Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

4۔تحفظ نسل
ARI Id

1707476245802_56118842

Access

Open/Free Access

Pages

101

4۔تحفظ نسل
شریعت مطہرہ نے عفت و عصمت اور انساب کی حفاظت کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے از حد اقدامات فرمائے۔ مختلف قبائل میں مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنا پر اس خاندان یا قبیلہ کا تعارف ہوتا ہے ۔ نسل کے تحفظ میں مختلف خصائص کے علاوہ تقسیم وراثت میں بھی آسانی کا پہلو شامل ہے اسی وجہ سے اپنی ذاتی نسبت غیر خاندان کی جانب کرنے پر شریعت میں سخت وعید سنائی گئی ہے اورجہاں زنا کو حرام قرار دیا وہاں زنا تک پہنچنے سے پہلے اس گناہ کے دروازے ہی بند کردیے نظروں کو نیچا رکھو، مخلوط محفل پر پابندی ، عورت کی عزت کو خانہ کعبہ سے افضل قرار دیا ، پردے کا حکم جاری کیا، قوت رجولیت میں کمی کے لئے روزوں کا حکم ، جذبہ حیا کا فروغ ، نکاح کو آسان بنانا اور پھر اگر انصاف کر سکتا ہو اور طاقت رکھنے کی صورت میں چار شادیوں کی اجازت دی۔
نگاہوں کو نیچا رکھنے کا حکم
﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ ۔ ﴾241
"مؤمن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے بے شک اللہ اس سے باخبر ہے جو کام یہ لوگ کرتے ہیں۔ اور مؤمن عورتوں سے بھی کہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ "
روزے رکھنے کا حکم
جناب علقمہ بن قیس  (م:62ھ)سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے نوجوانو!
"من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه وجاء۔ "242
"!جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھے تواسے ضرور شادی کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے نگاہیں پست ہو تی ہیں اور یہ چیز پاکدامنی عطا کرتی ہےاورجو شادی کی طاقت نہیں رکھتا، وہ روزے رکھے کیونکہ اس سے ضبط نفس پیداہوتا ہے۔ "
مسلمان کی عزت کعبہ اور مکہ شہر کی طرح محترم
حضرت عبدالرحمان بن ابی بکررضی اللہ عنہ(م:53ھ) سے مروی ہے
" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِى شَهْرِكُمْ هَذَا فِى بَلَدِكُمْ هَذَا۔ "243
" بے شک تمہارے خون اور تمہارے اموال اورتمہاری عزتیں تم پر ایسے حرام ہیں جیسے آج کے دن کی ، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت ہے ۔ "
جذبۂ حیا کا فروغ
اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔ یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ انتہائی غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
حضرت ابن مسعود  (م:32ھ)سے مردی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا
" إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ الأُولى: إِذا لَمْ تَسْتَحِ فاصْنَعْ ما شِئْتَ "244
" سابقہ زمانوں کی ایک پیغمبرانہ بات یہ ہے کہ اگر تم میں حیا نہ ہو توجو جی میں آئے کر بیٹھو گے (سخت گھناؤنے کام سے بھی نہیں ہچکچاؤ گے)۔ "
حیا کے جذبے ہی سے انسان اپنے اعضائےستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے باز رہتا ہے۔
چار شادیوں کی اجازت
اگراللہ تعالیٰ نے مالی استطاعت دی ہو اور انصاف بھی کرسکتا ہو تو ایک مسلمان کو چار شادیاں کرنے کی اجازت حاصل ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً۔ ﴾245
"پس تم نکاح کرو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو ، دو یا تین ، تین یا چار ، چار اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ یکساں سلوک نہ کرسکو گے ،تو ایک عورت (کافی ہے) ۔ "
پردے کا حکم
عورتوں کے چہروں اور سینوں کے ابھار چھپانے کے لیے پردے کے احکامات دیئے گئے
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ۔ ﴾ 246
"اےنبی کہہ دوتم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے (باہر نکلا کریں تو) اپنے ( چہروں) پر چادر لٹکا کر(گھونگٹ نکال) لیا کریں ۔ "
زناکے تمام ممکنہ راستے بند کرنےکے بعد زنا کے قریب نہ جانا ، زنا کی ممانعت اور پھرنقصانات بتائے گئے۔ قرآن میں زنا اکثرمقامات پر قتل نفس کے جرم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ان دونوں کے درمیان جو تعلق ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں جرم ایسے ہیں جن سے نسل انسانی کا ضیاع ہوتا ہے۔
