Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > 3 ۔معاشرتی اصلاح میں ذرائع ابلاغ کا کردار

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

3 ۔معاشرتی اصلاح میں ذرائع ابلاغ کا کردار
ARI Id

1707476245802_56118874

Access

Open/Free Access

Pages

221

3 ۔معاشرتی اصلاح میں ذرائع ابلاغ کا کردار
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے سب سے پہلا ابلاغ کا تصور پیش کیا ۔ تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کے درمیان ہونے والا مکالمہ یہ ہے
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً۔ ﴾ 407
"اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ "
عمل ابلاغ کی پہلی صورت تھی ، پھر جب حضرت آد م ؑنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سب اشیاء کے نام بتائے تو گویا یہ حضرت آد مؑ کی طرف سے پہلے انسانی عمل ابلاغ کا آغاز تھا ، جس کا تذکر ہ قرآن نے یوں کیا
﴿وَعَلَّمَ آَدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ۔﴾408
" اور اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ، پھر آدم ؑ نے ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ "
حضرت آد م ؑ کے بعد جو سلسلہ نبوت جاری ہوا تو ہر نبی علیہ السلام نے حق وصداقت کے ابلاغ اور دین فرقان کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا اور اس فریضہ کی ادا ئیگی میں اپنے عہد کے تمام ممکنہ ذرائع ابلاغ (تحریر اور تقریر ) استعمال کیے ۔مقاصد نبوت، مقاصد انسانیت اور مقاصد ربانی ابلاغ کی بدولت ہی انسان تک پہنچے۔ احسن اختر ناز اس حوالے سے لکھتے ہیں
"خدا نے جب حضرت آد م ؑ کو تخلیق کیا تو اس کے نزدیک مقصد یہ تھا کہ یہ میری بندگی کرے گا اور میرا پیغام دوسری مخلوق تک پہنچائے گا ۔ اسی طرح دنیا کے پہلے انسان کو سب سے پہلے ابلاغ کا فریضہ ہی سپر د کیا گیا۔ بعد میں آنے والے تمام انبیا ئے کرام اور پھر نبی آخر الزمان پیغمبر اعظم ﷺ کی بھی ذمہ داری خدا کی طرف سے یہی تھی کہ وہ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں ۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اسلام کا نظریہ ابلاغ ،سب سے پہلا نظریہ ابلاغ ہے اور یہ ابلاغ ہی مقصد انسانیت ہے ۔ " 409
اسلام نے جو نظریہ ابلاغ فراہم کیا ہے وہ تاریخی ، علمی اور اخلاقی لحاظ سے مضبوط بنیا دوں پر قائم ہے ۔اس نظریے میں احترام آدمیت کی تلقین ، خبر رسانی میں خیر و صداقت کے فروغ ، جھوٹ وبددیانتی کی ممانعت ، نجی زندگی کا تحفظ ، نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھا م اور آزادی اظہار رائے کی نہ صرف ضمانت دی گئی ہے بلکہ اس حق کو فریضہ کے طور پر استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلوع اسلام کے وقت ذرائع ابلاغ موجود نہ تھے تو اب اسلام ذرائع ابلاغ کو کیسے رہنمائی فراہم کر سکتاہے؟ درحقیقت یہ سوال سطحی سوچ کا نتیجہ ہے جہاں تک موجود ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے اور جدید وسائل وسہولیا ت کی با ت ہے تو یہ سب صنعتی ترقی او ر مادی خوشحالی کی بدولت ہے ورنہ ماضی کے غیر ترقی یافتہ دور میں یہی جیپ و کار ، اونٹ و بیل گاڑی کی صورت میں، اونچی عمارات ، کچے گھروندوں کی صورت میں اور صنعتی ترقی ، گھریلو دستکاری کی صورت میں موجود تھے ۔ ماضی میں بھی جنگیں لڑی جاتی تھیں ، صرف اسلحہ اور طریقہ جنگ بدلا ہے ، ماضی میں بھی تجارت کی جاتی تھی صرف انداز واسلوب بدل گئے ہیں ۔ انسان کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی بنیادی ضروریات نہیں بدلیں، زریں انسانی اصول اور اعلیٰ اخلاقی اقدار نہیں بدلے ، انسان کی فطرت ، کائناتی ضوابط ، زندگی اور موت کا قانون ، ہدایت و گمراہی کے قواعد ایک جیسے ہی رہے ہیں ۔افراد پیدا ہوئے ، مر گئے ، قومیں ابھریں اور ختم ہو گئیں ، سلطنتیں بن کر بگڑ گئیں مگر قدرت کے قوانین او ر اخلاقی اقدار وہی ہیں ۔ تغیر ، تبدیلی اور پھیلاؤ درخت کی شاخوں میں ہوتا ہے تنے میں نہیں ، یہ فطرت کا قانون ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہے۔ گویا قدیم و جدید کا جھگڑا کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں ۔
