Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > 2۔ اہل اور تربیت یافتہ حکام کا انتخاب و تقرر

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

2۔ اہل اور تربیت یافتہ حکام کا انتخاب و تقرر
ARI Id

1707476245802_56118858

Access

Open/Free Access

Pages

159

حکام بالا ،بااختیارمقتدر عہدیداران اور ملازمین و اہلکاروں کے بغیر نظام حکومت نہیں چل سکتا ۔ حکام میں صدر ، وزیراعظم ، گورنرز، وزرا ءسےمشیروں تک، قضاۃ سے لے کر فیصلہ لکھنے والوں تک اور مفتیان کرام تک سب شامل ہیں ۔ ان سب مناصب پر اہل ، ایماندار اور قابل لوگوں کا تقرر لازمی امر ہے ۔ ان حکام کے انتخاب کے لیے شریعت مطہرہ نے اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
2.1ریاستی عہدوں پر اہل افراد کا تقرر
سیاست کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاست میں انتظامی امورکی انجام دہی کے لیے تمام عہدوں اور مناصب پر اہل، باصلاحیت اور ایماندار افراد کا تقرر کیا جاناچاہئے ۔ حکومت کے اختیارات اور اموال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی امانت ہیں جنہیں خداترس، ایماندار اور عادل لوگوں کے سپردکیا جانا چاہئے اور اس امانت میں کسی شخص کواپنی مرضی کے مطابق ، یا نفسانی اغراض کے لئے استعمال کرنے کاحق نہیں ہے ۔ جب کسی منصب پرکسی نااہل شخص کا تقرر ہوتا ہے تومعاشرہ میں بدامنی، ظلم وزیادتی اور بے چینی کا آنا لازمی امر ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے
"فَإِذَا ضُیِّعَتِ الأَمَانَۃُ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ، قَال کَیْفَ إِضَاعَتُہَا؟قَال إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَی غَیْرِ أَھلِہِ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ ۔" 345
’’ جب امانت ضائع کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا کہ یا رسول اللہ امانت کیسے ضائع ہوگی۔ آپ ﷺنے جواب دیا کہ جب کوئی منصب کسی نا اہل کے سپرد کردیا جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔ ‘‘
اقربا پروری، تعلقات اورسفارش کی بنیاد پر جب عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نااہل اورناتجربہ کار لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور نظامِ حکومت برباد ہو کر رہ جاتاہے۔ بالخصوص ایسے ریاستی مناصب جن سے عوام کے حقو ق وابستہ ہیں اور جن کے اختیار میں قوم کی دولت ہو تی ہے یا جن کے پاس قو می راز اور سلامتی و دفاع کے معاملات ہیں ، تمام مناصب اہل اور امین افراد کو تفویض کیے جانے چاہئیں۔ اسی خدشہ کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھاکہ جب قوم کی قیادت اور اختیارات نااہل لوگوں کو تفویض کر دیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرو ۔نااہل اور بد دیانت عمال لوگوں پر وقت سے پہلے ہی قیامت ڈھادیں گے اور ان کا جینا حرام ہو جائے گا ۔اسی لیے لازم ہے کہ قیادت اس بات کو مدنظر رکھے کہ اہل لوگ مناصب پر فائز ہوں

