Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > 3۔ قوانین ِحدودوقصاص بین الاقوامی رویوں کے تناظر میں

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

3۔ قوانین ِحدودوقصاص بین الاقوامی رویوں کے تناظر میں
ARI Id

1707476245802_56118870

Access

Open/Free Access

Pages

204

وضعی قوانین کی جگہ شرعی قوانین بدرجہا بہتر اور قابل عمل ہیں ۔ ان میں غلطی کا احتمال بھی نہیں اور ان کا مقصد نہ صرف مجرموں کو سزا دینا ہے، بلکہ یہ مجرم اور معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ، انسانوں کو برائیوں سے بچانا ، معاصی سے روکنا ، آمادہ اطاعت کرنا، اخلاقی اقدار کا تحفظ اور انسداد جرم کے لیے نہایت مؤثر ہیں، جب کہ وضعی قوانین میں مجرموں کو سزا دے کر صرف جرم سے روکنا مقصود ہوتا ہے، معاشرے کی اصلاح اور دوسری چیزیں مقصود نہیں ہوتیں۔ اس حوالے سے عبدالقادر عودہ شہید لکھتے ہیں
"شرعی قوانین میں سزا کا مقصد افراد کی اصلاح، اجتماعی تحفظ اور معاشرتی بہبود ہے۔ اس لیے سزا کو ان اصولوں پر قائم ہوناچاہیے جس سے یہ مقاصد حاصل ہو سکیں ۔اصول مندرجہ ذیل ہیں:
1. سزا ایسی ہو جس کی وجہ سے لوگ ارتکاب جرم سے باز رہیں ۔
2. سزا کی تحدید میں اجتماعی ضرورت اور معاشرتی مفاد کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
3. مجرم کی تادیب کا مقصد اس سے انتقام لینا نہیں، بلکہ اس کی اصلاح ہے۔ "384
چاہیے تو یہ تھا کہ اقوام عالم ان قوانین کا نفاذ کرتیں لیکن مذہبی تعصب ، اسلام سے عناد ، دنیا پر حکومت کرنے کا خواب ، طاقت کا نشہ اور مسلمانوں کا خود ان قوانین پر عمل نہ کرنا آڑے آئے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کا مسلمانوں پر دباؤ ہے کہ کسی طرح مسلمان ان قوانین پر عمل درآمد نہ کر کے اللہ تعالیٰ کے نافرمان بن کر اس کی رحمت سے دور ہو جائیں ۔ پاکستان میں حدود آرڈیننس میں تبدیلی و ترمیم کے وقت بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کے اعتراضات مندرجہ ذیل تھے، جیسا کہ مولانا زاہد الراشدی تحریر کرتے ہیں
"حدود آرڈیننس پر عتراضات کیا تھے اور کن حوالے سے ان کو ختم کرنے یا ان میں ردوبدل کا مطالبہ کیا جارہا تھا ۔اس کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم اس تنا زعہ کی اصل نوعیت کو نہیں سمجھ سکیں گے او ر اس کشمکش کی ماہیت کا ادراک نہیں کرسکیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی حلقوں کو ہمارے اس قانون پر اعتراض کیا ہے اور کیوں ہے؟۔ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے یہاں کے مسلمان اگر اپنی مرضی سے اپنے معاشرے کے لیے کوئی قانون اختیار کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق کسی قانون کا نفاذ کرتے ہیں تو اس پر امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی بیرونی ملک یا ادارہ کو پاکستانی عوام کے اس حق میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن اس کے باوجود امریکہ اس میں مداخلت کر رہا ہے ، اقوام متحدہ کو اس قانون کے خاتمہ میں دلچسپی ہے ، یورپی یونین اس قانون کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے یا ایمنسٹی انٹرنیشل حدود قوانین کے خلاف ہے تو ہمیں اس کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس اختلاف کے اصل سرچشمہ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہم اس مداخلت کا راستہ نہیں روک سکیں گے اور اس نوعیت کے اگلے اقدامات کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکیں گے۔یہاں یہ بات بھی ہمارے علم میں ہونی چاہیے کہ معاملہ صرف حدود آرڈیننس میں چند ترامیم تک محدود نہیں ہے بلکہ اصل ایجنڈا بڑا طویل ہے اور اس کے اہم مراحل آگے آ رہے ہیں ۔ بین الاقوامی حلقوں کا مطالبہ حدود قوانین کے حوالہ سے ان ترامیم کا نہیں ہے، بلکہ حدود آرڈیننس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہے اور صرف ان قوانین کو ختم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت سے قوانین ان مطالبات کی زد میں ہیں ۔" 385
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شرعی قوانین کے خاتمہ کے لیے امریکہ مسلمان ممالک سے را بطے میں رہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان حدودوقصاص اور دوسرے اسلامی قوانین سے جان چھوٹ جائے ۔اس حوالے سے روزنامہ پاکستان لاہور میں یہ خبر چھپی
"امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان کے بارے میں 2006ء کی رپورٹ میں صاف طور پر کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں تحفظ ختم ِ نبوت سے متعلقہ قوانین ، تحفظ ناموس ِ رسالت کے قانو ن اور حدود آرڈیننس کے قوانین کو ختم کروانے کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ اس سلسلے میں پاکستان کے ارکان ِ پارلیمنٹ سے مسلسل رابطہ میں ہے "386
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدود آرڈیننس میں ابھی مزید ترامیم ہوں گی ، گستاخِ رسول ﷺ کے لیے موت کی سزا کا قانون ختم کرنے کی بات ہوگی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے پر بھی نظرثانی ہو گی اس لیے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر تحفظ حقو قِ نسواں ایکٹ کو آسانی سے ہضم کر لیا گیا اور اس کے خلاف بھر پور قومی احتجاج منظم نہ کیا جا سکا تو ان دوسرے مراحل کو نہیں روکا جاسکے گا اور
دینی حلقے اس مہم میں پسپا ئی کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کر پائیں گے ۔
اسی بین الاقوامی برادری کے دباؤکی وجہ سے حکومت پاکستان نے سزائے موت کی سزا کو مؤخر کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ملک عزیز میں دہشت گردی او ر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور کسی بھی دہشت گرد کو یا بڑ ے مجرم کو عبرت حاصل نہیں ہوتی ۔ قاتل دس سال میں عمر قید کی سزا پوری کرنے کے بعد معاشرے میں سر ِعام دنداتے پھرتے ہیں ۔ روز نامہ نوائے وقت لاہور 18 ستمبر 2014ءکے مطابق
"عدالت نے سزائے موت کے قیدی کو آج دی جانے والی پھانسی کو 13 اکتوبر تک ملتوی کر دیا ہے ۔ ملک میں 2008ء سے سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے پر پابندی عائد ہےاور چھ سال میں پہلی مرتبہ کسی سول قیدی کو عدالتی حکم کے تحت تختہ دار پر لٹکایا جانا تھا لیکن اچانک پھانسی کو 17 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ، کیونکہ پاکستان کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دے رکھا ہے جس کی شرائط میں سے ایک شرط سزائےموت کو ختم کرنا ہے اس کے علاوہ بھی انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں سزائے موت کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہیں لیکن اگر سزائے موت کاعمل رک جاتا ہےتو پھر قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس وقت 480 کے قریب ایسے دہشت گردجیلوں میں قید ہیں جنہیں عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے اگران کی سزائےموت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جاتا ہے تو پھر قید کی سزا پوری کر کے رہا ہونے پر یہ لوگ پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہتھیار اٹھا کر افراتفری پھیلائیں گے ۔ "387
اصل میں عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوتوں کی ہمارے ساتھ منافقانہ اور دوغلی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ملک میں انتشار اور بد امنی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور ملک کو عالمی سطح پر ناکام بنانے سازش کی جارہی ہے ۔اس کی مثال اگر ہم حدود قوانین کا نفاذ کرتے ہیں تو انہیں انسانی حقوق یاد آ جاتے ہیں اور جو خود وہ پاکستان پر ڈرون حملے کرتے ہیں یا افغانستان ، عراق ، شام اور فلسطین میں عسکری کاروائیاں کر تے ہیں جن میں بے گناہ بچے اور عورتیں شہید ہوتےہیں وہاں انہیں انسانیت یاد نہیں رہتی ۔ 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد ملک میں وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کے سزا یافتہ تمام قاتلوں اور دہشت گردوں کو پھانسی لگانے کی اجازت دے دی ہے اس پر بھی عالمی برادری متحرک ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے رمیزہ مجید نے نوائے وقت میں لکھتی ہیں
"اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نےوزیر اعظم نوازشریف پر زور دیا ہے کہ پھانسیوں پر عمل درآمد بند کرکے اس پر عائد پابندی بحال کر دی جائے۔ قبل ازیں یورپی یونین کے اسلام آباد مشن نے بھی زور دیا تھا کہ وہ موت کی سزا ؤں پر عمل درآمد روک دے۔ "388