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ۔ ﴾ 247
"اورزنا کے قریب بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے اور تم کسی نفس کو نا حق قتل نہ کرو ، جس کو اللہ نے حرام فرمایا"
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آَخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۔ ﴾ 248
"اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جن جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگرجائز طریق پر، اور زنا نہیں کرتے ۔ "
عبادہ بن صامت  (م:35ھ)نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کے ہاں ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ،تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ
" أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا۔ "249
" اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ گے اور چوری اور زنا نہیں کرو گے۔ "
اسی لیے اسلام میں زنا کرنے پر حد کی سزا مقر ر کی گئی ہے شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگائے جائیں گے کیونکہ زنا کی وجہ سے نہ صرف نسل برباد ہوتی ہے بلکہ معاشرتی امن وسکون بھی برباد ہوجاتا ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمٰن کے مطابق
"زنا کے پھیل جانے پر نتیجتاً جو امر مرتب ہوگا وہ یہ کہ لوگ اسی قسم کا تعلق قائم کرنے پر اکتفا کر لیں گے اوراس طرح خاندانی سلسلے کانام ونشان باقی نہ رہے گا جس کی بناء پر معاشرے کے قوی تر روابط تباہ ہو جائیں گے اور نسل ضائع ہو جائے گی کیونکہ اس وقت دو صورتیں ہی ممکن ہو سکتی ہیں اول یہ کہ جن لوگوں میں یہ علاقہ قائم ہوا ہے یا تو ان میں پیدائش نسل کا کا سلسلہ ہی قائم نہ ہو ، اس طرح انسانی آبادی میں قلت واقع ہو گی اور اضافے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا دوم یہ کہ پیدائش نسل کا سلسلہ چلتا رہے، بڑھتا رہے مگر اب غیر شرعی اولاد پیداہو گی اور ان کی پرورش ایسی پرورش گاہوں میں ہو گی جو ان کے لیے قائم کی گئی ہوں گی اور اب یہ بچے یہ نہ سمجھ سکیں گےکہ ان کا باپ کون ہے اور ماں کون؟ ایسی اولاد میں یہ خصلت ہو گی کہ انہیں کسی سے الفت نہ ہو گی، بلکہ یہ باہمی الفت کےنام ہی سے ناآشنا ہوں گے۔ ان سے ہمیشہ اذیت پہچانے والے امور کا صدور ہو گا ۔ اس طرح جماعت کی وحدت و قوت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ "250
قوانین حدود و قصاص پرعمل درآمد کا مقصد جہاں حفظ جان ہے وہاں اس کا مقصد حفظ نسل ونسب بھی ہے کیونکہ زنا کی وجہ سے نہ صرف عورت کی عزت وحرمت اور عفت وعصمت پر حرف آتا ہے بلکہ اس سے اس کے پورے خاند ان کی بھی عزت خراب ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس حوالے سے سید متین ہاشمی لکھتے ہیں
"حرمت زنا کی دوسری وجہ عصمتوں کی حفاظت ہے کیونکہ عفت و عصمت کے ازالے کے بعد عورت اور اس کے قبیلے کے تمام افراد میں دنائت پیداہوجاتی ہے ، عورت خود بھی ذلیل ہوتی ہے اور اس کے باعث اس کے اہل خاندان کا وقار بھی بری طرح مجروح ہو جاتا ہے ۔ "251
جب زنا عام ہوتا ہے تو نسب کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے خصوصاً جب ایک شادی شدہ عورت زنا کرتی ہے تو وہ اپنے خاوند اور خاندان کی عزت کو داؤ پہ لگانے کے ساتھ ساتھ کسی غیر مرد کے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے خاوند کے خاندان کا فرد بنا دیتی ہے اور ایک غیر قوم کا بچہ اس خاندان کا فرد یا وارث قرار پاتا ہے، جیسا کہ سید سابق تحریر کرتے ہیں
"زنا میں نسب کے ضیاع ، غیر مستحقین کو وراثت میں حق دار بنان اور خاوند کو دھوکہ دینے جیسے مفاسد ہیں ۔ ایسے ہی اگر زنا کی وجہ سے حمل ٹھہر جائے تو انسان کو اس کے نتیجے میں کسی دوسرے کی اولاد کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ "252
زنا کے مفاسد اس سے بھی زیادہ ہیں اگر کسی معاشرے اور قوم میں یہ گناہ پھیل جائے تو نہ صرف یہ کہ نسل برباد ہوتی ہے بلکہ رشتوں ناطوں کی پہچان بھی ختم ہو جاتی ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...