Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مصطفی کمال پاشا
Authors

ARI Id

1676046603252_54338550

Access

Open/Free Access

Pages

26

آہ! مصطفےٰ کمال پاشا
نومبر ۱۹۳۸ء کا سب سے زیادہ المناک حادثہ جس نے تمام عالم اسلامی میں رنج و غم کی ماتمی صفیں بچھادیں، مصطفی کمال کی وفات کا حادثہ ہے۔ مصطفی کمال کا وجود اس زمانہ میں مسلمانوں کے تار عظمت وبزرگی کا ایک درخشندہ موتی اور اسلامی سطوت وصولت کی ایک شمشیر لرزہ فگن تھا۔ وہ دبدبۂ و شوکت اسلام کے قصررفیع کے ایسے ستون تھے، جس کے گرتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام عالم میں زلزلہ آگیا، اور اس کے بام و در پر کپکپی طاری ہوگئی ہے۔
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولٰکنہ بنیان قوم تھدما
وہ ۱۸۸۱ء میں سالونیکا کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، ابھی عمر نو برس کی ہی تھی کہ سر سے باپ کا سایہ اٹھا گیا، ماں انتہا درجے کی عابدہ زاہدہ تھیں۔ انھوں نے ہر چند چاہا کہ بیٹا دینی تعلیم حاصل کرکے ملّا بن جائے، لیکن جس کی قسمت میں ٹرکی کے مریض نیم جاں کی مسیحائی لکھی ہوئی تھی اور جس کو غازی بن کرعالم میں رونما ہونا تھا، وہ کس طرح اس مفت خوری پرآمادہ ہوسکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہواکہ اُنہوں نے فوجی تعلیم حاصل کی اور ٹرکی کے مختلف معرکوں میں اپنی شجاعت وبسالت کے وہ حیرت انگیز جوہر دکھائے جس نے ٹرکی کی تاریخ کو یکسر منقلب کرکے رکھ دیا۔مصطفی کمال شروع سے ہی حریت پرست اوراستقلال کوش تھے، وہ خلیفۂ وقت کوعیسائی طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح کھلونا بنا ہوا دیکھتے تھے تواُن کی آنکھوں میں خون اُترآتا تھا،اور چاہتے تھے کہ ٹرکی کواجنبی عناصر سے پاک وصاف کرکے اتنا مضبوط وقوی بنادیاجائے کہ پھر کسی حریف کو اُس کی طرف نگاہ حرص و آز بلند کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔اس سلسلہ میں اُن کا تعلق ایک ایسی انقلاب پسند جماعت سے ہوگیا جو موجودہ خلافت کاتختہ اُلٹ کر ترکی کی حریت واستقلال کے لیے راہ صاف کرنا چاہتی تھی۔اس جرم میں مصطفی کمال کوکئی بار قیدخانہ کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اس مرد یقین واذعان کا عزمِ بلند ان تکلیفوں سے کہیں پست ہوسکتا تھا؟وہ جب کبھی قیدخانہ سے باہر آیا، اُسی ولولۂ و عزم کے ساتھ، اوراسی جنونِ استقلال و آزادی کے ساتھ جو تندرست جوانی کے خون کی طرح اُس کی رگ رگ میں دوڑ رہا تھا اورجس نے اُس کی زندگی کوپارۂ لرزاں وشعلہ سوزان کی طرح بے چین کررکھا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں ایسے بڑے لوگ کم ملیں گے جو بیک وقت دل اوردماغ دونوں کی خوبیوں کے مالک ہوں۔شیر کاسا گردہ وجگر کی مانند دل رکھتے ہوں اور دماغ نورِبصیرت وتدبر کی شمع روشن ہو۔خدا نے غازی مصطفی کمال کودونوں قسم کی خوبیوں سے حصۂ وافر عطافرمایا تھااور اس بناپر اُن کے سوانح حیات موجودہ ٹرکی کی پوری عمرانی وتمدنی تاریخ ہے۔وہ ۱۹۱۲ء و ۱۹۱۳ء کی جنگ بلقان میں فوجی اسٹاف کے ایک ممتاز رکن تھے۔۱۹۱۳ء سے ۱۹۱۵ء تک صوفیہ میں ترکی سفارت کے ایک فوجی ممبر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔اس کے بعد وقت آیا کہ اُن کی غیر معمولی جنگی قابلیتیں آشکارا ہوں۔چنانچہ جنگ عظیم میں اُنہوں نے درّہ دانیال کی مدافعت میں حیرت انگیز شجا عت کا اظہار کیا۔