Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > عہد فاروقی میں حدود و قصاص کی تنفیذ

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

عہد فاروقی میں حدود و قصاص کی تنفیذ
ARI Id

1707476245802_56118852

Access

Open/Free Access

Pages

129

عہد فاروقی میں حدود و قصاص کی تنفیذ
حضرت ابو بکر صدیق  نے مرض الوفات میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کےمشورے سے حضرت عمر کو امیر المومنین مقررفرمایا۔ 22جمادی الثانی سن 13 ہجری کو یہ خلیفہ بنے اور 27 ذوالحجہ سن 23 ہجری تک ان کادور حکومت ہے ۔ ان کا عدل آج تک ضرب المثل بناہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے میں اللہ کے بندوں میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حساب سے ڈرنے والے تھے اور لوگوں پر حکومت کرنے میں جس بے لاگ سوجھ بوجھ ، باریک بینی اور محاسبہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے، اسے خوب جانتے تھے ۔آپ  نے عدالتی نظا م کو ایک علیحدہ محکمہ کی شکل دی ۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں قاضیوں کا دائرہ عمل صرف شہری تنازعات کے فیصلوں تک محدود تھا ۔ قصاص اور حدود کے اجراء کا کام خلفاء اور علاقائی حکمران خود سر انجام دیتے تھے اور وہی ان کا نفاذ کرتے تھے۔ ہمیں تاریخ سے ایسے ان گنت واقعات کو علم تو ہوتا ہے کہ قتل کرنے ، شراب نوشی اور اس قسم کے دوسرے جرائم میں خلیفہ یا اس کے عمال نےمجرموں کو قتل اور کوڑوں کی سزا سنایالیکن کسی قاضی کے متعلق ہمیں یہ علم نہیں کہ اس نے اس قسم کے مقدمات جنہیں موجودہ زمانے کی اصطلاح میں فوجداری کہا جاتا ہے کی سماعت کی ہو، قید اور جرمانہ جیسی تادیبی سزائیں بھی خلیفہ یا اس کا مقرر کردہ عامل ہی دیتا تھا ، اس طرح اس دور میں قضا ء کا دائرہ بڑی حد تک دیوانی مقدمات تک محدود تھا۔ حضرت عمر فاروق  کے دور کے چند واقعات کو بطورمثال درج کیا جارہا ہے:
حدزنا کانفاذ
حضرت عمر  کے پاس ایک شخص آیا جب وہ شام میں تھے ،اس نے بیان کیا کہ
" أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَبَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ إِلَى امْرَأَتِهِ يَسْأَلُهَا عَنْ ذَلِكَ فَأَتَاهَا وَعِنْدَهَا نِسْوَةٌ حَوْلَهَا فَذَكَرَ لَهَا الَّذِي قَالَ زَوْجُهَا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأَخْبَرَهَا أَنَّهَا لَا تُؤْخَذُ بِقَوْلِهِ وَجَعَلَ يُلَقِّنُهَا أَشْبَاهَ ذَلِكَ لِتَنْزِعَ فَأَبَتْ أَنْ تَنْزِعَ وَتَمَّتْ عَلَى الْاعْتِرَافِ فَأَمَرَ بِهَا عُمَرُ فَرُجِمَتْ"291
" اس نے بیان کیا کہ میں نے اپنی عورت کے ساتھ ایک مرد کو پایا ۔آپ نے واقد لیثی (م:68ھ)کو بھیجا کہ عورت کے پاس جا کر پوچھو ، وہ عورت کے پاس گئے ۔اس کے پاس اورعورتیں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جو اس کے خاوند نے حضرت عمر سے بیان کیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا کہ خاوند کےکہنے سے تجھے مواخذہ نہ ہو گا ۔اس کو اس قسم کی باتیں سکھانے بھی لگے تاکہ وہ اقرار نہ کرے لیکن اس نے نہ مانا اور زنا کااقرار کیا ۔ حضر ت عمر نے اس کے رجم کا حکم دیا اور رجم کی گئی۔ "
زنا بالرضاکا فیصلہ
ایک خاتون زنا ہی کے جرم میں سیدنا عمر  کے پاس لائی گئی اور اس نے بتایا کہ وہ نادار اور محتاج ہے اور لوگ اس پر ترس کھا کر اس کہ مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے وہ جسم فروشی کر کے کچھ پیسے جمع کر لیتی ہے۔ یہ خاتون محصنہ ہونے کی بنا پر رجم کی مستحق تھی لیکن
" فجلدها مئة"292
" حضرت عمر  نے اسے سو کوڑے سزا دی۔ "
زنا بالجبر کی سزا
"عَنْ نَافِعٍ أَنَّعَبْدًا كَانَ يَقُومُ عَلَى رَقِيقِ الْخُمُسِ وَأَنَّهُ اسْتَكْرَهَ جَارِيَةً مِنْ ذَلِكَ الرَّقِيقِ فَوَقَعَ بِهَا فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَنَفَاهُ۔ "293
"ایک غلام جو کہ صدقے کے غلاموں پر نگران تھا ۔اس نے ایک لونڈی سے جبراً برائی کی تو حضرت عمر  نے اسے کوڑے مارے اور اسے جلاوطن کردیا۔ "
حالت اضطرار میں زنا کی سزا
