Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

12۔بین الاقوامی دباؤ
ARI Id

1707476245802_56118897

Access

Open/Free Access

Pages

263

قوانین حدود و قصاص قوانین کی تنفیذ نفاذ کی جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ اکثر اوقات ان کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ ہماری طاقتور حکومتیں اور معزز اشرافیہ اس دباؤ کے تحت اسلامیانے کے عمل سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ حکومت پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ اور اثرات کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں، جیساکہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد حکومت میں جب ہماری پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ اس وقت اسمبلی میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ شناختی کارڈ میں یہ لکھا جائے گا کہ شناختی کارڈ ہولڈر مسلمان ہے یا غیرمسلم اور اگر غیر مسلم ہے تو عیسائی ہے ، ہندو ہے یا قادیانی ۔ اسمبلی کے اس فیصلے پر1992ء تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جب 1992ء میں نئے شناختی کارڈ بننے لگے اور پرانے کارڈ منسوخ کیے جانے لگے تو حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسمبلی کے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے اور شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ رکھا جائے۔ لیکن بہت سی غیر ملکی طاقتوں اور تنظیموں نے اس کی مخالفت کی اور ان کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ شناختی کارڈوں میں مذہب کا خانہ نہ رکھا جائے۔ حکومت نے اس غیر ملکی دباؤ پر اس فیصلہ کوواپس لے لیا۔
پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں غیر ملکی دباؤ کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا قانون(Blasphemy Law) قیام پاکستان کے بعد کا نیا قانون نہیں ہے۔ یہ قانون آج سے بہت پہلےکا بنا یا ہوا ہے۔ انگریزوں کے دور میں 1927ء میں ‏The Criminal Law Amendment Act XX کے تحت انڈین پینل کوڈ 1860ء میں ایک نئی دفعہ 295.A کا اضافہ کیا گیا تھا جس میں مذہبی عقائد کی تو ہین قابل تعزیر جرم قرار دی گئی تھی۔ بعد میں اس طرح کی دفعات کا اضافہ کیا جاتا رہا۔ 1980ء کے عشرہ میں چند اور ترامیم کی گئیں جن کی رو سے امہات المومنین ، اہل بیت ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بے حرمتی کو فوجداری جرم بنا دیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک نئی دفعہ 295.A ہی کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت رسول اللہ ﷺ کی تو ہین کے مجرم کے لیے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ۔ اکتوبر 1990ء میں وفاقی شرعی عدالت کے ایک حکم اور سینٹ کی ایک متفقہ قرارداد کی رو سے 30اپریل 1991ء سے توہین رسالت کے مرتکب کی سزا، سزائے موت مقرر ہو گئی ۔
اس قانون پر دباؤ کتنا ہے؟ اس کا اندازہ ہر اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو مغربی سفار خانوں سے مفت ویزے ملتے ہیں اور وہ جیل سے براہ راست ائیر پورٹ اور وہاں سے مختلف مغربی ممالک پہنچا دیئے جاتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے والے مدعی کے پیچھے بین الاقوامی ادارے اس طرح ہاتھ دھو کر لگ جاتے ہیں، جیسے اس شخص سے کوئی بہت بڑاجرم سرزد ہوا ہو۔
اسی طرح 7اگست 2023ء کو امہات المومنین ، اہل بیت ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بے حرمتی پر تین سال قید کی سزا کو جب بڑھا کر دس سال یا عمر قید کی سزا پر جو واویلا سامنے آیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے،حالانکہ یہ قانون تین سالہ سزا کے ساتھ پہلے سے باقاعدہ موجود تھا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...