پھر فلسطین میں ترکی افواج کی قیادت کی، اورگلی پولی کے معرکہ میں حق کی شمشیر آبدار بن کر نمودار ہوئے۔۱۹۱۸ء کے معاہدۂ سیورے کی رُوسے جب اتحادیوں نے ترکی کے مریض نیم جان کے حق میں موت کافتوی صادر کردیا اورمئی ۱۹۱۹ء میں یونانی افواج نے سمرنا پرپڑاؤ ڈالا تومصطفی کمال کسی طرح اناطولیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اوریہاں انھوں نے ترک جوانوں کوجوش دلا کر حزب وطنی کی ایک جماعت میں منسلک کردیا۔پھر انھی نوجوانوں کی ایک لاکھ کی جمعیت کے ساتھ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے یونانیوں کو اتنی زبردست شکست دی کہ وہ ایشیائے کوچک کو بصد حسرت و یاس چھوڑ دینے پرمجبور ہوگئے۔پھر یہی وہ بہادر سپاہی اور جرنیل تھا جس کے غیر معمولی تدبر نے ۲۴/جولائی ۱۹۲۳ء کے معاہدۂ لوزان میں اُن لوگوں کو بھی ٹرکی کی دستاویزات حیات پر مہر تصدیق ثبت کیے بیٹھے تھے۔ مصطفی کمال کایہ کارنامہ جس نے لائڈ جارج جیسے گرگ باراں دیدہ اوردوسرے مدبرین برطانیہ کو غرقِ تحیر کردیا،اتنا عظیم الشان تھا کہ ملک ملک میں اس پر حیرت و استعجاب کااظہار کیا گیا اوراُنھیں غازی کے خطاب سے پکارا جانے لگا۔ ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۳ء کادن ٹرکی میں ہمیشہ یادگار رہے گا جب کہ ترکی نے غازی مصطفی کمال کی انقلاب آفریں ہمت وعزم، کوہ آسااستقلال وپامردی اورحیرت انگیز حزم و دوراندیشی کی بدولت ایک نیا جنم لیا اورتمام پچھلی آلایشوں سے پاک و صاف ہوکرترکی جمہوریت کااعلان کردیا جس کے صدرخود مصطفی کمال منتخب ہوئے۔یکم نومبر۱۹۲۳ء کوسلطنت کا خاتمہ ہوگیا اورنہ صرف سلطان بلکہ پورے عثمانی خاندان کو ٹرکی سے نکلنا پڑا۔
صدر جمہوریہ ترکی کی حیثیت سے غازی مصطفی کمال نے جس وادیٔ پُرخار میں قدم رکھا تھا اُس سے پورے طورپر صحیح سلامت نکل آنا اُن کے تدبر اورمآل اندیشی اور وقت شناسی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اس زمانہ میں ترکی کے لوگوں پربالعموم جہالت کاغلبہ تھا۔قدامت پسندی حد سے زیادہ تھی۔غازی مصطفی کمال نے ترکی کو عہدجدید کی ایک زندہ ترقی یافتہ قوم بنانے کے لیے اصلاحات کا جو زبردست پروگرام بنایا تھا اُس پر وہ سخت سے سخت مخالفتوں کے باوجود شدت سے کاربند رہے۔اس پندرہ سال کے عرصے میں اُن کے قتل کی سازشیں بھی ہوئیں اوربغاوتوں کے شعلے بھی بھڑکے لیکن مصطفی کمال نے ان سب کوختم کرکے رکھ دیا۔آج ترکی صنعت وحرفت،معاشرت،تعلیم اوراقتصادی حالات کے اعتبار سے عہد حاضر کی بڑی سی بڑی متمدن قوم سے پیچھے نہیں ہے۔شاہ امان اﷲ خاں کواپنے مشن میں ناکام ہوکر افغانستان سے ہجرت اختیار کرنی پڑی لیکن غازی مصطفی کمال اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگئے۔یہ اس بات کاثبوت ہے کہ وہ قوم کی نفسیات اورمزاج سے بخوبی واقف تھے اورخود بھی اصلاحی اسپرٹ کا ایک ایسا جذبۂ معتدل رکھتے تھے جواُن کی کامرانیوں کا ضامن تھا۔ غازیٔ مرحوم نے ترکی کو زندہ قوم بنا کر نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ تمام مسلمانوں پر احسانِ عظیم کیا ہے۔کیونکہ جب تک مسلمان ہیں اُن کارشتۂ اخوت مسلمانانِ عالم سے منقطع نہیں ہوسکتا۔
