم ہے۔
﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَة۔ ﴾88
"زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو ، سو کوڑے مارو۔ "
امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک درے مارنے کے ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا۔ ابو ہریرہ  اور زید بن خالد راوی ہیں ۔فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسولﷺ : میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے بیٹے نے زنا کیا ہے۔ آپﷺ میرا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق فرمائیں۔ پس رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا
"وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ َ"89
" اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کر دی جائیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ملے گی۔ "
امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مرد اور عورت کو صرف کوڑے مارے جائیں گے جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ قرآن پاک میں ہے کہ "فاجلدوا "اس کا مطلب ہے کہ صرف کوڑے مارے جائیں اور جلاوطن کرنا امام کی مصلحت پر منحصر ہے ، جیساکہ الہدایہ میں ہے
"اسلامی نظام حکومت میں زنا کی سزا مملکت کے قانونی حق اور دائرے میں دی جاتی ہے اس لیے مملکت کے تمام باسیوں پر یہ حکم لاگو ہوتا ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ "90

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...