Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > 1۔شرعی اور وضعی قوانین کی باہمی مطابقت

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

1۔شرعی اور وضعی قوانین کی باہمی مطابقت
ARI Id

1707476245802_56118868

Access

Open/Free Access

Pages

198

حدود و قصاص کے قوانین پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایک بہت بڑا مسئلہ اسلامی قو انین حدود وقصاص کا بین الا قوامی قوانین کے ساتھ باہمی مطابقت نہ ہونا ہے۔ اسلامی ممالک میں جو حدود وقصاص کے قوانین نافذالعمل ہیں وہ یا تو شریعت محمدی ﷺ کے عین مطابق ہیں یا اگر یہ غیر اسلامی ہیں تو انہیں اسلامی قوانین سے بدلنے کی کوششیں جاری ہیں اور جو عالمی و بین الاقوامی قوانین ہیں۔ وہ انسانوں کے وضعی قوانین ہیں اور ان میں تبدیلی کی گنجائش بہرحا ل موجود ہے اور یہ شرعی قوانین کی طرح مکمل نہیں ہیں۔ ان میں بہت سی خامیاں ہیں اور یہ غریب اور کمزور مما لک پر حکومت کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں ۔
بین الاقوامی کرادار کے حوالے سے جب قوانین حدود وقصاص کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان قوانین کی عام طور پر مخالفت ہوتی رہتی ہے اور ان کی منسوخی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اعتراض یہ سامنےآتا ہے کہ یہ قوانین آج کے مروجہ بین الاقوا می قوانین سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور عالمگیریت کے جدید ماحول میں عالمی قوانین اور نظام سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ جہاں تک حدود قوانین کے آج کے مروجہ بین الاقوا می قوانین کے ساتھ باہمی مطابقت کا تعلق ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ ان میں باہمی مطابقت موجود نہیں ہے، نہ تو ضروری ہے اور نہ یہ ممکن ہے۔ اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مروجہ بین الاقوا می قوانین اور اسلامی فوجداری قوانین کے ماخذ اور سرچشمے الگ الگ ہیں۔ اسلامی قوانین کا ماخذ وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات ہیں کیونکہ فوجداری قوانین یا حدود کی جو عملی صور تیں اسلامی شریعت میں بیان کی جاتی ہیں ان کی بنیا دالہامی تعلیمات( تورات اور قرآن مجید کی تعلیمات) پر ہے جب کہ مروجہ بین الاقوا می قوانین کی بنیاد سوسائٹی کی اجتماعی عقل اور خواہش پر ہے اور ان کا فکری سرچشمہ وحی الہٰی سے بے زاری یا کم از کم لاتعلقی کا فلسفہ ہے ۔اس لیے ان کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن اور قابل عمل بات نہیں ہے اور اسے ضروری قرار دے کر اسلامی حدود وقصاص قوانین کو مروجہ بین الاقوا می قوانین یا ان کے قانونی نظام کے ساتھ مطابقت دینےکی کوئی صورت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہم خود بھی وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات سے خدانخواستہ دست بردار ہو کر اپنے قانون کے ماخذ کو تبدیل نہیں کر لیتے۔ اس کی مثال حدودوقصاص قوانین پر عمل درآمد کے وقت سزا کے نفاذ سے ہےجو نص سے ثابت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے خودحدود وقصاص قوانین کی عملی تنفیذ کر کے دکھائی اور رسول اللہ ﷺکے خلفاء نے بھی انہی قوانین کو نافذ کیا۔ لیکن عالمی برادری کاجرم و سزا کا فلسفہ ، سزاکےقوانین اور پھر ان سزاؤں کے نفاذ کے اصو ل اسلامی اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ملاحظہ ہوں عالمی قوانین کے سزا کے قوانین اور اصول ، جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ نمبر 5 میں کہا گیا ہے
"کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ ، انسانیت سوز ، یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی ۔ "379