2.2مناصب پر تقرری کا قرآنی اصول
قرآن مجید میں بہتر ین ملازم اور عہدیدارکی پہچان یہ بتا ئی گئی ہے کہ جس کا م اورمنصب کے لئے اس کو رکھاجا ئے ، اس کام کی پو ری اہلیت اور طا قت رکھتاہو اور اس کا م کو وہ پوری اما نتداری سے ادا کرے۔ حضرت مو سیٰ ؑنے مدائن کے سفر میں دو لڑ کیو ں کی بکر یو ں کے پینے کیلئے پا نی پلا نے میں مدد دی ۔ دونوں لڑکیوں نے اپنے باپ حضرت شعیب ؑ سے حضرت موسیٰ ؑکی تعر یف کی کہ بادی النظر میں وہ شخص جسمانی اعتبار سے مضبوط اور روحانی طور پر امانت دار ہےاور سفا رش کی کہ آپ انہیں اپنا خدمت گار رکھ لیجئے ۔ لہذا جب کسی شخص کو جس کا م کا اہل سمجھ کر ر کھا جا ئے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی اہلیت کا پو را ثبو ت دے اور اپنے فرائض منصبی کو پو ری امانت داری اورانصاف کے ساتھ انجام دے،جیسا کہ ارشادِ با ری تعا لیٰ ہے
İ قَالَتْ اِحْدٰھُمَا یٰاَبَتِ اسْتَاجِرْہُ اِنَّ خَیْرَمَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَ مِیْنُ Ĭ346
’’ان دو عو رتوں میں سے ایک نے کہا ، ائے ابا جا ن !اس شخص کو اپناخدمت گار رکھ لیجئے ، بہترین آدمی جسے آپ ملا زم رکھیں ، وہی ہو سکتا ہے جو طا قت وربھی ہو اور امانت دار بھی ہو ۔ ‘‘
مذکورہ بالا قرآنی واقعہ سے یہ اصو ل فراہم ہوتاہے کہ سرکاری عہدیداروں کی تقرری کرتے وقت الیکشن کمیشن اور وفاقی وصوبائی پبلک سروس کمیشن کے ادارے اس بات کو مد نظر رکھیں کہ امیدوار میں مندرجہ ذیل دواوصاف ضرور پائے جائیں: اول کا م کی قو ت و صلاحیت اور دوسرا:اما نت داری اور دیانتداری
2.3مناصب کا غلط استعمال ریاست سے عہدشکنی کے مترادف
تعلیمات نبوی ﷺ میں امانت ودیانت کے ساتھ عہد کی پاسداری کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عبداﷲبن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس میں امانتداری نہیں وہ شخص دیندار نہیں اور جس کے پاس عہد کی پاسداری نہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺکی جان ہے، اس وقت تک آدمی کاد ین درست نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو اور اس کی زبان اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک اس کا دل درست نہ ہو۔ اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کی اذیت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ عرض کی گئی کہ یا رسول ﷲ ﷺاذیت کیا ہے، تو آپ ﷺنے جواباً ارشادفرمایا
"کسی شخص کا (باتوں اور مال وغیرہ میں) ملاوٹ کرنا اور ظلم کرنا اذیت ہے۔ ‘‘ 347
قرآن مجید جن لوگوں کو فوزو فلاح کی خوشخبری دیتا ہے ان میں امانتوں کی ادائیگی اور عہدکی پاس داری کرنے والے افراد شامل ہیں ، جیساکہ ارشاد ربانی ہے
İ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْن Ĭ 348
’’اور (وہ لوگ فلاح پانے والے ہیں)جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاس داری کرنے والے ہوتے ہیں۔ ‘‘
تمام حکومتی عہدیدارعہدہ سنبھالتے وقت ریاست اور آئین سے وفاداری اور ملکی ذرائع کے درست استعمال کا حلف اٹھاتے ہیں۔ دستور پاکستان کے تیسرے جدول میں منتخب نمائندوں، مختلف اعلی سول اور فوجی افسران سے لیے جانے والے حلف نامے درج کیے گئے ہیں۔ مذکورہ حلف ناموں کی عبارات کا مفہوم اور مقصد معمولی حذف و اضافے کے ساتھ یہ ہے کہ میں اپنے منصب اور ملکی ذرائع کو انتہائی ذمہ داری سے استعمال کروں گا۔ 349 پولیس افسران سے لیا جا نے والا حلف نامہ مندرجہ ذیل ہے کہ
میں اﷲتعالیٰ کو حاضر نا ظر جان کر قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر حلف دیتا ہوں کہ میں انصاف اور ایمان داری سے اپنے فرائض منصبی ادا کروں گا۔ میں خود اور اپنے سٹاف کو کرپشن میں ملوث نہیں ہونے دوں گا۔ خود بھی صر ف اور صر ف رزق حلال کھاؤں گا اور اپنے بچوں اور فیملی کی بھی رزق حلال سے پرورش کر وں گا۔ کسی سے رشوت لوں گا، نہ تقاضہ کروں گااور نہ ہی اپنے ماتحتوں کو رشوت لینے دوں گا اور صر ف میرٹ پر کام کروں گا۔ سیاسی یا غیر سیاسی پریشر میں آکر کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کروں گا۔ مکمل انصاف اور ایمان سے اپنے فرائض پور ی تن دہی سے سر انجام دوں گا۔ 350
