Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست > فصل دوم : حدود قوانین کے عدم نفاذ کی وجوہات

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

فصل دوم : حدود قوانین کے عدم نفاذ کی وجوہات
ARI Id

1707476245802_56118885

Access

Open/Free Access

Pages

255

فصل دوم : حدود قوانین کے عدم نفاذ کی وجوہات
پاکستان میں اسلامی قوانین کی عملی تنفیذ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس حوالے سے سب سے زیا دہ کوششیں محمد ضیاء الحق کے دور میں ہوئی ہیں ۔ اس گیارہ سالہ دور اقتدار میں اسلامی قانون سازی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ۔ ضیاء الحق کا سیاسی کردار اور قانون سازی کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کے اسباب ومحرکات اپنی جگہ، لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ انہوں نے فی الواقع اسلامی قوانین کے لیے جو اقدامات کیے ان کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں ، تاہم اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔ افرط و تفریط سے بچتے ہوئے اگر غیر جانبداری اور معروضیت سے جائزہ لیا جائے تو قانون سازی کے سلسلے میں ان کے قابل قدر اقدامات کے باوجود معاشرے پر نمایاں اثرات نظر نہیں آئے ۔ اس کی مندرجہ ذیل چندوجوہات ہو سکتی ہیں:
الف) ضیاء الحق قوانین کو اسلامیانے کےپروگرام کے حق میں عوام کو فعال طریقے سے متحرک نہ کر سکے ۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ، جن میں سے ایک وجہ یہ ہےکہ ان کا تعلق فوج سے تھا اور وہ عوامی مینڈیٹ لے کر نہیں آئے تھے، نہ انہوں نے سیاسی جماعت بنانے یا کسی سیاسی جماعت کو اپنانے یا عوام سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کو شش کی ۔ ایک ریفرنڈم انہوں نے اس مقصد کے لیے ضرور کرایا لیکن وہ اتنا مصنو عی تھا کہ وہ اپنا وزن منوانہ سکا ۔
ب)انہیں فعال اور مؤثر دینی عناصر کی حمایت بھی حا صل نہ تھی ۔ اس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں دینی حوالے سے کوئی کام اس وقت تک نہ معتبر ہو سکتا ہے اور نہ مؤثر ہو سکتا ہے جب تک اس کو تمام مسالک و دینی عناصر کی حمایت حاصل نہ ہو۔
ج)ہماری بیوروکریسی "خواہ سول ہو یا فوجی ، حا ضر سروس ہو یا ریٹائر ڈ"کا مزاج اور اس کی تربیت بنیادی طور پر سیکولر ہے۔ اس کے فعال تعاون کے بغیر ملک میں کوئی بھی دینی پروگرام نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
د) محمدضیاء الحق مرحومؒ نے قوانین کو اسلامیانے کے حوالے سے جو ادارے قائم کیے وہ فعال طریقے سے اپنا کام نہ کر سکے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار مشاورتی ہے۔ اس کونسل کو اپنی رپورٹیں شائع کرنے تک کا اختیار نہ تھا، اس کی فائلیں مختلف وزارتوں کی درازوں میں پڑی رہتیں ۔ وفاقی شرعی عدالت بنائی گئی لیکن اس کا دائرہ کا ر محدود رکھا گیا اور مارشل لاء ریگولیشن ، مالی معاملات ، پروسیجرل لاء اور شخصی قوانین کو ان کی حد سے باہر رکھا گیا ۔ انٹر نیشنل اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد بنائی گئی لیکن اس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی کھپت کے لیے کوئی راستہ نہ نکالا گیا ، تاکہ وہ معمار ملت بن کر مثالی معاشرہ قائم کر سکیں ۔ لاء کمیشن بنایا گیا لیکن اس کے فعال اسلامی کردار کے انتظامات نہ کیے گئے ، زکوٰ ۃ و عشراور نظام صلوٰۃ جاری کیا گیا ، لیکن ایسی فعال ، قابل اعتما د اور متحرک انتظامیہ وضع نہ کی جاسکی جو مؤثر طریقے سے انہیں نافذ کرتی۔