سیدنا عمر  کے سامنے ایک عورت کا مقدمہ پیش کیا گیا ، جس نے اضطراری حالت میں زنا کیا تو
" فَمَرَّتْ عَلَى رَاعٍ فَاسْتَسْقَتْ فَأَبَى أَنْ يَسْقِيَهَا إِلَّا أَنْ تُمَكِّنَهُ مِنْ نَفْسِهَا، فَفَعَلَتْ،فَشَاوَرَ النَّاسَ فِي رَجْمِهَا،فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: هَذِهِ مُضْطَرَّةٌ۔"294
" اس (عورت)سے معلوم ہوا کہ ایک سفر کے دوران اس نے ایک چرواہے سے پینے کیلئے پانی مانگا تو اس نے اس شرط پر پانی دینے پر رضا مندی ظاہر کی کہ خاتون اسے اپنے ساتھ زنا کرنے کی اجازت دے ۔ چنانچہ خاتون نے شدید پیاس سے مجبور ہو کر اس کی شرط پوری کر کے اس سے پانی حاصل کیا۔ سیدنا عمر نے اس ضمن میں صحابہ سے مشورہ کیا تو سید نا علی  نے کہا کہ اس حالت اضطرار میں ایسا کیا ہے ۔ "
چنانچہ اس خاتون کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
قذف کی سزا
عمرۃ بن عبدالرحمٰن ؒ (م:98ھ)سے روایت ہے
"انَّ رَجُلَيْنِ اسْتَبَّا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ وَاللَّهِ مَا أَبِي بِزَانٍ وَلَا أُمِّي بِزَانِيَةٍ فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ قَائِلٌ مَدَحَ أَبَاهُ وَأُمَّهُوَقَالَ آخَرُونَ قَدْ كَانَ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ مَدْحٌ غَيْرُ هَذَا نَرَى أَنْ تَجْلِدَهُ الْحَدَّ فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ ثَمَانِينَ وَقَالَ آخَرُونَ قَدْ كَانَ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ مَدْحٌ غَيْرُ هَذَا نَرَى أَنْ تَجْلِدَهُ الْحَدَّ فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ ثَمَانِينَ۔ "295
"دو مردوں نے حضرت عمر کے زمانےمیں گالی گلوچ کی ۔ ایک نے دوسرے سے کہا! اللہ کی قسم میرا باپ نہ تو بدکار تھااور نہ ہی میر ی ماں ۔ حضرت عمر نے اس بات میں مشورہ کیا ۔ایک شخص بولا اس میں کیا برائی ہے کہ اس نے اپنے باپ اور ماں کی خوبیاں بیان کیں اور لوگوں نےکہا ۔کیا اس کے باپ اور ماں کی صرف یہی خوبی تھی؟ ہمارے نزدیک اس کو حد قذف مارنی چاہیے اور عمر  نے اسے اسی کوڑے لگوائے "
مرتد کی سزا
حضرت عمرو بن العاص  (م:51ھ)جب مصر کے حاکم تھےتو حضرت عمر  کو خط لکھ کر مرتد کے بارے سوال کیا تو فرمایا
"أن اقبل منه الإسلام ما قبل الله منهم اعرض عليه الإسلام فإن قبل فاتركه وإلا فاضرب عنقه۔"296
" جب تک اللہ اس سے اسلام قبول کراتا ہے تم بھی کیے جاؤ۔ اس کے سامنے اسلام پیش کرو ، مان لے تو چھوڑ دے ورنہ گردن مار دی جائے۔ "
دیت کا فیصلہ
حضرت ابوعبیدہ  (م:18ھ)کے پاس ایک مسلمان کا ذمی کو قتل کرنے کا مقدمہ لایاگیا تو انہوں نے اس مقدمہ کے بارے میں حضرت عمر  کو لکھاتو انہوں نے جواب دیا
" إن كان ذاك منه خلقا فقدمه واضرب عنقه وإن كانت هي طيرة طارها فأغرمه ديته أربعة آلاف"297
"اگر وہ وہاں کا پیدائشی ہے تو قاتل کی گردن اڑا دو اور اگر وہ وہاں کا پیدائشی نہیں تو قاتل کے ذمے اس کی دیت چار لاکھ درہم لازم کر دو۔ "
حد خمر کا اجراء
" عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلَانٍ رِيحَ شَرَابٍ فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرَابُ الطِّلَاءِ وَأَنَا سَائِلٌ عَمَّا شَرِبَ فَإِنْ كَانَ يُسْكِرُ جَلَدْتُهُ فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ تَامًّا۔ "298
"سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر  نکلے اور کہا کہ میں نے فلاں کے منہ سے شراب کی بو پائی ۔ وہ کہتا ہے میں نے شرابِ طلاء پی اور میں پوچھتا ہوں کہ اگر اس میں نشہ ہے تو اس کو حد ماروں گا ۔ پس عمر نے اس کو پوری حد لگائی۔ "
قصاص میں مقتولین کو قتل کی سزا
سعید بن المسیب ؒ (م:94ھ)کہتے ہیں
" أن عمر بن الخطاب  قتل نفرا خمسة أو سبعة برجل قتلوه ۔ "299
" حضرت عمر بن الخطاب  نے ایک شخص کے بدلے میں پانچ یا سات آدمیوں کو قتل کیا اور یہ سب لوگ اس کے قتل میں شریک تھے۔ "
کان کی دیت
"أن عمر رضي الله عنه قضى في الإذن بنصف الدية۔"300
"حضرت عمر نے کان کی دیت میں نصف دیت کا فیصلہ دیا"

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...