Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

قصاص ودیت کا قانون
ARI Id

1707476245802_56118880

Access

Open/Free Access

Pages

241

قصاص ودیت کا قانون
Qisas and Diyat Act 1997
حدود قوانین کے علاوہ ایک اور اہم قانون جس نے پاکستان میں فوجداری قانون کی حد تک نفاذ اسلام کے ہدف کی سمت میں ایک بڑی پیش رفت کو یقینی بنایا ہے ۔ وہ قصاص ودیت کا قانون ہے ۔ قصا ص ودیت کے شرعی احکام پر مشتمل باقاعدہ ایکٹ 17 مارچ 1997 ء کو نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے باقاعدہ ایکٹ بننے کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عبرت آموز بھی ۔ اکتوبر 1980 ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جناب جسٹس آفتاب حسین مرحوم نے اپنے ایک فیصلہ میں تعزیرات پاکستان کی کچھ دفعات کو خلاف شریعت قرار دیا ، اس لئے کہ ان میں قتل کے مقدمات میں قصاص ، دیت اور راضی نامہ کی گنجائش نہیں تھی ۔ زخم وغیرہ کے مقدمات میں بھی شریعت کے احکام کے مطابق تاوان دینے کی گنجائش نہیں تھی ۔ حکومت پاکستان نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل دائر کردی۔
جون 1990 ء میں اس کی پہلی بار سماعت ہوئی ۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا اور تعزیرات پاکستان کی 55 دفعات کو شریعت سےمتعارض قرار دے کر کالعدم کردیا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کےبعد مقررہ تاریخ سے تعزیرات پاکستان کی وہ پچپن دفعات کالعدم ہوگئیں ۔ اس خلا کو پورا کرنے کےلیےحکومت پاکستان نے اکتوبر 1990 ءمیں اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے آرڈیننس جاری کیا جو قصاص ودیت آرڈیننس کہلاتا ہے ۔ 1997 ء تک یہ آرڈر ایکسٹینشن پر ہی چلتا رہا اور کسی اسمبلی نے اسے ایکٹ بنا کر قانون کا درجہ نہیں دیا ، بالآخر The Criminal Law (Amendment )Act 1997 کے ذریعے اسے باقاعدہ اور مستقل قانون کا درجہ حاصل ہو گیا۔
یہ قانون انسانی جان کے تحفظ کےلیے رائج فوجداری قوانین کو قرآن وسنت کے قوانین کے مطابق ڈھالنے کے لیے نافذ کیا گیا ۔ اس قانون کے ذریعے The Pakistan Penal Code, (XLV OF 1860) کی دفعات, 54, 55, 55-A 53اور دفعہ 109 میں ترامیم کرنے کے ساتھ ساتھ دفعات 299 تا 338 کو نئی جاری شدہ دفعات 299 تا 338 سے تبدیل کردیا گیااور یہ دفعات مندرجہ ذیل ہیں:
پہلے اس قانون کی دفعہ 1 میں اس کا نام The Criminal Law (Amendment )Act 1997