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کے الفاظ زبان پر آتے ہی ریڈیو ، ٹی ۔ وی ، اور اخبارات کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہی حیثیت مشاعرے ، ڈھول ، چوپال ، جلسے اور منادی کے اونٹ کو حاصل تھی۔ اس حوالے سے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں
" انسان کی اجتماعی زندگی میں جو تبدیلی آ رہی ہےوہ ذرائع اور وسائل کی دنیا میں ہے۔ مقاصد ، اصول اور اخلاق کی دنیا میں نہیں ، فنی ایجادات اور تکنیکی انکشافات انسان کے وسائل اور فطری قوتوں پر اس کے اختیار کو برابر بڑھا رہے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں دور ہو رہی ہیں اور انسان کا اقتدار بڑھ رہا ہے، لیکن یہ ساری تبدیلی ذرائع و وسائل کی حد تک ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کا یہ تقاضا ہرگز نہیں کہ مقاصد زندگی ، اصول اخلاق اور اقدار حیات کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔اگر ہوائی جہاز، جیٹ اور راکٹ کے استعمال سے زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں تو اس کے یہ معنی کب ہیں کہ زنا جو کل تک حرام تھا آج حلال ہو جائے ؟ اگر برقی قوت کے ذریعے سے انسان کے پاس وہ طاقتیں آ گئی ہیں جو پہلے صرف جنوں اور فرشتوں کو حاصل تھیں تو خیر و شر کے اصولوں کی صداقت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے ؟ میزائل اور اسپنک کے استعمال کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ جھوٹ ، سود ، سٹہ ، شراب اور دوسرے منکرات کو جائز قراردے دیا جائے؟ صنعتی ترقی کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ اصول انصاف کو بھی بدل دیا جائے ؟ تمام مادی ترقیات اسی وقت مفید ہو سکتی ہیں جب وہ انسان کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں ، خود بھلائی اور برائی کے اصول ان کی خاطر نہ بدل جائیں ، یہ قوتیں جو انسان کو حاصل ہوئی ہیں اسی وقت نافع ہیں جب وہ اعلیٰ مقاصد حیات کے تابع ہوں۔ اپنے ریلے میں انہیں بہا کر نہ لے جائیں، مقاصد و اصول کو ان کے مطابق نہیں بلکہ ان کو مقاصد و اصول کے مطابق بدلنا چاہیے۔ "410
اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کا مطالعہ جب آمرانہ نظام حکومت ، اشتراکی نظام حکومت اور جمہوری نظام حکومت کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے تو اسلامی نظام حکومت میں کیوں نہیں کیا جا سکتا ؟ جب کہ اسلام زندگی کے ہر شعبے کے لیے واضح اور فطری رہنمائی فراہم کرتا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مذہب ابلاغ کی مستند روایات (قرآ ن وسنت )پیش کرتے ہیں ، جیسا کہ پروفیسر مہدی حسن لکھتے ہیں
"دعوت اور تبلیغ اسلامی نظریے کا طرہ امتیاز رہاہےاور اسلام کے ظہور کے بعد قلیل مدت میں اس نظریے کا تمام دنیا میں پھیل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان مؤثر ابلاغ کے طریقوں سے بخوبی واقف تھے ۔ "411
