Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

1۔ ججزکا کردار
ARI Id

1707476245802_56118862

Access

Open/Free Access

Pages

172

1۔ ججزکا کردار
اسلام کے ابتدائی دور میں قاضی کے تقرر کے لیے شرائط مندرجہ ذیل تھیں: مکلف ہو، جسمانی طور پر صحت مند ہو اور تعلیمی قابلیت مجتہد والی صفات موجود ہوں ۔ اس کے علاوہ لوگوں کی نفسیات سے واقف ہو۔خلیفہ خو د قضاۃ کا تقرر کرتا تھا۔ بنوعباس کے دور میں البتہ قاضی القضاۃ کا عہدہ پہلی بار متعارف ہوا۔ اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے والی شخصیت قاضی ابویوسف ؒ کی ہے ۔ان کو بھی اختیار حاصل تھا کہ وہ تین براعظموں پر مشتمل اس ریاست کے قاضی کا تقرر کر سکیں۔صد ر ِاسلام میں نظام قضاء کے لیے قاضی کو جن امورکا خیال رکھنا پڑتا تھا اورفیصلہ دینے کا طریقہ کار کیا تھا۔ اس حوالے سے حضرت عمر  کا ایک خط جو آپ  نے حضرت ابو موسیٰ اشعری  کو لکھا تھا ان میں سے اکثر تفصیلات کو سموئے ہوئے ہے ۔ السنن الکبرٰی للبیہقی اورالدارقطنی ؒنے یہ خط ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے
"كتب عمر إلى أبي موسى أما بعد فإن القضاء فريضة محكمة وسنة متبعة فافهم إذا أدلى إليك فإنه لا ينفع تكلم بحق لا نفاذ له آس الناسي في مجلسك وفي وجهك وقضائك حتى لا يطمع شريف في حيفك ولا ييأس ضعيف من عدلك البينة على المدعي واليمين على من أنكر والصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا ومن ادعى حقا غائبا أو بينة فاضرب له أمدا ينتهي إليه فإن بينه أعطيته بحقه وإن أعجزه ذلك استحللت عليه القضية فإن ذلك هو أبلغ في العذر وأجلى للعلماء ولا يمنعنك قضاء قضيت فيه اليوم فراجعت فيه رأيك فهديت فيه لرشدك أن تراجع فيه الحق فإن الحق قديم لا يبطله شيء ومراجعة الحق خير من التمادي في الباطل والمسلمون عدول بعضهم على بعض إلا مجربا عليه شهادة زور أو مجلودا في حد أو ظنينا في ولاء أو قرابة فإن الله تعالى تولى من العباد السرائر وستر عليهم الحدود إلا بالبينات والإيمان ثم الفهم الفهم فيما أدلى إليك مما ورد عليك مما ليس في قرآن ولا سنة ثم قايس الأمور عند ذلك وأعرف الأمثال ثن اعمد فيما ترى إلى أحبها إلى الله وأشبهها بالحق وإياك والغضب والقلق والضجر والتأذي بالناس والتنكر عند الخصومة أو الخصوم شك أبو عبيد فإن القضاء في مواطن الحق مما يوجب الله به الأجر ويحسن به الذكر فمن خلصت نيته في الحق ولو على نفسه كفاه الله ما بينه وبين الناس ومن تزين بما ليس في نفسه شانه الله فإن الله تعالى لا يقبل من العباد إلا ما كان خالصا فما ظنك بثواب عند الله في عاجل رزقه وخزائن رحمته والسلام عليك ورحمة الله۔"365
"اچھی طرح سمجھ لو کہ قضاء ایک دینی ذمہ داری ہے جو سنت نبویﷺ کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ جب کوئی شخص اپنا مقدمہ تمہارے پاس لائے تو کامل غور و فکر کے ساتھ اس کی باتیں سنو اور جب تم فریقین کی باتیں سننے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جاؤ تو اس کا نفاذ بھی کرو، کیونکہ درست فیصلے کرنےکا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اس فیصلے کا نفاذ نہ کیا جائے۔ تمام لوگوں کو اپنے سامنے اور اپنے انصاف میں برابر رکھو تاکہ کمزور اور غریب آدمی انصاف سے مایوس نہ ہو اور زبر دست اور طاقتور کو تم سے کسی رو رعایت کی امید نہ ہو ۔ جو شخص دعوٰ ی کرے ، اس کے ذمہ ثبوت پہنچانا ضروری ہے اور جو اپنے خلاف عائد کردہ الزامات کی تردید کرے، اس سے قسم لینا ضروری ہے ۔ مسلمانوں کےدرمیان صلح جائز ہےلیکن یہ ایسی صلح ہو جو حلال کو حلال رکھے اور حرام کو حرام رہنے دے ۔ اس کے مقابلے میں ایسی صلح جائز نہیں جس سے حرام حلال اور حلال حرام ہو جائے ۔ اگر کوئی شخص اپنے حق کو ثابت کرنے کی خاطر فوری طور پرثبوت مہیا نہ کرسکے تو اسے کچھ عرصہ کی مہلت دو ۔ اگر اس عرصے میں وہ ثبوت مہیا کر دے تو اس کا حق اسے دلادو۔ لیکن اگر مدت کے اختتام تک وہ ثبوت بہم نہ پہنچا سکے تو مقدمہ خارج کر دو ، ایسا کرنے سے اتمامِ حجت ہو جائے گی اور شک بھی دور ہو جائے گا۔ اگر تم نے آج کوئی فیصلہ کیا ہے لیکن مزید غوروفکر اور عقل سے کام لینے کے بعد ، تمہیں وہ فیصلہ غلط معلوم ہو ا اور حق بات ظاہر ہو جائے تو پہلے فیصلے سے رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حق اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اسے کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور باطل پر اصرار کرنے سے حق کی طرف رجوع کرنا بہرحال بہتر ہے ۔ سب مسلمان قابلِ اعتبار ہیں ، سوائے ان اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں کوڑے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہو یا جن کا نسب مشکوک ہو۔ جب کسی مسئلے کے بارے میں آپ کے دل میں شک و شبہ پیدا ہو اور کتاب اللہ اور سنت نبویﷺ میں اس کاذکر نہ ہو تو اس پر خوب غور و فکر کرو، پھر اس کی مثالوں اور نظیروں کو دیکھئے ۔ اس کے بعد قیا س سے کام لیجئے اور جو قیاس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے زیادہ قریب ہو اس کے مطابق فیصلہ کیجئے ۔ مقدمہ کا فیصلہ کرتے وقت تنگ دلی کا اظہار نہ کرو ۔ فریقین ِ مقدمہ کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ ۔ مقدمہ پیش ہونے کے وقت بدخلقی نہ دکھاؤ ۔ اگر مقدمہ کا صحیح فیصلہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کا بہت اجر دے گا ، جس شخص کی نیت ٹھیک ہوگی اور خواہ اسے اپنے عزیز واقارب کے خلاف ہی فیصلہ کرنا پڑے ، لیکن وہ حق و انصاف کے راستے پر گامزن رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا ہر طرح سے کفیل ہو گا ۔ لیکن جو شخص عدل و انصاف سے بھٹک جائے گا اور ایسا فیصلہ کرےگا جس پر خود اس کا دل مطمئن ہونے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کو صرف اس صورت میں ثواب کا حقدار ٹھہر ائے گا، جب وہ اپنے اعمال خلوصِ نیت کے ساتھ بجا لائیں گے ۔ تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ "
نظام قضاء کی سب سے اہم اور مؤثر شخصیت قاضی یا جج کی ہے ۔ قاضی کے تقرر کے وقت اگر اس کی جسمانی اہلیت اور تعلیمی قابلیت کی شرائط کے مطابق امیدوار مل جائیں، پھر ان کی صحیح تربیت اور محاسبہ کا اہتمام بھی ریاست کے نظم میں ہے، تو پھر نظام قضاء بہتر صورت میں چلتا ہے اور اس کے اثرات و ثمرات سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے۔ حدودوقصا ص قوانین کےعدم نفاذکی ایک بڑی وجہ عدلیہ میں ججوں کے انتخاب ، ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا غیر مؤثر ہو نا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو چیزیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں :ایک قابلیت اور دوسری دیانت ۔ دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص ، سیاسی و دیگرمصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہر سطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر بھی درآئے اور موجودہیں جن کی اکثریت میں صلاحیت ودیانت دونوں شک و شبہ سے بالا نہیں ۔
عدلیہ کی بہتر کارکردگی اور آزادی کے لیے ججز کا تقرر شفاف اور صاف ہو۔ پاکستا ن میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار قابل اصلاح ہے ۔ تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر تقرری کی جاتی ہے یا سیاسی لوگ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خاص لوگوں کو آگے لاتے ہیں اور اپنے مفادات پورے کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے خورشید احمد لکھتے ہیں
"یہ بات ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کا آغاز ججوں کے صحیح تقرر سے ہوتا ہے، لیکن بالآخر اس کا انحصار جج کے کردار اور شخصیت پر ہے۔ اب ججوں کے تقرر کے طریق کار کے بارے چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں: اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ جو قانون اور روایات ہمارے ملک میں کارفرما رہی ہیں، وہ کوئی اچھی مثال پیش نہیں کرتیں۔ برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس کے مشورے سے ججوں کا تقرر کیا کرتاتھا۔ یہ سلسلہ 50کے عشرے تک جاری رہا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بالعموم ججوں کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں عدلیہ آزاد تھی۔ اس میں دیانت تھی اور کردار تھا۔ انھوں نے بالعموم اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے جسٹس محمد منیر کے دور سے حالات بدلنے لگے۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی صدارت کے زمانے میں ججوں کے تقرر کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا، اس میں ذاتی پسند، قرابت داری اور سیاسی وفاداریوں کا عمل دخل شروع ہوگیا۔ اس معاملے میں ہماری تاریخ میں پچھلے 40سال خاصے تاریک رہے ہیں۔ آپ جناب حامدخان کی کتاب (پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ) کو دیکھیں، جس میں نام لے لے کر ایک ایک واقعہ دیا گیا ہے کہ کس طریقے سے ججوں نے جو تجاویز دیں، ان میں ایک بڑی تعداد کی سفارش جس بنیادپر ہوئی، وہ ذاتی پسند وناپسند، قرابت داری اور دوستیوں اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر تھیں، جن میں اہلیت و صلاحیت اور کردار کو نظرانداز کردیا گیا۔ پھر سیاست دانوں نے بھی اپنے اپنے دور میں بدقسمتی سے یہی کام کیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن جن حضرات کی نگاہ سے سابق سینیٹر جسٹس (ر) عبدالرزاق تھہیم کی کتاب(عدلیہ اور جج) گزری ہے، وہ گواہی دیں گے کہ یہ داستان بڑی تلخ اور شرمسار کرنے والی ہے کہ ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کیا کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی خودنوشت پڑھیے۔ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کس طریقے سے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے شوہر جناب آصف علی زرداری کو ان سے یہ بات کرنے کے لیے بھیجا کہ حکومت انھیں دو ججوں کو نظراندازکرکے چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے، لیکن مطالبہ یہ تھا کہ پہلے وہ وزیراعظم صاحبہ کو اپنا استعفیٰ لکھ کر دے دیں، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تاکہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں366۔
ججز کے تقرر کے لیے صاف اور شفاف طریقہ کار ہونا ضروری ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں 18ویں اور 19ویں ترمیم کے ذریعے ججز کے تقرر کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صوابدیدی اختیار حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کواور نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقۂ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تاکہ کسی ایک فرد یا ادارے کو بالادستی حاصل نہ ہو۔ ہرمعاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی: ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہرپہلو کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔ تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا مشترکہ حصہ ہوگا ۔ اس طرح فیصلے بہتر ہوں گے۔
ججز کو رشوت ستانی اور اقرباء پروری سے لازمی طور پر احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ انصاف فراہم کرنے والے ہوتے ہیں اور انہیں حکومت وسیاستدانوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے ۔ معاشرے میں ہزاروں مثالیں مل جاتی ہیں جس سے ان کی رشوت ستانی ، اقربا پروری اور حکومت کے اثر انداز ہونے کے واقعات ملتے ہیں ۔ اسی طرح ججز کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں بلاخوف وخطر انصاف فراہم کر سکیں ۔ بڑے دہشت گردوں کو سزا دینے سے ججز ڈرتے ہیں جس کی وجہ جرائم پر قابو نہیں پا یا جارہا۔ جج فیصلے کرنے میں آزاد ہو اور انصاف کے مطابق فیصلے کرے ۔ اس حوالے سے خورشید احمد رقم طراز ہیں
"آزادی کا سب سے زیادہ انحصار جج کی صلاحیت اور اس کے کردار پر ہے۔ بلاشبہ ججوں کے تقرر کے طریقۂ کار کا بھی اس میں ایک حصہ ہے، لیکن اصل عامل جج کا کردار اور دستور اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہے۔ یہاں میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں وہاں کے ایک چیف جسٹس نے صاف الفاظ میں تحریر کیا ہےیہ جج کا کردار ہے جو عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے نہ کہ تقرر کا طریقہ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی براہِ راست اس شخص کے کردار سے مربوط ہے جس کو جج کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ جج آزادی سے کام کرے گا۔ "367
جج کو تقوٰی اختیار کرتے ہوئے سب سے برابر ی کی سطح پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، امیر ہو یا غریب لیکن آج فیصلے تقوٰ ی والی صفت کو مدنظر رکھے بغیر ہوتے ہیں ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔
دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوں کی فوری ضرورت ہے۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ ججوں کے تقرر کے لیے دستوری ترمیم کے ذریعے بالکل آزاد ایک ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے زیر کار جوڈیشری سے سفارش کردہ ایماندار اور قابل وکلاء میں سے بعد از چھان بین صدرمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کرنے کا پابند ہو۔