بیان کیا گیا ہے۔454 دفعہ 53 میں دس قسم کی سزاؤں کو بیان کیا گیا ہے جس میں I تا VIنمبر I قصاص نمبر IIدیت نمبر IIIارش نمبر IVتاوان نمبر V تعزیر نمبر VI موت، سزائیں بطور خاص شامل ہیں ، جو قرآن و سنت کے مطابق سزائیں دینے کا جواز پیدا کرتی ہیں ۔ 455دفعہ 54 میں پہلے سے موجود دفعہ کے آخر میں فل سٹاپ کو ختم کرکے ایک نئے قانونی جملہ کا اضافہ کیا گیا ،جس کے مطابق قتل کے جرم میں دی گئی سزا ئےموت میں کسی قسم کی تخفیف کو وارثان مقتول کی مرضی سے مشروط کیا گیا ہے۔456 دفعہ نمبر 55 میں پہلے سے موجود دفعہ کے آخر میں فل سٹاپ کو ختم کرکے ایک نئے قانونی جملہ کا اضافہ کیا گیا ،جس کے مطابق باب نمبرXVI(PPC) میں دی گئی عمر قید کی سزا میں کسی قسم کی تخفیف کو متضرریا وارثان متضرر کی مرضی سے مشروط کیا گیا ہے457 اور دفعہ 55-A میں پہلے سے موجود دفعہ کے آخر میں فل سٹاپ کو ختم کرکے ایک نئے قانونی جملہ کا اضافہ کیا گیا ،جس کے مطابق باب نمبرXVI(PPC) میں دی گئی سزا میں کسی بھی قسم کی تخفیف کے صدارتی اختیار کو مقتول یا مظلوم کے ورثاء کی مرضی سے مشروط کر دیا گیاہے۔458 دفعہ 109 میں پہلے سے موجود دفعہ کے آخر میں فل سٹاپ کو ختم کرکے ایک نئے قانونی جملہ کا اضافہ کیا گیا ،جس کے مطابق ماسوائے اکراہِ تام کی صورتحال ، باب نمبرXVI(PPC) میں دی گئی سزا میں معاون ِ جرم ، بشمول سزائے موت بیان کی گئی سزائے تعزیر کامستوجب ہوگا۔ 459دفعہ 7 کے تحت دفعہ 299 تا 338 تعزیرات پاکستان میں متبادل دفعات لائی گئیں ، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: 460
دفعہ 299 مختلف تعریفات پر مشتمل ہے ،جو اس قانون کے مقاصد کے لیے بہت ضروری ہیں،جیساکہ”Adult, Arsh, Authorized Medical Officer, Daman, Diyat, Government, Ikrah e Tam, Ikrah e Naqis, Minor, Qatal, Tazeer, Wali.” کی تعریفات ، اس میں Adult سے مراد ایسا شخص ہے جو اٹھارہ سال کی عمر کوپہنچ گیا ہو، ارش سے مراد باب ہذا میں مذکور وہ معاوضہ ہے جو مجرم کی طرف سے متضرر یا اس کے ورثاء کو دیا جاتا ہو،ضمان عدالت کا مقرر کردہ وہ معاوضہ ہے جو مجرم کی طرف سے متضرر کو ایساضرر جو مستوجب ارش نہ ہو، پہنچانے کی پاداش میں ادا کیا جائے، دیت سے مراد دفعہ 323 میں بیان کردہ وہ معاوضہ ہے جو مجرم کی طرف سے شخص متضرر کے ورثاء کو واجب الاداہو ،حکومت سے مراد صوبائی حکومت ہے۔ اکراہ تام سے مراد کسی شخص ، اس کے زوج یا اس کے محارم میں سے کسی کی فوری ہلاکت یا اس کے جسم کے کسی عضو کو فوری یا مستقل طور پر ناکارہ کر دینے کے خوف میں یا خلاف وضع فطری فعل یا زنا بالجبر کا نشانہ بنا ئے جانے کے خوف میں مبتلا کرنا ہے ، اکراہ ناقص سے مراد جبر کی کوئی ایسی شکل ہے جو اکراہ تا م کی حد تک نہ پہنچتی ہو، قتل سے مراد کسی شخص کی ہلاکت عمل میں لانا ہے ،قصاص سے مراد متضرر یا اس کے ولی کا اختیار کہ وہ اس طرح کی جرح اور اسی طرح کے جسمانی حصے پر، جیسا کہ متضرر کو پہنچائی گئی ہوملزم کو دے یا اس کی ہلاکت کی اس صورت میں کہ وہ قتل عمد کا مرتکب ہو ا ہو تو مجرم کی ہلاکت اس کا ولی انجام دے ، تعزیر سے مراد قصاص ، دیت ، ارش یا ضمان کے علاوہ کوئی اور سزا ہے اور ولی سے مراد و ہ شخص ہے ، جو قصاص کا مطا لبہ کر نے کا حق دار ہو۔461