غازی مصطفی کمال کے جزیٔ اعمال وافعال سے یااُن کی بعض اصلاحات وطنی سے اختلاف ہوسکتاہے۔لیکن ہم کویہ حقیقت کبھی فراموش نہ کردینی چاہیے کہ جو مجاہد حریت وآزادی حق کی راہ میں سربکف ہوکرمیدان جنگ میں اپنی جان کی بازی لگادے،وہ اُن ہزاروں خانقاہ نشینوں سے بدرجہا بہتر ہے جوایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے ہوئے تسبیح ومصلیٰ کاشغل تورکھتے ہیں لیکن حق کی حمایت میں اپنی ایک انگلی بھی شہید کرانے کاحوصلہ نہیں رکھتے۔شہدا بدر وحنین کے جامہ ہاے گلرنگ و دامن ہاے صد چاک کی قسم ایک سرفروش اسلام کا نعرۂ تکبیر جو کفروشرک کے سربفلک ایوانوں کوخاک مذلت پرگرادے، اُن بے روح سجدہ ہائے بندگی سے کہیں زیادہ افضل واشرف ہے جو ایک کافر کے دل میں بھی خروش پید انہیں کرسکتے۔
وہ مصطفی کمال جس نے اسلام کی دشمن طاقتوں کوکچل کر رکھ دیا اور جس نے اپنے مجاہدانہ عزم و حوصلہ سے ٹرکی کی نعش کوجابروقاہرحکومتوں کے پنجۂ استبداد واستیلاء سے چھین کر ازسرِنو اس میں زندگی کی روح پھونک دی۔کیا اُس پر طعن کرنے کاحق کسی ایسے شخص کوحاصل ہوسکتا ہے جس کادل توپ و تفنگ کی آواز سن کر دہل جاتاہے اوررسمی عبادتوں اورریاضتوں کے باوجود دین حق کی مردانہ وار حمایت کاایک ادنیٰ سا جذبہ اورولولہ بھی نہیں رکھتا۔
ابو محجن ثقفی شراب نوشی کے جرم میں گرفتار تھے، اُنہوں نے دورسے دیکھا کہ قادسیہ کے میدان میں مسلمان اورایرانی برسرپیکار ہیں،جذبۂ مردانگی و شجاعت نے جوش مارا لشکر اسلام کے قائد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی بیوی سے درخواست کی کہ خدا کے لیے ذرا میری بیڑیاں کھول دو، میں جنگ میں شریک ہوں گا اور پھر واپس آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔اُنہوں نے منظور کرلیا ابو محجن حضرت سعدؓ کے گھوڑے پربیٹھ کر سیدھے میدان جنگ میں جاپہنچے اوردشمنوں کی صفوں میں گھس کردادشجاعت دینے لگے۔حملہ میں ممتاز تھے۔حضرت سعدؓ نے اپنے بالاخانہ سے یہ منظر دیکھا توبول اُٹھے’’حملہ محجن کاساہے مگر گھوڑا میرا ہے‘‘۔ جنگ کے ختم پر ابومحجن واپس ہوئے توحسب وعدہ کہا ’’مجھ کو بیڑیاں پہنا دو‘‘لیکن جس نے دین حق کی حمایت میں اس قدر جان فروشی کاثبوت دیاتھا۔حضرت سعدؓ کب اس کوایک جزئی فروگزاشت پر قید کرسکتے تھے۔فرمایا’’لاضربتک ابدا‘‘ اب میں تم کو کبھی شراب کے جرم میں نہیں ماروں گا‘‘۔ابو محجن نے کہا ’’تواب میں کبھی شراب بھی نہیں پیوں گا۔‘‘
دنیا میں کتنے بڑے بڑے متقی اورپرہیزگار انسان مرتے ہیں لیکن کتنے آدمی ہیں جواُن کے ماتم میں اشکبار ہوتے ہوں۔ مصطفی کمال کی وفات ہوئی تو عالم میں کہرام مچ گیا۔دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں اُن کا ماتم کیا گیا اوراُن کے لیے مغفرت کی دعائیں کی گئیں۔ایصال ثواب کے جلسے ہوئے،فاتحہ خوانی ہوئی اور پھر جب نمازجنازہ اُٹھا توٹرکی کابچہ بچہ گریاں وزاری کناں تھا،عورتوں کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں اوروہ فرطِ غم والم سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ’’آہ مصطفی کمال!تم کہاں گئے،تم کہاں گئے۔‘‘یہ عام آہ وبکا اورشیون وماتم اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنی قوم اوراپنے ملک ووطن کے لیے جان کی قربانی میں بھی دریغ نہیں کرتا وہ اُن ہزاروں عابدوں اور زاہدوں سے زیادہ مقبول ہوتا ہے جو تزکیۂ نفس اورتصفیۂ باطن کے ذریعہ اپنی نجات کاسامان توکرلیتے ہیں، لیکن اپنے بھائیوں کے لیے ایک رات کی نیند بھی قربان نہیں کرسکتے۔حق تعالیٰ غازی مصطفی کی لغرشوں کومعاف فرمائے اوراپنی بیش از بیش رحمتوں سے نوازے۔ آمین [دسمبر۱۹۳۸ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...