گویا کسی بھی جرم کی سزا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تینوں باتوں سے خالی ہو اور اگر کسی سزا میں ان میں سے کوئی بات پائی گئی تو وہ انسانی حقوق کے منافی تصور ہو گی ۔ اسی بنیاد پر اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جاتا ہے کہ سنگسار کرنا ، کوڑے مارنا ، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور سر عام سزا دینا بہرحا ل جسمانی تشدد اور تذلیل پر مشتمل ہے اور اگر اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو حدود شرعیہ کی کم و بیش سبھی سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتی ہیں۔
بعض مسلم دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اگر قانون کے نفاذ کا طریقہ کار تبدیل کر لیا جائے اور عدالتی نظام میں مغربی سسٹم کو اپنا کر اسلامی قوانین کی جزئیات میں کچھ ردو بدل کر لیا جائے تو بین الاقوامی قوانین اور اسلامی حدود کے درمیان مفاہمت اور مطابقت کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ اس عملی مثال سے اس بات کی وضاحت ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا بیان کیا گیا ہے اور یہ صریح حکم ہے ۔اس پر آپ ﷺ نے اسی طرح عمل کیا ہے اور اس سختی کے ساتھ عمل کیا ہے کہ ایک موقع پر خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ اگر ! میر ی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔ یہ سزا قرآن مجید کے علاوہ تورات اور دیگر سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی موجو د ہے ۔اس لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ چور کا جرم ثابت ہونے پر اسلام کی رو سے جو سزا ملے گی ،وہ ہاتھ کاٹنے کی صور ت میں ہی ہو گی ، البتہ اس بات پر بحث و تمحیص کی گنجائش موجو د ہے کہ چور کا اطلاق کس شخص پر ہوتا ہے اور کم از کم کتنی مالیت کی چوری پر یہ سزا نافذ ہو گی ۔ چوری کے جرم کا ثبوت کیسے ہو گا اور اس کی دیگر تفصیلات کیا ہوں گی۔ ان سب امور پر گفتگو ہو سکتی ہے ۔ فقہاء نے ہر دور میں اس پر بات کی ہے اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا ہے لیکن کسی بھی فارمولے کے مطابق چوری ثابت ہوجانے کے بعد اس کی سزا میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ چور کا ہاتھ کٹے گا اور آج کے بین الاقوا می قوانین کا اصل اعتراض ہا تھ کاٹنے پر ہے ۔چور کی تعریف یا چوری کے ثبوت کے طریقہ کار پر نہیں ہے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ چور کی تعریف بدل دینے یا چور ی کے ثبوت کا طریقہ کا ر تبدیل کر دینےسے مغر ب کا اعتراض ختم ہو جائے گا اور قوانین حدودوقصاص کی بین الاقوا می قانونی نظام سے باہمی مطابقت ہو جائے گی۔ ایک لمحہ کے لئے آپ یہ تصور کر لیں کہ ہم نے عدالتی طریقہ کار کو مکمل طور پر مغر ب کے نظام قانون سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ چور کی تعریف بدل دی ہے ، شہادت اور ثبوت کے تمام طریقے مغرب کے لے لیے ہیں لیکن بین الاقوا می قانون کے تحت قرار پانے والے چور کو مغربی نظام اور عدالتوں کے طریقہ کار کے مطابق جرم ثابت ہونے کے بعد سزا وہی دے رہے ہیں جو قرآن مجید نے بیان کی ہے تو اس سے مغرب کا اعتراض ختم نہیں ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اس کا اصل اعتراض چور کی تعریف یا چور ی کے ثبوت کے طریقہ کا ر پر نہیں بلکہ چور ثابت ہو جانے والے شخص کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دینے پر ہے اور یہ اعتراض اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ہم قرآن مجید کے موجودہ حکم سے دست بردار نہیں ہو جاتے یا اسے وہ معنی نہیں پہنا دیتے جو مغرب کی منشاء کے مطابق ہیں خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے فیصلوں ، خلفائے راشدین کے طرز عمل اور امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کی نفی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کی دوسری مثال زانی کی سزا کا مسئلہ دیکھ لیجیے ۔ ہمارے ہاں اسلامی قوانین کو آج کے ماحول میں قابل قبول صورت میں پیش کرنے کے لیے اس مسئلہ پر بحث ہوتی ہے کہ رجم شرعی حد ہے یا نہیں ۔ شہادت میں عورت کا درجہ کیا ہے اور جرم کے ثبوت کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ۔ ہمارے بعض دانشوروں کا خیال ہے کی رجم کو شرعی حد کے زمرہ سے خارج کردیں گے یا عورت کی گواہی کو آج کے مروجہ عالم معیار پر لے آئیں گے یا جرم کے ثبوت کے لیے مغر ب کے عدالتی نظام کو اپنا لیں گے تو زنا کی قرآنی سزا پر مغر ب کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ یہ خوش فہمی کی بات ہے اس لئے کہ مغرب کا اصل اعتراض ان باتوں پر نہیں بلکہ سرے سے زنا کے جرم قرار دیئے جانے پر ہے ۔اس لیے کہ زنا بالرضا مغر ب کے نزدیک سرے سے جرم ہی نہیں ہے ۔ مغرب کے ہاں زنا میں صرف جبر کا پہلو جرم کے ذیل میں آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جرم کا تعلق زنا سے نہیں ، صرف جبر سے ہے۔ اب اگر ہم ایک لمحہ کے لیےرجم کو حدود کی فہرست سے نکال دیتے ہیں اور جرم کے ثبوت کے لیے تمام طریقہ کار بدل لیتے ہیں ، لیکن باہمی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے غیر شادی شدہ جوڑے کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق سو کوڑے مارتے ہیں تو مغرب کا اعتراض پھر بھی باقی رہے گا اور بین الاقوا می قوانین سے باہمی مطابقت نہ ہونے کا سوال پھر بھی قائم رہے گا ۔ اس حوالے سے مولانازاہد الراشدی لکھتے ہیں
"ہمیں حدود قوانین کی موجوہ ہیئت پر اصرار نہیں ہے ہم قرآن مجید کی بیان کردہ حدود اور ان پر عمل درآمد کے لیے بنائے جانے والے قوانین کے درمیان فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انسانی ذہنوں کے بنائے ہوے قواعد و ضوابط میں غلطی کے امکان اور ردوبدل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں ، مگر یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور یہ ساری ورزش کرنے کے بعد بھی مغرب کے اعتراضات اور بین الاقوا می قوانین سے ہم آہنگ نہ ہونے کا مسئلہ جوں کا توں موجود رہے گا۔ اس لیے اس حوالے سے اصل ضرورت بنیادی سوچ میں تبدیلی لانے کی ہے۔ بین الاقوا می قوانین اور مغر ب کے ساتھ افہام و تفہیم کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن ا س کے لیے اسلامی قوانین میں ردوبدل کر کے اسے مغر ب کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی نہیں بلکہ مغرب کو اس کے قانونی نظام کی خامیوں سے آگاہ کرنے اور بین الاقوا می قوانین کو وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی محنت کی ضرورت ہے۔ "380
اسلام میں حدود اللہ کی سزائیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور ہم نے ہرصورت میں انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ کے قوانین کی ہی پیروی کرنی ہے ، نہ کہ بین الا قوامی قانونی نظام کی ، کیونکہ اس طرح کا حکم ہمیں قرآ ن مجید سے ملتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا﴾ 381
"یہ اللہ کی حدیں ہیں پس ان کے قریب نہ جانا۔ "
اللہ عالم الغیب کو معلوم تھا کہ مسلمانوں پر بین الاقوامی قانونی نظام کے حوالے سے یہ اعتراضات اٹھائیں جائیں گےاس لیے آپ ﷺ کی زبانی پہلے سے حکم دے دیا گیا
" أَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ، وَلَا تَأْخُذْكُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ"۔"382
"اللہ کی حدود کو قریب و بعید سب میں قائم کرو اور اللہ کے حکم بجا لانے میں ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں نہ روکے۔ "

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...