اسلام کا نظریہ ابلاغ ایک عالمگیر نظریہ ابلاغ ہے جس میں فرد کی آزادی ، معاشرے کی اصلاح وتربیت اور ریا ست کے اچھے کاموں پر تحسین اور غلط کاموں پر احتساب و گرفت کی ضمانت دی گئی ہے یہ آفاقی نظریہ درحقیقت قرآنی تعلیمات اور احادیث مبارکہ کی اساس پر قائم کیا گیا ہے۔میڈیا پر اخلاق باختہ مواد اور حیا سوز مناظر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کے حامی افراد کی سخت سرزنش کی جائے۔ قرآن مجیدنے اس کی جانب اشارہ کیا ہے ،جیسا کہ ارشاد بانی ہے
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آَمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرة﴾412
"جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے یقیناً ان کیلئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ "
معلوم ہوا کہ اسلام فحاشی اور بے حیائی کے دلدادہ لوگوں اور اسے رواج دینے والوں کو بھی سخت ترین عذاب کی وعید سنا رہا ہے۔ لہٰذا ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا بالکل خاتمہ ہو جائے ۔
اسلام نے فرد ، ریاست ، اداروں اور ذرائع ابلاغ کو جو ذمہ داریا ں اور فرائض سونپے ہیں انہیں ایک مخصوص دائرہ کار کے اند ر رہتے ہوئے پورا کرنا ذرائع ابلاغ کا فرض ہے ۔ اسلامی تعلیمات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلامی ریا ست میں آزادی ذرائع ابلاغ نیکی و پاکیزگی کے فروغ کے لیے ہے ، شر انگیزی اور فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے نہیں یعنی صالح معاشرے کا قیام ذرائع ابلاغ کا مقصد ہے۔ اس لیے ریاست اور ذرائع ابلاغ کے درمیان کسی قسم کی کشمکش کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے ہیں ۔اسلامی نظریہ ابلاغ کی وضاحت کرتے ہوئے احسن اختر ناز لکھتے ہیں
" اسلامی ریاست میں ذرائع ابلاغ کا اصل کام یہ ہے کہ اللہ کی سر زمین میں اس کے عطاکردہ اختیارات وسائل سے اسی قدر اصول ، عقیدے ، روایت اور طرزعمل کو فروغ دیں جسے خدا نے خیر اور سچائی قرار دیا ہے اور ہر برائی کو مٹانے پر تل جائیں جسے وہ شر اورجھوٹ قرار دیتا ہے۔ لہذا مسلم پریس کے تعاون اور اختلاف کی بنیاد یہی اصول ہے۔ " 413
گویا ذرائع ابلاغ انہی اصولوں پر کار بند رہیں گے جن پر ریاست عمل پیرا ہو گی اور تمام ذرائع ابلاغ رائے عامہ کی استواری ، اسلامی عقائد وروایات کی پاسداری ، فحاشی وعریانی سے پرہیز، حدود و قصاص قوانین پر عمل درآمد اور اخلاقی اقدار کے تحفظ میں اسلامی ریا ست کے معاون اور مددگار ہوں گے۔ ایک اسلامی ریا ست کے ذرائع ابلاغ ریاست کے اچھے کاموں کی اشاعت اور بر ے کاموں کی مذمت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں لیکن عمومی طور پر ملک میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ ، دینی شعور کی بیداری ، حدودوقصاص کے قوانین سے آگاہی ، جدید معاشرتی ومعاشی مسائل کے حل اور اسلامی ذہن و کردار کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کےفرائض مندرجہ ذیل ہیں :امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی میں مثبت کردار، احترام انسانیت کی تلقین ، آزادی اور ذمہ داری کا تصور ، آزادی فقط نیکی کی ترویج کے لیے ، برائی کی اشاعت کے لیے نہیں ، فحاشی و عریانی کی ممانعت ، فریضہ حق گوئی کی ادائیگی اور وعظ و نصیحت کے لیے ، نجی معاملات میں تجسس سے گریز ، جھوٹ اور افواہوں سے گریز، اظہار خیال میں شائستگی ، دل آزاری سے گریز ، خواتین کے معاملے میں خصوصی احتیاط ، امت مسلمہ میں اخوت و یکجہتی کے قیام کے لیے اور صالح معاشرے کے قیام میں ریاست کی معاونت کےلیےاپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرے ۔اگر کسی جگہ ریاستی ، معاشرتی ،تعلیمی اور عدالتی معاملات غلط ہوں تو بھی ذرائع ابلاغ ان غلط کاموں پر احتساب و گرفت میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...