ہ)قانون سازی کا عمل سست روی کا شکاررہا ، اس کے لئے بروقت قانون سازی اور آئینی ترامیم نہ ہو سکیں۔ حق شفع ، قصاص ودیت اور قانون شہادت وغیرہ کے مسودہ جات اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت مذہبی امور ، وزارت قانون ، مجلس شوریٰ اور اس کی کمیٹیوں ، اور لاء کمیشن وغیرہ کے درمیان برسوں سفر کرتے رہے اور جب پاس ہوئے تو بھی قصر صدارت میں جاکر پھنس گئے ۔ صدر مرحوم کی ایک مجبوری یہ تھی کہ نہ وہ خود عالم دین تھے اور نہ ہی ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود تھا جواس حوالے سے فیصلہ کرتا کہ مسئلہ اسلامی ہےیا نہیں ، تو وہ فیصلہ نہ کر پاتے کہ کیا کریں اور نہ انہوں نے کوئی ایسا ادارہ بنانے کی کوشش کی ، نتیجتاًتاخیر ہو جاتی۔
ز)یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ضیاءالحق کی اس ضمن میں ترجیحات مناسب نہ تھیں ۔ انہوں نے شریعت کی عملی تنفیذ کا آغاز حدودکے نفاذ سے کیا اور لوگوں کو بجا طور پر یہ کہنے کا موقع ملا کہ یہ سیاسی مخالفین کو کوڑے مارنے کا ایک بہانہ ہے۔ قانون سازی کے عمل کی ترجیحات اس طرح طے ہوں کہ لوگوں کو عملی طور پر مشکلات کم ہوں ۔ ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں معاشی خوشحالی ، معاشرتی امن ہواور لوگ اس کے خوشگوار اثرات کو واضح طور پر محسوس کریں ۔ اس مقصد کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی دینی اور فکری تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ عملی زندگی میں وہ اس کی اہمیت وضرورت کو سمجھ سکیں ۔ سب کچھ کیے بغیر اور ضروری تعلیم و تربیت کا اہتمام کے بغیراگر اسلامائیز یشن کا آغاز کوڑے مارنے اور ہاتھ کاٹنے سے کیاجائے گا تو ظاہر ہے اسے درست حکمت عملی نہیں کہاجاسکتا۔
ح)قوانین کو اسلامیانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ضیاء الحق کی اپنی ذات تھی ، اس لئے کہ ان کی سیاسی اور انتظامی طاقت کا منبع فوج تھی۔ مارشل لاء کو جاری رکھنا ان کی مجبوری تھی ورنہ وہ جس وقت بھی شریعت کو بالا دست کرتے ان کی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کردیا جاتا اور ان کا مستقبل مخدوش ہو جاتا۔ چنانچہ وہ مجبور تھے کہ جب تک وہ بر سر اقتدار رہنا چاہتے تو مارشل لاء کو جاری رکھتے ۔
ط)ایک جہت سے دیکھا جائے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام کو بھی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ضیاء دور میں ان کی ذات میں ارتکاز اختیارات کے باوجود ملک سیاسی اور انتظامی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا ۔ امن و امان کی حالت بہتر نہ تھی ، سرحدیں بھی غیر محفوظ تھیں ۔ پاکستان افغانستان میں ملوث ہونے کی وجہ سے ایک سپر پاور کے زیر عتاب تھا ۔ عوام الناس توان کے ساتھ تھی، لیکن سیکولر ، جرائم پیشہ افراد اور ان کےسرپرست ان کے ساتھ نہ تھے۔ ان حالات کے باوجود انہوں نے قانون سازی اور اس کی تنفیذ کے لیے جواقدامات کیے، وہ قابل ستائش ہیں۔
مذکورہ بالا وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے محمد ضیاء الحق کا قوانین کو اسلامیانے کا عمل بہت مؤثرثابت ہوا ۔ لیکن دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ ضیاء الحق نے کیا ، نہ ان کے پیشرواتنا کر سکے ،نہ ہی آج تک بعد میں آنے والے کر سکے ہیں اور نہ مستقبل قریب میں اس کا امکان نظر آتا ہے ۔ مسلم لیگ کی حکومت بنی لیکن قوانین کو اسلامیانے کے حوالے سے ان کا رویہ بھی غیر سنجیدہ رہا ہے۔ اس کے بعد متعدد انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں متعدد حکومتیں وجود میں آئیں ، لیکن اسلامی قوانین کے حوالے سے مجموعی طور پر اکثریت کا رویہ منفی رہا ہے ۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل عوامل اسلامی قوانین کی عموماً اور خاص طور پر قوانین حدودو قصاص کےنفاذ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں:

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...