Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
Authors

ARI Id

1676046603252_54338547

Access

Open/Free Access

Pages

25

ڈاکٹراقبال مرحوم
وادریغا!دوسال کی طویل علالت کے بعد اسلام کے مایۂ ناز فرزند ڈاکٹر محمد اقبال نے بتاریخ ۲/اپریل۱۹۳۸ء لاہور میں انتقال فرمایا،اورہماری بزم علم و حکمت کوخالی چھوڑکررہ گزاے عالم جادوانی ہوگئے۔اقبال کاوجود عشقِ رسول کا پیکر تھا، اخیر عمر میں تویہ حالت ہوگئی تھی کہ جہاں’’مدینہ‘‘یا آقائے مدینہ کاذکر آیا اور بے ساختہ رونے لگے۔ ان کی شاعری کے انمول موتیوں کاخزانہ اوراُن کی زبان حقیقت و معرفت ربانی کی ترجمان تھی، ان کاقلب اسلامی سوزوگداز سے معمور اوران کادماغ حب اسلام کے نشہ سے مخمور تھا، وہ اگرچہ انگلینڈ اورجرمنی کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے لیکن خمستانِ حجاز کی جس بادۂ ہوش افزا کے چند جرعے اُنھوں نے اپنی طفولیت کے ابتدائی دنوں میں لے لیے تھے اس کانشہ کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتاہی گیا اورنتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سرتاپا اسلامی سوزدگداز بن کے رہ گئی۔ اقبال نے اسلام کے دورعروج وتنزل کابہت عمیق مطالعہ کیا تھا اوران کی شاعری میں اسلام کے روشن مستقبل سے متعلق بہت کچھ اُمید افزا خیالات پائے جاتے ہیں۔ اقبال نے اپنا ترانہ اُس وقت چھیڑا جب کہ ہنگامہ غدر کے اثرات مابعد سے مسلمانوں پرانتہائی جمودوخمود کاعالم طاری تھا اوراُن کے قومی و ملّی احساسات پامال ہوچکے تھے۔ اقبال نے اپنے حیات آفریں نغموں سے اس دل شکستہ قوم کواُبھارا اورزندگی کے احساس سے پھرانہیں بھرپور کردیا۔
ڈاکٹراقبال مرحوم کی وفات حسرت آیات کاصدمہ ہمیں اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتا کہ آں مرحوم میں اورہمارے استاذ حضرت شاہ صاحبؒ میں ایک خاص قلبی ارتباط تھا۔ڈاکٹر صاحب علوم اسلامیہ میں حضرت شاہ صاحب کواپنا مرشد و رہنما جانتے تھے اوردل وجان سے اُن کی عزت کرتے تھے۔چنانچہ خطبات مدراس جو ''The Reconstruction of Religious Thought in Islam'' کے نام سے شایع ہوچکے ہیں ان میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت شاہ صاحب سے اپنے علمی استفادہ کابرملا اعتراف کیا ہے۔ اُدھر حضرت استاذ رحمتہ اﷲ علیہ ڈاکٹرصاحب کی علمیت ولیاقت،اسلام پرستی وفقر منشی کی قدر کرتے تھے اوردونوں میں مراسلت کاسلسلہ جاری تھا۔دیوبند سے حضرت شاہ صاحب کی علیحدگی کے بعد ڈاکٹر صاحب کی دلی خواہش تھی کہ کسی طرح حضرت مرحوم لاہور میں مستقل قیام کرنا منظور فرمالیں لیکن چنددر چند موانع کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔
حضرت شاہ صاحب سے اس خاص تعلق کے علاوہ ندوۃ المصنفین جن اغراض ومقاصد کے ماتحت قائم ہورہاہے، ڈاکٹر اقبال صاحب مرحوم کو ان سے خاص دلچسپی تھی اوراپنی گفتگو میں ان کی اہمیت کوبڑے زور سے بیان کرتے تھے، علی الخصوص فقہ کی جدید ترتیب وتدوین کا مسئلہ اُن کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا اور حضرت شاہ صاحب سے بھی بارہا اس کا تذکرہ کرچکے تھے، اس بناپر ندوۃ المصنفین کے ابتداء قیام سے ہی ہمارا ارادہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کواپنے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل کریں اورہمیں قوی توقع تھی کہ آں مرحوم ہماری اس خواہش کومسترد نہ کرتے۔
صدحیف کہ ابھی ہم ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے لاہور کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ اچانک ان کی وفات کی اطلاع آگئی اورہمارایہ منصوبہ دل کادل ہی میں رہ گیا:
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
حق تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور اپنی بیش از بیش نعمتوں سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔ [جولائی ۱۹۳۸ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...