Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

2 ۔حدِ قذف
ARI Id

1707476245802_56118796

Access

Open/Free Access

Pages

37

2 ۔حدِ قذف
قذف کا لغوی معنی پھینکنا ہے، جیسا کہ ابن فارس لکھتے ہیں
"القاف والذال والفاء أصلٌ يدلُّ على الرَّمي والطَّرح. يقال: قَذَفَ الشَّيءَ يقذِفُه قذْفاً، إذا رمى به۔ "91
"اس کا مادہ ہے " قَذَفَ " جو پھینکنے اور ایک طرف ہونے پر دلا لت کرتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ چیز پھینکی جب وہ اس کو پھینکے ۔ "
پھینکنا ، دے مارنا بھی قذف کا مفہوم ہے ، جیسا کہ ابن منظور افریقی کے نزدیک قذف کا مفہوم یوں ہے
"قذَفَ بالشيء يَقْذِف قَذْفاً فانْقَذَف رمى والتَّقاذُفُ الترامي ۔ ۔ وقوله تعالى قل إن ربي يَقْذِفُ بالحق۔ "92
"کسی چیز کو پھینکا ، اور تقاذف کا معنی ہے آپس میں تیر اندازی کرنا ۔۔۔اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دیجئے بے شک میرا رب حق کو باطل پر دے مارتا ہے۔ "
اصطلاحی مفہوم
کسی پر تہمت لگانے یا عیب لگانے کو قذف کہتے ہیں، جیسا کہ راغب اصفہانی تحریر کرتے ہیں
"القذف الرمی البعید۔ واستعیر القذف للشتم والعیب کما الستعیر الرمی۔"93
"پھینکنا ، تہمت لگانا ، قذف کا لفظ بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ "
کسی پر چار گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کی تہمت لگانا قذف کہلاتا ہے ،جیسے ابن قدامہ لکھتے ہیں
"القذف هو الرمي بالزنا۔ "94
"کسی پر زنا کی تہمت لگانا قذف کہلاتا ہے ۔ "
قذف کی حرمت
شریعت محمدی ﷺ میں کسی زنا کا الزام یا تہمت لگانے کو ایک شنیع جرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس طرح پورے معاشرے میں انسان کی عزت و عفت پر داغ لگ جاتا ہے اور اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قاذف کو ملعون قرار دیا ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ ﴾95
"جو لوگ پاک دامن ، بھولی بھالی اور ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں اورا ن کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے۔ "
اسی طرح ابوہریرہ سے مروی ہے کہ قذف کی سزا بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
" اجْتَنِبُواالسَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ» قِيلَ:يَا رَسُولَ اللَّهِ،مَا هِيَ؟ قَالَ:الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالشُّحُّ،وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ،وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ۔ "96
" ہلاکت میں ڈالنے والی سات چیزوں سے بچو ، پوچھا گیا !یا رسول اللہ ﷺ! وہ کون سی اشیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، جادو ، قتل ناحق ، سود اور یتیم کا مال کھانا ، جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا ، اور پاک دامن ، بھولی بھالی ، ایماندار عورتوں پر تہمت لگانا"۔
قاذف کی سزا
قاذف کی سزا مندرجہ ذیل ہے: 1۔ اسی(80) کوڑے لگائے جائیں ، 2۔ آئندہ ہمیشہ کے لئے اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور 3۔ اس سے معاملہ کرتے وقت اسے فاسق گردانا جائے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے
﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ ﴾97
"اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لےکرنہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کروا ور وہ خود ہی فاسق ہیں۔ "
اس آیت میں پاک دامن عورتوں کا ذکر ہے ۔ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تہمت زنا پاک دامن مردوں پر لگائی جائے تو بھی موجب حد ہے اس میں مرد و عورت کا کوئی فرق نہیں۔
قاذف کی شرائط: محصن پر زنا کی تہمت لگانے والا جو بالغ ہو ، عاقل ہو ا ور مجنون نہ ہو۔
مقذوف کی شرائط: محصن جس پر زنا کی تہمت لگے جو بلوغ ، حریت ، پاک دامنی ، اسلام، مکلف اورزنا کرنے پر قادر ہو۔ 98
ان میں سے کوئی بھی شرط کم ہو تو حد نافذنہیں ہوتی، بلکہ تعزیر لگے گی اور رسول اللہ ﷺ نے خود حد قذف جاری فرمائی، جیسا کہ اماں عائشہ سے مروی ہے
" لما نزل عذري قام رسول الله ﷺعلى المنبر فذكر وتلا القرآن فلما نزل أمر برجلين وامرأة فضربوا حدهم۔ "99