افسران و منتظمین مناصب کا غلط استعمال کر کے گویا آئین اور ریاست کے ساتھ بدعہدی کے مرتکب ہو تے ہیں، جن کے لئے قرآن و سنت میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ حلف اُٹھانامحض ایک تقریب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک عہد ہے جو حلف اُٹھانے والااﷲتعالیٰ کو گواہ بنا کر پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام د ینے کا اپنے ڈیپارٹمنٹ، عہدہ مُلک اورملک میں رہنے والے عوام کے ساتھ کرتا ہے لیکن ایسے لوگ جو جان بوجھ کر عہد توڑ دیتے ہیں اپنے مُلک سے غداری کرتے ہیں اور اپنے فرائض کو ایمانداری سے نبھانے کے لئے اُٹھائے ہوئے حلف کوُ بھلا دیتے ہیں ایسے لوگ مُلک او رقوم کے مجرم تو ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی خداکے بھی مجرم بن جاتے ہیں۔
2.4امتیازی بنیادوں پرسرکاری مناصب کی سپردگی کی ممانعت
موجودہ جمہوری نظام میں سرکاری مناصب کوعوام الناس کے بنیادی حقوق قرار دیا گیا ہے۔ اس اصولی غلطی کی بناء پر یہ قانون وضع کیا گیا ہے کہ سرکاری مناصب آبادی کے تناسب سے تقسیم کیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ابہام کو دور کر دیا ہے جو دنیاکے اکثر وبیشتر ممالک کے دساتیر میں پایا جاتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پرکچھ حقوق لے کرپیدا ہواہے۔ تعلیمات نبویﷺ کا ماحاصل یہ ہے کہ دنیا میں ہرفرد فرائض کی ادائیگی کے لیے پیدا ہوا ہے، لہذااسلامی نظام حکومت کے قیام و بقاء اوراستحکام کے لئے ضروری ہے کہ نظامِ سلطنت میں ہرقسم کے عہدے اورمناصب صرف ان لوگوں کے سپرد کیے جائیں جوان سے عہدہ براہونے کی مکمل صلاحیت وقابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں۔ سرکاری مناصب اورذرائع درحقیقت اﷲتعالیٰ کی امانت ہیں، محض سیاسی یالسانی بنیادپر، قرابت داری اورخاندانی بنیادپریاکوٹہ سسٹم کی بنیادپر مناصب و ذرائع کی تقسیم نہ صرف سراسرخیانت اورظلم وزیادتی ہے بلکہ تعلیمات نبوی ﷺ کا استہزاء ہے۔ اس حوالے سے حضرت عمر فاروق ؓ کا قول نقل کیا جاتا ہے
’’ جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہوا ،پھر اس نے بغیر اہلیت کے کسی شخص کو باہم دوستی یا قرابت داری کی بنیادپر کسی عہدہ اور منصب پر فائز کیا تو اس نے اللہ، اس کے رسولﷺ اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی۔ ‘‘ 351
2.5ریاستی مناصب طلب کرنے کی ممانعت
شرعی اعتبار سے از خود کسی منصب یا عہدہ کا طلب کرنا ایک مذموم فعل ہے۔ رسول اللہﷺنے ازخود عہدہ ومنصب طلب کرنے ، اس کے لئے سفارش کروانے اور دل وجان سے اس کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ قرآن وسنت کا عام حکم بھی یہی ہے کہ از خود کسی سرکاری عہدے اورمنصب کو اپنے لیے طلب کرنا جائزنہیں ہے اور شریعت کی نظر میں ایسا شخص مطلوبہ عہدے کا اہل نہیں رہتا۔ رسول اللہ ﷺکا یہ معمول تھاکہ اگر کوئی از خود کسی منصب کی خواہش کا اظہار کرتا ، تو آپﷺ ایسے شخص کو عہدہ دینے سے منع فرمادیتے تھے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے
عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِی عَمِّی، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، أَمِّرْنَا عَلَی بَعْضِ مَا وَلَّاکَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَ ذَلِکَ، فَقَالَ: إِنَّا وَاللہِ لَا نُوَلِّی عَلَی ہَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَہُ، وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ ۔ 352
’’حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ (م:52ھ)کہتے ہیں کہ ایک دن میں اورمیرے چچا کی اولاد میں سے دو شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔ یا رسول اللہ!اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام مسلمانوں اور روئے زمین کاحاکم بنایا ہے ، مجھ کو بھی کسی کام یا کسی جگہ کا والی وحاکم مقرر فرمادیجئے اوردوسرے نے بھی رسول اللہ ﷺسے اسی طرح کی خواہش کا اظہار کیا ، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا!خدا کی قسم! ہم اس شخص کو کسی کا والی اور حاکم نہیں بناتے جو اس کااز خود طالب ہوتا ہے اور نہ اس شخص کو کوئی ذمہ داری اور عہدہ دیتے ہیں جو اس کا حرص اور خواہش رکھتا ہو۔ ‘‘