2۔ نئے تقرر ہونے والے ججوں اور پہلے سے موجود ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کم از کم 10 فی صد ججوں کا تقرر کنفرم نہ کیا جائے اور انہیں اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر نئے تقرر ہونے والے ججوں کی صف میں شامل کیا جائے۔
3۔ ججوں کی تعداد میں حالات کے مطابق اضا فے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑ ھ لاکھ سے زائد مقدمات جن میں سے ہزاروں سزائے موت کے مقدما ت تاخیر کا شکار ہیں ۔ انصاف میں تاخیر ، انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ، جن میں ججوں کی تعداد میں کمی ، ججوں کی آسامیوں کا بلاجوازخالی رکھنا۔
4۔ ججوں کی مدت ملازمت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف با معاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ۔ لہٰذا مناسب ہو گا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے اور پابند کیا جائے کہ ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم وتحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے ، جس کی تنخواہ نہ ہو بلکہ ضروری سہولیات فراہم کی جائیں، کیونکہ ان کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی بہت ذیادہ ہوتی ہیں۔
5۔ ہر سطح پر ججو ں کےتقرر، ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے ۔
6۔ ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت ، تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظام کیے جائیں۔
7۔ عدلیہ سے متعلق افراد کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ ماضی میں جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا ، وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کر نےکا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں ، اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دور کے بارے میں بھی لوگو ں کے اعتماد پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں آداب و روایات کی پاس داری کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالاترہے368۔
8۔ بعض صورتوں میں یہ بھی شک کیا جاتا ہے کہ نئےتقرر ہونے والے خاص طور پر ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان اپنی کارکردگی کو نمایا ں کرنے کےلیے ریٹائرڈ جسٹس صاحبان سے اپنے فیصلے ڈرافٹ کراتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک مربوط آزمائشی طریقہ کار وضع کیا جائے۔
9۔ پارلیمانی کمیٹی میں اگرچہ اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی لو اور دو کی پالیسی کے تحت خالص اہلیت کے بجائے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے وکلاء ہی کامیاب ہوتےہیں کیونکہ اپوزیشن حکومت اور حکومت اپوزیشن کے لاڈلے وکلاء پر جسٹس بننے میں اعتراض نہیں کرتی۔
10۔ اعلیٰ عدالتوں میں جسٹس صاحبان کے تقرر کے لیےاگر پارلیمان اور صدر پاکستان کے اثر کو ختم کردیا جائے، تو مزید بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس صورت میں جسٹس صاحبان ، سیاسی شخصیات کے مشکور ہونے کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ کے مشکور ہوں گے ۔
11۔ جسٹس صاحبان کی تقرر ی کا بہتر طریقہ مقابلے کا پبلک سروس کمیشن کا امتحان منعقد کیا جائے اور تحریری امتحان و انٹرویو دونوں لازمی ہوں۔
12۔ ججز کے تحفظ کے لیے خطرنا ک ملزمان کا ٹرائل ویڈیو کانفرنس سے کیا جائے اور ججز کے نام صیغہ ٔراز میں رکھے جائیں۔
عدلیہ کا انتظامیہ کی بے جا مداخلت سے آزاد ہونا اور سب پر بالادست ہونا قیام عدل کی لازمی شرط ہے۔ اسلام کے نظام عدل میں عدالت حاکم وقت سے لے کر عام شہر ی تک ہر ایک کو جواب دہی کے لیے طلب کر سکتی ہے اور قانون کے مطابق سزا بھی دے سکتی ہے اور عدالت کےکام میں انتظامیہ کا کوئی چھوٹا یا بڑا مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ یہ قاضی یا جج کی بالا دستی نہیں بلکہ قانون کی بالا دستی ہے جو خود جج یا قاضی پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ آزادی کا سب سے زیادہ انحصار جج کی صلاحیت اور اس کے کردار پر ہے۔ بلاشبہ ججوں کے تقرر کے طریقۂ کار کا بھی اس میں ایک حصہ ہے، لیکن اصل عامل جج کا کردار اور دستور اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہے۔ ججز کو رشوت ستانی اور اقرباء پروری سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ انصاف فراہم کرنے والے ہوتے ہیں ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...