Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

4 ۔حدِحرابہ
ARI Id

1707476245802_56118798

Access

Open/Free Access

Pages

46

4 ۔حدِحرابہ
لغوی معنی کسی کا مال یا کوئی چیز زبردستی چھین لینا ، جیسا کہ ابن فارس لکھتے ہیں
"الحاء والراء والباء أصولٌ ثلاثة: أحدها السّلْب، والآخر دويْبَّة، والثالث بعضُ المجالس.فالأوَّل: الحَرْب، واشتقاقها من الحَرَب وهو السَّلْب. يقال حَرَبْتُه مالَه، وقد حُرِب مالَه، أي سُلِبَه، حَرَباً. والحريب: المحروب. ورجل مِحْرَابٌ: شجاعٌ قَؤُومٌ بأمر الحرب مباشرٌ لها. وحَريبة الرَّجُل: مالُه الذي يعيش به، فإذا سُلِبَه لم يَقُمْ بعده. ويقال أسَدٌ حَرِبٌ، أي من شدّة غضبِه كأنّه حُرِب شيئاً أي سُلِبه. وكذلك الرجل الحَرِب۔"115
"مادہ " حَرَبَ " ہے اس کے تین معنی ہیں ایک معنی سلب کرنا(چھیننا )دوسرا دویبۃ اور تیسرا بعض المجالساور پس پہلا حرب سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے چھیننا جیسے کہا جاتا ہے میں نے اس سے اس کا مال چھین لیا اور رجل محراب ایسے شخص کو کہتے ہیں جو امور حرب میں ماہر ہو اور حریبۃ الرجل سے مراد آدمی کا وہ مال ہے جس پر اس کی گزران ہوتی ہو جب وہ چھین لیا جائے تو اس کی گزران باقی نہ رہ سکے اور" الرجل الحرب "بہادر اور شجاع آدمی کو کہا جاتا ہے۔ "
فساد پھیلانے کے لیے کسی کو قتل کرنا حرابہ کہلاتا ہے ۔ یہ لڑائی دارالاسلام میں بھی ہو سکتی ہے اور دارالحرب میں بھی ، جیسا کہ ابن منظور لکھتے ہیں
"إِنما حَمَله على معنى القَتْل أَو الهَرْج وجمعها حُرُوبٌ ويقال وقَعَتْ بينهم حَرْبٌ الأَزهري أَنَّثُوا الحَرْبَ لأَنهم ذهَبُوا بها إلى المُحارَبةِ وكذلك السِّلْمُ والسَّلْمُ يُذْهَبُ بهما إِلى المُسالمةِ فتؤَنث ودار الحَرْب بلادُ المشركين الذين لا صُلْح بينهم وبين المسلمِين وقد حاربَه مُحارَبةً وحِراباً وتحَارَبُوا واحْترَبُوا وحارَبُوا بمعنى ورجُلٌ حَرْبٌ ومِحْرَبٌ بكسر الميم ومِحْرابٌ شَديدُ الحَرْبِ شُجاعٌ۔" 116
"اس کو محمول کیا ہے قتل کے معنی پر اور اس کی جمع حروب ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان لڑائی واقع ہوئی اور دارالحرب ایسے مشرکین کا ملک ہو تا ہے کہ ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان کوئی صلح نہ ہوحاربَه مُحارَبةً وحِراباً وتحَارَبُوا واحْترَبُوا وحارَبُوا۔ رجل حرب ، رجل محرب و رجل محراب ایسے شخص کو کہتے ہیں جو شدت سے لڑائی کرنے والا اور بہادر ہو۔ "