دفعہ 300 میں قتل عمد کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ جو کوئی دوسرے کو ہلاک کرنے کی نیت سےیا جسمانی ضرب پہنچانے کی نیت سے کسی ایسے فعل کے ذریعے جس سے عام قدرتی حالات میں موت واقع ہو سکتی ہے یا اس علم کے ساتھ کہ اس کا فعل صریحاً اس قد ر خطر ناک ہے کہ اس سے موت کا گمان غالب ہے ، ایسے شخص کی موت کا باعث ہو تو کہا جائے گا کہ و ہ قتل عمد کا مرتکب ہوا۔462جب کوئی شخص اپنے کسی فعل سے جس کے ذریعے وہ ہلاک کرنے کی نیت رکھتا ہو یا جانتا ہو کہ اس سے ہلاکت وقوع پذیر ہو سکتی ہے ، کسی ایسے شخص کو ہلاک کر دے جسے ہلاک کرنے کی نہ تو اس نے نیت کی ہو اور نہ جانتا ہو کہ اس سے ہلاکت و اقع ہو سکتی ہے تو مجرم کا ایسا فعل قتل عمد کا مستوجب ہو گا۔463دفعہ 302 کے مطابق جو کوئی قتل عمد کا مرتکب ہو اسے باب ہذا کے احکام کے تابع :الف ) بطور قصاص سزائے موت دی جائے گی۔ب) مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر سزائے موت یا سزائے عمر قید بطور تعزیر دی جائے گی اگر دفعہ 304 میں مصرحہ صورتوں میں سے کو ئی ثبوت نہ مل سکے یا ج) کسی ایسی مدت کے سزا دی جائے گی جو پچیس سال تک ہو سکتی ہے جب اسلامی قانون کے تحت قصاص کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن ہوگی۔464 دفعہ 304 میں قتل عمد مستوجب قصاص وغیرہ کا ثبوت بیان ہوا ہے کہ اس کا ثبوت حسب ذیل صورتوں میں سے کسی میں ہوگا یعنی الف) ملزم ایسے جرم کی سماعت کی مجاز کسی عدالت کے رو برو یا ارادہ اور سچا اقبال جرم کرےیا ب) ایسی شہادت کے ذریعے جس کے بارے میں آرٹیکل سترہ قانون شہادت بابت سال 1984(صدارتی حکم نمبر دس ) میں احکام واضح ہوئے ہیں۔465
دفعہ 305 کے مطابق قتل کی صورت میں ولی حسب ذیل ہو ں گے ۔الف) ضرر رسیدہ کے ورثان اس کے شخصی قانون کے مطابق ۔ب) وارث نہ ہونے کی صورت میں حکومت466، دفعہ 306 میں قتل عمد جو مستوجب قصاص نہ ہو کی صورتوں کو بیان کرتا ہے اور دفعہ 307 میں وہ صورتیں جن میں میں قتل عمد کا قصاص نافذ نہیں کیا جاتا، کو بیان کیا گیا ہے۔467دفعہ 314 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قتل عمد میں قصاص کا نفاذ حکومت کے کسی منصب دار کے ذریعے عدالت کی ہدایت کے مطابق مجرم کی موت وقوع میں لانے سے ہوگا اور قصاص پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ نفاذ قصاص کے وقت تمام اولیاء اصالتاً یا ان نمائندگان کے ذریعے جن کو انہوں نے اس بارے میں تحریری طور پر اختیار دیا ہو،حاضر نہ ہو۔اگر مجرم کوئی ایسی حاملہ عورت ہو تو عدالت مجاز ہو گی کہ کسی میڈیکل آفیسر مجاز کے ساتھ مشورہ کرکے نفاذ قصاص کو بچے کی پیدائش کے بعد دو سال کے عرصے تک ملتوی کردے اوراس عرصہ کے دوران اسے عدالت کے اطمینان کی حد تک ضمانت مہیا کرنے پر رہا کیا جاسکے گا یا اگر اسے رہا نہ کیا جائے تو اس سے ایسا سلوک کیا جائے گا ، گویا اسے قید محض کی سزا دی گئی ہو۔468
