Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > قتل کی حرمت ، احکام اور اقسام

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

قتل کی حرمت ، احکام اور اقسام
ARI Id

1707476245802_56118813

Access

Open/Free Access

Pages

71

اسلام میں قتل کی حرمت
اسلام نے نہ صرف قتل و غارت گری سے روکا بلکہ اس غلط کام کے مفاسد بھی بیان کیے تاکہ انسان اس گناہ سے بچ سکے۔ قتل ناحق کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا ﴾178
"جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہ کرو مگر حق شرعی کے ساتھ اور جو شخص ظلم کے ساتھ مارا جائے ہم نے اس کے وارث کو غلبہ دیا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ قتل میں زیادتی نہ کرے۔ بلاشبہ اس کی مدد کی گئی ہے۔ "
اور جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے قواعد شرعیہ کی رو سے حرام فرمایا ہے ۔ اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق پر قتل کرنا درست ہے ، یعنی جب وجوب یا اباحت قتل کا کوئی سبب شرعی پایا جائے ، اس وقت وہ "حرم اللہ " میں داخل نہیں اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے توہم نے اس کے وارث حقیقی یا حکمی کو قصاص لینے کا شرعا اختیار دیا ہے۔ سو اس کے قتل کے بارے میں حدِ شرعی سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ، یعنی قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کرے، کیونکہ وہ شخص زیادتی نہ کرنے کی صورت میں شرعا ًتو طرفداری کے قابل ہے اور زیادتی کرنے سے فریق ثانی طرفداری کے قابل ہو جائےگا ۔ اس لیے زیادتی کر کے منصوریت سے خارج نہیں ہونا چاہیے۔
مندرجہ ذیل شرعی وجوہات کی بنا پر مسلمان کا قتل جائز قرار دیاگیا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
" لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ ۔"179
"کسی مسلمان کا ، جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، خون حلال نہیں ہے مگر تین باتوں میں ۔ جان کے بدلے جان کا مارنا، شادی شدہ زانی کو رجم کرنا اور جو دین کوترک کر کے جماعت سے الگ ہو جائے (یعنی مرتد کا قتل)"۔
اس کے علاوہ باغی اور محارب کو بطور حد قتل کیا جا سکتا ہے۔ تعزیری سزا کی صورت میں جاسوس ، بدعت کی طرف بلانے والے ، لوطی ، عادی مجرم اور وزنی شے سے مارنے والے کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
حضرت عمر بن حفص  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قتل کے فیصلہ سے متعلق ارشاد فرمایا
" أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ ۔ "180
"قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ کیا جائے گا ، وہ خون ناحق کا فیصلہ ہو گا ۔ "
قتل کی سزا
کسی مردیا عورت کے قتل سے متعلق احکام کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿یا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾181
"اے ایمان والو !فرض ہوا تم پر (قصاص) برابری کرنا مقتولوں میں آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے عورت اور پھر جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کیا جائے تو موافق دستور کے تابعداری کرنی چاہیے اور اس کو احسان کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ، یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے اور مہربانی ، پھر جو اس فیصلے کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔ "
دوسری جگہ قصاص اور زخموں کے بدلے سے متعلق حکم ارشادفرمایا
﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾182
"اور لکھ دیا ہم نے ان پر اس کتاب میں کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ان کے برابر ، پھر جس نے معاف کر دیا تو وہ گناہ سے پاک ہو گیا اور جو کوئی حکم نہ کرے اس کے موافق جو کہ اللہ نے اتارا سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ "
ہاں اگر مقتول کے ورثاء خوشی سے معاف کردیں یا دیت پر راضی ہو جائیں تو قصاص نہیں لیا جائے گا، جیسےابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
" مَنْ أُصِيبَ بِدَمٍ أَوْ خَبْلٍ وَالْخَبْلُ: الْجُرْحُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ بَيْنَ إِحْدَى ثَلَاثٍ، فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ: أَنْ يَقْتُلَ، أَوْ يَعْفُوَ، أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ، فَمَنْ فَعَلَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعَادَ، فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا۔"183
" جس شخص کا خون کیا جائے یا وہ زخمی کیا جائے تو اس کو (یا اس کے وارث ) تین باتوں کی اختیار حاصل ہے ، اگر وہ چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کو روکو، وہ تین باتیں یہ ہیں: یا تو قصا صاً قاتل کو قتل کرے، یا معاف کر دے یا دیت لے لے، اب جب ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات کر لے تو پھر کوئی چوتھی بات (زیادتی کی) کرے تو اس کے لئے دوزخ کی آگ ہے ، ہمیشہ اس میں رہے گا۔ "
قصاص نہ لینے پر وعید
"وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ وَمَنْ حَالَ دُونَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَغَضَبُهُ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ"184
"جو شخص قصداً مارا جائے ۔یہ قتل قصاص کو واجب کرتا ہے اور جو شخص قصاص لینے میں حائل ہو، اس پر اللہ کی لعنت اور غضب ہے ، ایسے شخص کے نہ فرض قبول ہوں گے اور نہ ہی نفل ۔ "
لیکن کسی کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں اگر مسلمان حق پر ہو، جیسا کہ حضرت ابن عباس  (م:68ھ) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
" لاَ يُقْتَلُ مُوْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلاَ ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ۔"185
کسی کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے جب تک کہ وہ عہد و ضمان میں ہے۔ "

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...