یورپی یونین ، یواین سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے جس پس منظر میں مخالفت کی جارہی ہے وہ آئین و قانون کی عمل داری سے بھی متضاد ہے اور معاشرے کو قبیح جرائم سے پاک کرنے کے لیے بھی ممدومعاون نہیں ہو سکتا ۔ اس سوچ میں اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ خود متعدد یورپی ممالک میں بھی قتل اور دوسرے قبیح جرائم کی سزا موت مقرر کی گئی ہے جس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے مگر ہم پر انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر دباؤ ڈالا جا تا ہے جو کسی بھی حوالے سے دانشمندانہ نہیں، جب کہ مغربی یورپی دنیا ہم سے دہشت گردی کے تدارک کے لیے سخت سے سخت اقدامات اٹھانے کی متقاضی رہتی ہے۔ اس تناظر میں موت کی سزاؤں کا مقصد بھی معاشرے کو قبیح جرائم سے پاک کرنا ہوتا ہے جس کے لیے یو این سیکرٹری جنرل کو تو ہمارے موقف او ر سزائے موت کے مروجہ قوانین کی تائید کرنی چاہیے، چہ جائیکہ ہم پر دہشت گردوں کی پھانسیاں رکوانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ ویسے بھی پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جس کا اپنا آئین اور اپنے قوانین ہیں جب کہ ان قوانین کا اطلاق پاکستان کےاندر جرائم پر پاکستان کے شہریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے جس میں کسی بیرونی ملک یا تنظیم کو فکر مند ہونا چاہیے ، نہ ان کا اس معاملےسے کوئی سروکار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قوانین کے مؤثر نفاذ کے بغیر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور نہ ہی انصاف کی عمل داری قائم کی جاسکتی ہے جب کہ معاشرے کو آئین و قانون کے تابع کر کے ہی اس میں موجود خرابیوں کو دور اور جرائم پیشہ افراد کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ اگر دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کے دوران بھی آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری کا تصور مفقود رہے گا تو لامحالہ اس سے دہشت گردوں اور قاتلوں کی حوصلہ افزائی ہی ہو گی، جیسا کہ ماضی میں سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے نتیجےمیں دہشت گردوں اور قا تلوں کے حوصلے بلند ہوتے رہے ہیں۔ اس صور تحا ل میں اگر سانحہ پشاور نے پوری قوم اور عالمی برادری کو دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے یکسو کیا ہے ، تو دنیا کو دہشت گردوں کو پھانسی سمیت پاکستان کے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات پر بھی متفق ہونا چاہیے۔ اس لیے موجودہ نازک صورتحال کا احساس وادراک کرتے ہوئے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ، یورپی یونین اور یواین سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں پھانسیاں روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا سلسلہ ترک کر دینا چاہیے اور سزائے موت اور دوسری حدود میں متعین سزا ؤں پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنی سوچ سے رجوع کر لینا چاہیے ۔ انہیں اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی کوششوں سے اس خطے میں دہشت گردی کا تدارک علاقائی ہی نہیں، عالمی امن کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔
آج 20 نومبر 2023 کوفلسطین کی موجودہ صورتحال بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی جارحیت کو اس وقت شہ بھی یہی عالمی برادری اور امریکہ بہادر دے رہاہے ، ورنہ پوری دنیا میں اتنی ذیادہ تعداد میں بچوں کا قتلِ عام ، ہسپتالوں پر بمباری اور لوگوں کو ہزاروں کی تعداد میں ان کے گھر وں سے بے دخل کرنا کیسےعمل میں لایا جاسکتا ہے ، یہ عالمی برادری کا دوغلاپن ہے جو ان کے قول اور فعل میں تضاد اور اسلامی دشمنی کو عملاً ثابت کرتا ہے ۔ یہ عالمی برادری ہمار ی قرآن نص کے مطابق خیرخواہ اور دوست نہیں ہو سکتی ۔آج نہیں تو کل ۔ بالآخر ہم نے ان سے راستے جدا تو کرنا ہی ہیں۔آج فلسطین کے مسئلہ پر امت محمدیہ ﷺ کے حکمران تمام مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پرعالمی برادری، اقوام متحدہ سے خوف کو بالائے خاطر رکھ کر اخلاص کے ساتھ مشترکہ طور پر بات کریں ، تولازماً اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور سامنے آئے گا ۔ دکھ اس بات پر ہے کہ امت مسلمہ کے حکمران خاموش ہے ۔ پتہ نہیں انہوں نے مرنے کے حوالے سے کبھی سوچا ہی نہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اسلامی قوانین شرعی ہیں اور بین الاقوامی قوانین وضعی ہیں ۔ ان قوانین میں ہم اہنگی اور باہمی مطابقت نہیں ہے۔ دوسرا ہمارا طرز فکر ، نظریہ حیات ، تہذیب وتمدن اور ثقافت بھی مغرب سے مختلف ہے جس کی وجہ سے ہماری ان کے سا تھ کشمکش چلی آ رہی ہے۔ تیسرا مغرب کا حدود قوانین کی تبدیلی کے حوالے سے ہمیشہ دباؤ رہا ہے کہ ان حدود قوانین کو ہر حال میں تبدیل کیا جائے۔ چوتھا وہ ہمارے قوانین کو زبر دستی ہم سے بدلوانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے ہمیں بین الاقوامی طور پر اس تصاد م کو رکوانا ہو گا او ر ایسی حکمت عملی تیار کرنی ہو گی کہ اس کا مناسب حل سامنے آ سکے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...