جو کوئی کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی ضرر پہنچانے کی نیت سے کسی ایسے ہتھیار یا فعل کے ذریعے جس سے عام حالات میں موت واقع ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ اس کی یا کسی دوسرے شخص کی موت کا باعث ہو جائے تو کہا جائے گا کہ اس نے قتل شبہ عمد کا ارتکاب کیا ہے۔469 دفعہ 316 کے مطابق جو کوئی شخص قتل شبہ عمد کا مرتکب ہو تو وہ دیت کا مستوجب ہوگا اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی اتنی مدت کے لیے سزائے قید دی جا سکتی ہےجو چودہ سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن ہو گی۔ 470 اگر قتل عمد یا شبہ وقت عمد کا مرتکب کوئی شخص کسی وصیت کے تحت وارث یا منفعت دار ہو تو وہ بطور وارث یا منفعت دار متضرر کی جائیداد سے محرو م ہو جائے گا۔471
جو کوئی شخص کسی کی موت وقوع میں لانے یا اسے نقصان پہنچانے کی نیت کے بغیر غلطی فعل یا غلطی واقعہ سے ویسے شخص کی موت کا باعث ہو تو وہ قتل خطا کا مرتکب ہے472 اور اس کی سزا یہ ہے کہ وہ دیت کا مستوجب ہو گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر قتل خطاء کا ارتکاب کسی بے احتیاطی یا غفلت کے عمل سے کیا گیا ہو تو مجرم کو دیت کے علاوہ بطور تعزیر کسی قسم کی ایسی سزا ئے قید بھی دی جائے گی جس کی میعاد پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن ہو گی۔473
جو کوئی شخص کسی شخص کو ہلاک کرنے یا نقصان پہنچانے کی نیت کے بغیر کوئی ایسا غیر قانونی فعل کرنے جو کسی دوسرے شخص کی ہلاکت کا سبب بن جائے تو وہ قتل بالسبب کا مرتکب کہلائے گا۔474 اس کی سزا یہ ہے کہ وہ دیت کا مستوجب ہوگا۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن ہو گی۔475 دفعہ 323 میں دیت کی مالیت کی رقم وہ معاوضہ ہے جو مجرم کی طرف سے شخص متضرر کے ورثاء کو واجب الاداہو۔عدالت اسلام کے احکامات کے تابع (جس طرح قرآن وسنت میں منضبط کیے گئے ہیں )سزا یا ب اور شخص متضرر کے ورثاء کی مالی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیت کی مالیت مقرر کرے گی جو ایک لاکھ ستر ہزار چھ سو دس روپے سے کم نہیں ہو گی جو 30630 گرام چاندی کی قیمت ہے ۔ تحتی دفعہ (1) کی اغراض کے لیے وفاقی حکومت سرکاری جریدے میں ہر سال یکم جولائی کو چاندی کی قیمت کا اعلان کرے گی۔476