اگرچہ ازخود منصب طلب کرنا ایک مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے لیکن استثنائی صورتوں میں عہدہ اور منصب کی درخواست مباح ہے۔ جہاں اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگرکوئی نا اہل منتخب ہو کر قوم پر مسلط ہو گیا تویہ نااہل اور ظالم آدمی لوگوں پر ظلم کرے گا ، ملک وملت کو نقصان پہنچائے گا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس عہدہ منصب کے لائق واہل بھی نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں ازخود عہدے کاطالب ہونا اور قوم وملک کا نمائندہ بن کر کھڑے ہونااور لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ کرنا شرعاً جائزہے ، بشرطیکہ محض اقتدار وکرسی اور جاہ منصب کے حصول کے لئے نہ ہو بلکہ قوم وملت کی خدمت کے جذبے اور سماج ومعاشرہ میں پھیلے ہوئے مفاسد کو ختم کرنے کے ارادے سے ہو اور اس کے اندر بھی یہ شرط ہے کہ اپنے حریف پارٹی کی غیبت ، سب وشتم اور عیب کا ذکر اور تشہیر نہ ہو ۔
مفاد عامہ کے پیش نظر اگر کوئی شخص از خود عہدہ طلب کرے توایسا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات لازم ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثال حضرت یوسف ؑ کے اس قول سے ملتی ہے
İ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلَی خَزَآءئنِ الأَرْضِ إِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ Ĭ 353
تو حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ مصرسے ایسے وقت میں عہدے کا مطالبہ کیا کہ ان کو یقین تھا کہ اگر میں اس منصب کو نہ لوں گا تو کوئی دوسرا نااہل آدمی اس پر مسلط ہو جائے گا اور لوگوں کو تکلیف پہنچائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس منصب کے لائق وفائق آدمی موجود نہ ہواور اس بات کا اندیشہ ہوکہ اگروہ اس منصب پر کنٹرول نہیں کرے گا تو لوگو ں کو انصاف نہیں مل سکے گا ، لوگوں کو تکلیف وپریشانی ہوگی اور لوگ ظلم وستم کے شکار ہوں گے تو ایسے موقع پر خودعہدہ طلب کرنا جائز ہے۔ استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ، یا انتظامی منصب ہو، یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اورممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ، جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص قرآن و سنت کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں کسی منصب پر فائز ہونے کے لئے حفیظ اور علیم کی صفات کوبنیاد بنایا گیا ہے۔ گویا ایک محافظ کے لئے جس طرح کی صلاحیتیں مطلوب ہوتی ہیں، مثلاً بہادر،جرأت مند، پراعتماد، دیانتدار، متقی جیسی صفات اور علیم کا مطلب چوکنا اور باخبر، معاشیات کا علم رکھنے والا اس منصب کا اہل ہے۔ اس سے یہ اصول ملتا ہے کہ وزارتِ خزانہ کے ذمہ دار لوگ ان دونوں صفات سے متصف ہوں۔ اسی طرح ارشاد نبوی ﷺ ہے
’’ حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔ دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے ۔ ‘‘ 354
مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور فقہائے کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میں احتیاط واحتیاج کے پہلوکو مد نظررکھا ہے۔ اگر امامت وقضاء کے عہدے کا طالب شخص نا اہل اور غیر مستحق ہو تو اس صورت میں منصب کی طلب مطلقاً ممنوع ہے۔ اسی طرح اگر طلب منصب حب مال اور اقتدار سلطنت کی ہوس اور مال ودو لت کی لالچ میں ہو تو اس وقت بھی عہدہ کا طلب مطلقا ًممنوع ہے لیکن اگر اس سے لوگوں کی اصلاح مقصود ہو اور عدل وانصاف کو قائم کرنے کا عزم وحوصلہ ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ مذموم نہیں ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...