" جب میری برات نازل ہوئی تو آپ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا تذکرہ کرنے کے بعد وہ آیات تلاوت کیں۔ پھر نیچے تشریف لائے اور دو مردوں اور ایک عورت پر حد قذف جاری کرنے کا حکم دیا ۔ "
ِ لعان
ابن فارس کے نزدیک لعان
"اللام والعين والنون أصلٌ صحيحٌ يدلُّ على إبعادٍ وإطرادٍ100"
"اس کا مادہ " لَعَنَ " ہے صحیح ہے اس کا لغوی معنی ہے دوری یا گالی دینا ۔ "
ابن منظور لکھتے ہیں کہ لعان سے مراد دور ی ہے
"واللَّعْنُ الإِبْعادُ والطَّرْد من الخير وقيل الطَّرْد والإِبعادُ من الله ومن الخَلْق السَّبُّ والدُّعاء واللَّعْنةُ الاسم والجمع لِعانٌ ولَعَناتٌ ولَعَنه يَلْعَنه لَعْناً طَرَدَه وأَبعده ورجل لَعِينٌ ومَلْعُونٌ والجمع مَلاعِين 101"
" اورلعن دوری کے لیے آتا ہے اور طرد بھلائی کے لیے آتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوری اور بھلائی اللہ کی طرف سے ہے اور جب ان کی نسبت مخلوق کی طرف کریں تو اس کا معانی گالی اور دعا ہے اور لعنت اسم ہے اور اس کی جمع لعان ہے اور" ولَعَناتٌ ولَعَنه يَلْعَنه لَعْناً "اس کا مطلب ہے کہ اس کو دور کر دیا اور رجل لعین کا معنی ہے وہ شخص جو اللہ کی رحمت سے دور ہو اور ملعون کی جمع ملاعین آتی ہے۔ "
شریعت میں قذف کے عمومی قانون میں ایک استثنائی صورت بھی ہے جس کے تحت جب ایک مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے لیکن اس الزام کے ثبوت میں چار چشم دید گواہ پیش نہ کر سکے تو اس صورتحال میں قذف کی کاروائی نہیں ہوتی، بلکہ لعان کی کاروائی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ
﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ۔ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ۔ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ۔ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ۔ ﴾102
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں )جھو ٹا ہو اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس (بیوی)پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) سچاہو۔
ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، تو گواہ پیش کر یا پھر تم پر حد جاری کی جائے گی ۔
" فقال هلال يا رسول الله إذا رأى أحدنا رجلا على امرأته أيلتمس البينة ؟ فجعل رسول الله ﷺ يقول البينة وإلا فحد في ظهرك قال فقال هلال والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن في أمري ما يبرئ ظهري من الحد فنزل والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم } فقرأ حتى بلغ والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين قال فانصرف النبي ﷺ فأرسل إليهما فجاءا فقام هلال بن أمية فشهد والنبي ﷺ يقول إن الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب ؟ ثم قامت فشهدت فلما كانت عند الخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين قالوا لها إنها موجبة ۔ "103
" ہلال نے عرض کیا کہ اگر کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو کیا گواہ تلاش کرتا پھرے لیکن آپ ﷺ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ یا پھر تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے۔ ہلال نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں یقینا سچا ہوں اور میرے متعلق ایسی آیات نازل ہوں گی جو میری پیٹھ کو حد سےنجات دلائیں گی چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين۔آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں اور ان دونوں کو بلوایا ۔ وہ دونوں آئے اور کھڑے ہو کر گواہی دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! اللہ جانتے ہیں کہ تم میں سے کوئی جھوٹا ہے۔ کیا تم دونوں میں سے کوئی رجوع کرنا چاہتا ہے ؟ پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دی۔ جب و ہ پانچویں گواہی دینے لگی کہ اگر اس کا شوہر سچاہو تو اس عورت پر اللہ کا عذاب نازل ہو تو لوگوں نے کہا کہ یہ گواہی اللہ کے غضب کو لازم کر دے ۔ "
ِلعان کی کاروائی کے بعد علامہ مرغینانیؒ کے مطابق
"قاضی میاں بیوی میں تفریق کرا دے اور یہ فرقت امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک طلاق بین ہو گی اور امام یوسف ؒ کے نزدیک دائمی حرمت ہوگی ۔اس کے بعدوہ میاں بیوی کے طور پر نہیں رہ سکتے۔ "104

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...