جو کوئی شخص کسی بچے کی لاش کو چپکے سے دفن کردینے سے یا اور طرح ٹھکانے لگانے سے قصداً اس بچے کی ولادت کو چھپائے یا اخفاء کی کوشش کرے ، خواہ وہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے یا بعد یا پیدا ہونے کے دوران مر گیا ہو تو شخص مذکور کو کسی بھی قسم کی سزائے قید دو سال کے لیے یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ قابل ضمانت ، ناقابل راضی نامہ اور عدالت مجسٹریٹ بااختیارات دفعہ 30 ضابطہ فوجداری ہو گی ۔477دفعہ 330 کے مطابق دیت متضرر شخص کے وارثان کے مابین وراثت میں ان کے الگ الگ حصوں کے مطابق ادا کی جائے گی مگر شرط یہ ہے کہ جب کوئی وارث اپنا حصہ ترک کر دے تو اس کے حصہ کی حد تک دیت وصول نہیں کی جائے گی۔478دفعہ 331 یہ بیان کیا گیا ہے کہ دیت یک مشت رقم یا قطعی فیصلے کی تاریخ سے تین سال کے عرصہ پر محیط اقساط میں واجب الادا ہو گی۔479 دفعہ 332 میں ضرر کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ جوکوئی شخص کسی دوسرے شخص کو درد نقصان، مرض، ضعف یا زخم پہنچائے یا کسی شخص کی ہلاکت کا باعث بنے بغیر جسم کے کسی حصے کو کمزور کرےیا ناکارہ کر دے یا کاٹ ڈالے تو کہا جائے گا کہ اس نے ضرر پہنچایا اورضرر کی حسب ذیل اقسام ہیں:(الف)اتلاف عضو،ب)اتلاف صلاحیت عضو،ج) شجہ،د)جرح اور ہ)دیگر تمام اقسام کے ضرر۔480دفعہ 333 کے مطابق جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے جسم کے کسی جزو یا عضو کو کاٹ دے یا جدا کرے تو کہا جائے گا کہ وہ اتلاف عضو کو وقوع میں لایا۔481
دفعہ 334 کے مطابق جو کوئی شخص کوئی ایسا فعل کرے جس کے نتیجے میں کسی شخص کو ضرر پہنچانے کی نیت ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ اس سے کسی شخص کو ضرر پہنچنے کا امکان ہے، کسی شخص کے اتلاف عضو کا سبب بنے تو اسے کسی مجاز میڈیکل افسر کے مشورے سے قصاص کی سزا دی جائے گی اور اگر اسلام کے احکامات کے مطابق مساوات کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قصاص پر عمل درآمد ممکن نہ ہو تو مجرم ارش کا مستوجب ہو گا اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جا سکے گی جو دس سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن ہو گی ۔482 دفعہ 335 میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو کوئی شخص کسی شخص کے جسم کے کسی عضو کی کارکردگی یا صلاحیت کو زائل کر دے یا مستقل طور پر نقصان پہنچائے یا عضو کی ہیت کو مستقل طور پر بگاڑ دے تو کہا جائے گا کہ وہ اتلاف صلاحیت عضو کا باعث ہوا۔483
دفعہ 336کے مطابق جو کوئی شخص کسی شخص کو ضرر پہنچانے کی نیت سے یا یہ جانتے ہوئے کہ اس کا کسی کو ضرر پہنچانے کا امکان ہے کوئی فعل کر کے کسی شخص کے اتلاف صلاحیت عضو کا باعث ہو، تو اسے مجاز میڈیکل افسر کے مشورے سے قصاص کی سزا دی جائے گی اور اگر اسلامی احکام کے مطابق مساوات کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قصاص کی تعمیل ممکن نہ ہو تو مجرم ارش کا مستوجب ہو گا اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جا سکے گی جو دس سال تک ہو سکتی ہے۔484 دفعہ 337 میں یہ بیان ہوا کہ جو کوئی شخص کسی شخص کے سریا چہرے پر کوئی ایسا ضرر پہنچائے جو اتلاف عضو یا اتلاف صلاحیت عضو کی حد تک نہیں پہنچا تو کہا جائے گا کہ اس نے شجہ لگایا۔شجہ کی حسب ذیل اقسام ہیں: الف)شجہ خفیفہ ،ب)شجہ موضحہ ،ج) شجہ ہاشمہ ،د) شجہ منقلہ، ہ) شجہ آمہ اور و) شجہ دامغہ۔485