اصطلاحی مفہوم
ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ حرابہ سے مراد
"کھلے عام لوگوں کے مال چھیننے ، ان کو گھبراہٹ میں ڈالنے ، قتل و غارت مچانے اور فساد ڈالنے کے لیے شہر یا خارج میں نکل کھڑے ہونے کو حرابہ کہتے ہیں۔ "117
حرابہ کی حرمت
کسی کا زبردستی مال چھیننا ، قتل کرنا اور زمین میں فساد پھیلانا قبیح جرم ہے جس سے معاشرے کا امن و سکون ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کام سے منع فرما یا گیا ہے اور اس کی نہایت سخت سزا بیان کی گئی ہے تاکہ لوگ اس کام کے قریب نہ جا ئیں ورنہ عذاب کے مستحق ہوں گے ،جیسا کہ ارشادربانی ہے
﴿أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾118
"تم کیوں( لذت کے ارادے سے ) لونڈوں کی طرف مائل ہوتے اور (مسافروں کی ) راہزنی کرتے ہو ، اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو تو ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولے اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ "
حرابہ (راہزنی ) کی مختلف حالتیں
1۔ راہزنی کے ارادہ سے نکلا اور کوئی چیز لینے اور کسی کو قتل کرنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا۔
2۔ راہزنی کے لیے نکلا اور مال معصوم یعنی کسی مسلمان یا ذمی کا مال لے چکا۔
3۔ مال تو نہیں لیا لیکن کسی کو قتل کر دیا۔
4۔ مال بھی لیا اور کسی کو قتل بھی کیا۔
محاربین کی سزا
پس جب راہزنی کی حالتیں مختلف ہیں تو احکام بھی مختلف نازل ہوئے اور سزا ئیں بھی مختلف ہیں
﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ ﴾119
"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں ، یا ان کے ہاتھ اور پاوں مخا لف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا وہ جلاوطن کر دیئے جائیں۔ دنیا میں ان کے لیے رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ "
حرابہ کے ارتکاب پر شریعت مطہرہ نے مندرجہ ذیل چار سزائیں مقرر کی ہیں:
1۔ قتل، 2۔ پھانسی، 3۔ مخالف سمتوں سے ہاتھ پاوں کاٹنا اور 4۔ ملک بدر کرنا۔
تمام سزاؤں کے بعد "او" بمعنی یا کی وجہ سے فقہاء میں اختلاف ہے۔ امام حالات کے مطابق جو چاہے سزا دے سکتا ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اسلامی ریاست میں اسلحہ کے ذریعے داخلی شورش کا باعث بنتے ہیں ۔ جمہور فقہاء کے نزدیک اس آیت میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو مسلح ڈکیتی کا ارتکاب کریں۔ جمہور اپنے موقف کی تائید میں اس آیت "الا الذین تابوا" سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ توبہ کی نسبت مسلمان ہی کی طرف ہو سکتی ہے ، غیر مسلم کے لیے توبہ کی اصلاح کرنا بے محل ہے۔
بیشتر علماء نے جمہور فقہاء کا موقف لیا ہے ۔ لہذا محاربہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اسلامی ریاست سے برسرپیکار ہوں اور زمین میں فساد پھیلا ئیں ، یا مسلح جدوجہد کریں ۔ ڈاکو ، مسلح ڈکیتی کرنے والے، اغواء برائے تاوان کے مجرم اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے تمام افراد اسی زمرے آتے ہیں ۔ اس جرم میں مدعی اسلامی ریاست ہوتی ہے اس لیےحرابہ کے عمل میں ملزم کسی کو قتل کر دے اور مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کردیں تو بھی اس کی جان بخشی نہیں ہو گی کیونکہ اس معاملہ میں جنگ دراصل مقتول کے ساتھ نہیں ، ریاست اور اس کے باشندگان کے خلاف بحیثیت مجمو عی ہوتی ہے۔ اس مقدمہ میں ایک مدعی یقینا مقتول کے ورثاء ہو سکتے ہیں لیکن انہیں معافی دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے ، حتی کہ اصل مدعی یعنی اسلامی ریاست کویہ بھی اختیار حاصل نہیں ہے کیونکہ اس جرم کی سزا اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔
"عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ نَاسًا أَغَارُوا عَلَى إِبِلِ النَّبِىِّ فَاسْتَاقُوهَا وَارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَقَتَلُوا رَاعِىَ رَسُولِ اللَّهِ مُؤْمِنًا فَبَعَثَ فِى آثَارِهِمْ فَأُخِذُوا فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ. قَالَ وَنَزَلَتْ فِيهِمْ آيَةُ الْمُحَارَبَةِ ۔"120
" ابن عمر سے روایت ہے کہ چند لوگوں نے نبی ﷺ کے اونٹوں پر غارت گری کی ۔انہیں چوری کر لیا اور اسلام سے پھر گئے اور رسول ﷺ کے مومن چرواہے کو قتل کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو ان کے پیچھے بھیجا۔ پس وہ لوگ پکڑے گئے تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو کاٹ ڈالا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیری اور انہی کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ ۔ ۔ ۔ "
حرابہ کی شرائط
حرابہ کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ راہزن یا محارب وہ لوگ ہوں جن کو ایسی قوت و شوکت حاصل ہو کہ راہ چلنے والے ان کا مقابلہ نہ کر سکیں اور وہ خونی ہتھیاروں سے لیس ہوں، 2۔ راہزنی شہر سے باہر ہو، 3۔ یہ واقعہ دارالاسلام میں ہو۔
4۔ لیا ہوا مال بقدر نصاب سرقہ ہو، 5۔ سب محارب اجنبی ہوں، 6۔ محارب توبہ کرنے سے پہلے پکڑے جائیں ، تو پھر ان پر حد لاگو ہو گی۔ 121

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...