دفعہ 337-A یہ بیان کرتی ہے کہ جو کوئی شخص اس نیت سے کوئی فصل کرے کہ وہ اس کے ذریعے سے کسی شخص کو ضرر پہنچائے یا اس امر کے احتمال کے علم سے کہ اس فعل سے وہ کسی شخص کو ضرر پہنچائےگا۔اول) کسی شخص کو شجہ خفیفہ پہنچائے تو وہ ضمان کا مستوجب ہو گا اور اسے بطور تعبیر کسی ایک قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جا سکے گی جو دو سال تک ہو سکتی ہے۔دوم) کسی شخص کو شجہ موضحہ پہنچائے تو اسے مجاز میڈیکل افسر کے مشورے سےقصاص کی سزا دی جائے گی اور اگر احکام اسلامی کے مطابق مساوات کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قصاص قابل نفاذ نہ ہو تو مجرم ارش کا مستوجب ہو گا جو دیت کی پانچ فیصد ہو گی اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو پانی سال تک ہو سکتی ہے۔
سوم) کسی شخص کو شجہ ہاشمہ پہنچائے وہ ارش کا مستوجب ہو گا جو دیت کی دس فیصد ہو گی اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جاسکے گی جس کی میعاد سات سال تک ہو سکتی ہے۔
چہارم) کسی شخص کو شجہ منقلہ پہنچائے وہ ارش کا مستوجب ہو گا جو دیت کی پندرہ فیصد ہو گی اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے تعزیر بھی اتنی مدت کے لئے دی جاسکے گی جو دس سال ہو سکتی ہے۔پنجم) کسی شخص کو شجہ عامہ پہنچائے وہ ارش کا مستوجب ہو گا جو دیت کی ایک تہائی ہوگی اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جاسکے گی جس کی میعاد دس سال تک ہو سکتی ہے۔ششم) کسی شخص کو شجہ دامغہ پہنچائے وہ ارش کا مستوجب ہو گا جو دیت کا نصف ہو گی اور اسے بطور تعزیر کسی بھی قسم کی سزائے قید بھی اتنی مدت کے لئے دی جاسکے گی جس کی میعاد چودہ سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس،ماسوائے شجہ خفیفہ ، وارنٹ ناقابل ضمانت سوائے شجہ خفیفہ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن یا مجسٹریٹ بااختیارات دفعہ 30 ضابطہ فوجداری ہو گی ۔486
دفعہ 337-B جوکوئی کسی شخص کے جسم کے کسی حصہ پر ماسوائے سریا چہرہ کے کوئی ایسا زخم لگائے جو عارضی یا مستقل طور پر اپنا نشان چھوڑ جائے تو کہا جائے گا کہ وہ جرح کا باعث ہوا ہے۔487جرح کی دو قسمیں ہیں: الف)جائفہ اور ب) غیر جائفہ۔ جو کوئی ایسے جرح کا باعث ہو جس میں رقم جسم کے دھڑ کے جوف تک پہنچ جائے تو کہا جائے گا کہ وہ جائفہ کا باعث ہوا ہے اورجو کوئی ایسے جرح کا باعث ہو جو جائفہ نہ ہو تو کہا جائے گا کہ وہ غیر جائفہ کا باعث ہوا ہے۔488دفعہ 337-Q جو عضو انسانی جسم میں ایک ہوتا ہے اسے تلف کرنے کا ارش دیت کی مالیت کے مساوی ہوگا۔489
دفعہ 337-R جو اعضاء انسانی جسم میں دو دو پائے جاتے ہیں ان کا ارش دیت کی مالیت کے برابر ہو گا اور اگر ویسے اعضاء میں سے ایک عضو کو تلف کیا جائے تو ارش کی مقدار دیت کا نصف ہوگی ،مگر شرط یہ ہے کہ اگر متضرر کا ایسا ایک ہی عضو ہو یا اس کا دوسرا عضو غائب ہو یا پہلے ہی ناکارہ ہو چکا ہو تو موجود یا کار آمد عضو کو تلف کرنے کا ارش دیت کی مالیت کے مساوی ہو گا۔490
دفعہ 337-S جو اعضاء انسانی جسم میں چار چار پائے جاتے ہیں ۔ان کا اتلاف وقوع میں لانے کاارش۔الف) دیت کی ایک چوتھائی کے برابر ہو گا اگر اتلاف ویسے اعضاء میں سے ایک کاہو۔ب) دیت کے نصف کے مساوی ہو گا، اگر اتلاف ویسے اعضاء میں سے دو کا ہو۔ج) دیت کے تین چوتھائی کے برابر ہو گا اگر اتلاف ویسے اعضا میں سے تین کا ہو اورد) پوری دیت کے برابر ہو گا اگر اتلاف ان چاروں اعضاء کا ہو491 اوردفعہ 337-T میں بیان ہوا ہے کہ ہاتھ یا پاؤں کی کسی انگلی کا اتلاف وقوع میں لانے کا ارش دیت کا دسواں حصہ ہو گا۔ کسی کی انگلی کے جوڑ کو اتلاف پہنچانے کا ارش دیت کا تیسواں حصہ ہو گا، مگر شرط یہ ہے کہ اگر اتلاف کسی انگوٹھے کے جوڑ کا ہو تو ارش دیت کا بیسواں حصہ ہوگا۔492
دفعہ 337-X.میں بیان ہوا ہے کہ ارش کی ادائیگی کو یک مشت یا ایسی اقساط میں واجب الادا قرار دیا جا سکے گا جو قطعی فیصلے کی تاریخ سے تین سال کی مدت پر پھیلی ہوئی ہو۔ جبکہ کوئی سزایاب مجرم تحتی دفعہ (1) میں مصرحہ مدت کے اندر ارش یا اس کا کوئی حصہ ادا کرنے میں ناکام رہے تو سزا یاب مجرم کو جیل میں رکھا جائے گا اور اس سے اس طرح سلوک کیا جائے گا گویا اسے قید محض کی سزا دی گئی ہو تاوقتیکہ ارش پورا ادا نہ ہو جائے یا اسے ضمانت پر رہا کیا جا سکے گا اگر وہ ارش کی ادائیگی کے لئے عدالت کے اطمینان کی حد تک ارش کی مالیت کے مساوی ضمانت مہیا کر دے۔ جبکہ کوئی سزا یاب مجرم ارش یا اس کے کسی حصہ کی ادائیگی سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ اس کی جائیداد سے وصول کیا جائے گا۔493
دفعہ 338کے مطابق جو کوئی شخص کسی ایسے بچے کی حاملہ عورت کا اسقاط حمل وقوع میں لائے جس کے اعضا ابھی تشکیل نہ پائے ہوں تو اگر اسقاط حمل عورت کی جان بچانے یا اسے ضروری علاج مہیا کرنے کی غرض سے نیک نیتی سے وقوع میں نہ لایا گیا تو کہا جائے گا کہ وہ اسقاط حمل وقوع میں لایا۔494
دفعہ 338-A میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو کوئی اسقاط حمل کا باعث ہو تو وہ بطور تعزیر حسب ذیل تعزیر کا مستوجب ہو گا:الف) کسی بھی قسم کی سزائے قید جو تین سال تک کی مدت کے لئے ہو سکتی ہے۔ اگر اسقاط حمل عورت کی رضا مندی سے کیا گیا ہویا ب)کسی بھی قسم کی سزائے قید جو دس سال تک کے لئے ہو سکتی ہے اگر اسقاط حمل عورت کی رضا مندی کے خلاف کیا گیا ہو، مگر شرط یہ ہے کہ اگر اسقاط حمل کے نتیجہ میں عورت کو کوئی ضرر پہنچے یا وہ مر جائے تو مجرم مذکورہ ضرر یا موت کے لئے جیسی بھی صورت ہو مقرر کردہ سزا کا مستوجب ہو گا۔ ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن یا مجسٹریٹ بااختیارات دفعہ 30 ضابطہ فوجداری ہو گی ۔495
دفعہ 338-B جو کوئی کسی حاملہ عورت کے ایسے جنین کے اسقاط کا باعث بنے جس کے کچھ جوڑیا اعضاء بن چکے ہوں تو اگر مذکورہ اسقاط عورت کی جان بچانے کی خاطر نیک نیتی سے نہ کیا گیا ہو تو کہا جائے گا کہ اس نے اسقاط جنین کیا۔496دفعہ 338-C کے مطابق جو کوئی شخص اسقاط جنین کا باعث بنے وہ۔ الف)دیت کے بیسویں حصہ کا مستوجب ہو گا اگر بچہ مردہ پیدا ہو۔ب) پوری دیت کا مستوجب ہو گا اگر بچہ زندہ پیدا ہو لیکن مجرم کے کسی فعل کے نتیجہ میں ہلاک ہو جائے یاج) بطور تعزیر کسی ایک قسم کی سزا کا مستوجب ہو گا جس کی سزا سات سال تک ہو سکتی ہے اگر بچہ زندہ پیدا ہو لیکن مجرم کے کسی فعل کی بجائے کسی اور وجہ سے ہلاک ہو جائے،مگر شرط یہ ہے کہ اگر کسی عورت کے رحم میں ایک سے زائد بچے ہوں تو مجرم ویسے ہر بچے کے لئے الگ الگ دیت یا جیسی کہ صورت ہو تعزیر کا مستوجب ہو گا۔ مزید شرط یہ ہے کہ اگر اسقاط جنین کے نتیجے میں عورت کو کوئی ضرر پہنچے یا وہ ہلاک ہو جائے تو مجرم اس سزا کا بھی مستوجب ہو گا جو ویسی ضرر یا جیسی کہ صورت ہو مدت کے لئے مقرر ہے۔۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ، وارنٹ ناقابل ضمانت ، قابل راضی نامہ اور عدالت سیشن یا مجسٹریٹ بااختیارات دفعہ 30 ضابطہ فوجداری ہو گی 497دفعہ338-D کے مطابق قصاص یا تعزیر کے طور پر دی گئی سزائے موت یا ضرر کا باعث ہونے کے لئے دی گئی قصاص کی سزا کی تعمیل نہیں کی جائے گی تاوقتیکہ عدالت عالیہ اس کی توثیق نہ کر دے۔498
قوانین حدود و قصاص میں ہونے والی ترامیم
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام الناس کا رجحان زیادہ تر مذہب کی طرف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس مملکت خداداد میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور عمل درآمد ہو لیکن اندرونی و بیرونی مداخلت کی بنا پر حدود وقصاص آرڈیننس میں مند رجہ ذیل ترامیم کی گئی ہیں:
قصاص و دیت ایکٹ میں ہونے والی ترامیم
قصاص اور دیت ایکٹ سے قبل صدر پاکستان اپنے اختیار کے ذریعے سے کسی بھی مجرم کی قصاص و دیت کے تحت سزا میں کمی یا تخفیف یا ختم کرنے کا اختیار رکھتا تھا ۔ اس قانون کے ذریعے قصاص و دیت سے متعلق جرائم کی سزا میں کسی بھی قسم کی تخفیف کے صدارتی اختیار کو مقتول کے ورثاء کی مرضی سے مشروط کر دیا گیاہے جس کے پیش نظر قصا ص و دیت ایکٹ 1997 کے تحت دفعات 53 تا 55 تعزیرات پاکستان میں ترامیم کی گئیں، جو کہ اوپر تفصیلی طور پر The Criminal Law (Amendment) Act 1997دفعات 2 سے 6 میں بیان ہو چکے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...