Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

علامہ طنطاوی جوہری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338553

Access

Open/Free Access

Pages

29

آہ!علامہ طنطاوی جوہرؔی
گذشتہ ماہ فروری میں مصر اور ہندوستان کے دوبڑے عالموں نے وفات پائی۔ مصر کے مشہور عالم علامہ طنطاوی جوہری عہد حاضر میں اُن مسلمانوں کے خواب کی سچی تعبیر تھے جو علوم جدیدہ کی خیرہ کن جگمگاہٹ سے مرعوب ہوکرایسے جید عالم کی تلاش میں رہتے تھے جو ان علوم کے مقابلہ میں اسلامی و قرآنی حقائق کی فوقیت اس تحقیقی انداز میں ثابت کرسکے کہ بڑے سے بڑے ماہر علوم کوبھی مجال انکار باقی نہ رہے۔وہ جس طرح دینیات اورعلوم قرآن وحدیث میں یگانۂ روزگار تھے اُسی طرح اُن کو جدید علوم، علم نباتات، علم حیوانات، فلسفہ، سائنس، تاریخ اورعلم ہیٔت و طبقات ِارض میں بھی بڑی دستگاہ تھی۔ پھران سب فضیلتوں پر مستزاد یہ کہ اُن کا ذوق نہایت مستقیم اور طبیعت انتہا درجہ سلیم تھی۔ان کی قوت فیصلہ درست اورملکۂ تنقید صائب تھا۔بے شبہ اُنھوں نے اس دور میں وہی کام کیا جوامام غزالی اورابن رشد نے فلسفۂ یونان کے مقابلہ میں اسلام کی حفاظت و صیانت کے لیے انجام دیا۔ان دونوں بزرگوں نے فلسفۂ یونان کا عمیق نظر سے مطالعہ کیااوراُس میں وہ کمال پیداکیا کہ فلسفہ کے ایک ایک جزیہ اورمسئلہ پرحاوی ہوگئے۔پھر فلسفہ کے جو اصول حق بجانب تھے اُن کو اسلام کی تعلیمات پرمنطبق کیا اور جو لغو و لاطائل باتیں تھیں اُن کا تارو پود ’’تہافت الفلاسفہ‘‘لکھ کر اس تحقیق وکمال دیدہ وری کے ساتھ کھولا کہ فلسفہ کا خلعتِ زریں ایک گداگر عقل و خرد کی گڈڑی میں تبدیل ہوکررہ گیا۔
علامہ طنطاوی ۱۲۸۷ھ میں پیداہوئے۔علوم مروجہ کی تحصیل وتکمیل کے بعد قاہرہ کے مدرسہ دارالعلوم میں استاد مقرر ہوگئے۔درس وتدریس کے شغل کے ساتھ اُنھوں نے تصنیف وتالیف کامشغلہ بھی جاری رکھا اورمتعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں چند اہم کتابیں یہ ہیں:(۱)الارواح،(۲)اصل العالم،(۳)این الانسان،(۴)التاج المرصع بجواھرالقرآن والعلوم،(۵)جمال العالم،(۶)الزھرۃ،(۷)السرالعجیب فی حکمۃ تعدد ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم،(۸)میزان الجواھر فی عجائب ھذاالکون الباھر،(۹)نظام العالم والا مم،(۱۰)النظام والاسلام،(۱۱)نھضۃ الامۃ وحیاتھا، الحکمۃ والحکماء۔
مرحوم کودینیات کے ساتھ علوم جدیدہ کی آمیزش میں خاص کمال حاصل تھا چنانچہ اُن کی کوئی کتاب اس خصوصیت سے خالی نہیں تھی،اُن کا یہ نظریہ بالکل صحیح ہے جس کا اظہار اُنھوں نے اپنی تفسیر میں جابجا کیا ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کی اصل وجہ اُن کاذہنی و دماغی جمود ہے۔ اوّل توان میں تعلیم یافتہ ہی کتنے ہیں؟ اور جو تعلیم یافتہ ہیں تواُن کا مبلغ علم اس سے زیادہ نہیں کہ چند پرانی کتابیں پڑھ پڑھ پڑھا کر کسی مسئلہ پربحث کی نوبت آئے تودوچار بزرگوں کے اقوال نقل کردیں اوربس۔دماغی بیداری جوکائنات عالم اور فطرت کے عمیق مطالعہ سے اور اُس سے نتائج اخذ کرنے سے پیدا ہوتی ہے اورجس کی طرف قرآن مجید نے بار بار مسلمانوں کودعوت دی ہے،وہ اُن سے یک قلم سلب کرلی گئی ہے۔ اب اُن کاعلم جوکچھ بھی ہے محض تقلیدی ہے اجتہادی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کے افکار مضمحل، قوت استنباط بیکار اورصلاحیت تنقید مردہ ہے۔وہ ماضی کی حکایاتِ پارینہ سنا کر چند آنسو توبہاسکتے ہیں لیکن زمانۂ حال کے پیغام سے مستقبل کوسنوارنے اور بنانے کاکوئی اہتمام نہیں کرسکتے۔وہ دوسروں کے بنائے ہوئے زمین وآسمان میں امن وعافیت کی زندگی بسرکرنے کے خواہشمند ہیں لیکن اب اُن میں خود یہ حوصلہ نہیں ہے کہ اپنی قوت’’یداللّٰہی‘‘سے کام لے کر ایک نئی زمین اورنیا آسمان پیداکریں اوردنیا کواُس کے سایہ میں پناہ لینے کی دعوت دیں۔علامہ مرحوم کایہی وہ جذبہ تھا جس سے متاثر ہوکر اُنھوں نے اخیر میں قرآن مجید کی ایک نہایت اہم تفسیر لکھنے کاعزم بالجزم کیا اورانجامِ کارسالہا سال کی شب وروز کی محنت شاقہ کے بعد اس کو پچیس ضخیم جلدوں میں ختم کرکے اُن کے رہوار قلم نے دم لیا۔ اس تفسیر کے مقصد کی توضیح وہ شروع میں خوداس طرح کرتے ہیں:
’’میں نے یہ تفسیر اس غرض سے لکھی ہے کہ کیا عجب ہے اﷲ تعالیٰ اس کو حسن قبول کے خلعت سے سرفراز فرمائے اورعام مسلمانوں کی آنکھوں پرجوجہل و نادانی کے پردے پڑے ہوئے ہیں وہ اُٹھ جائیں اوروہ علوم فطریہ کوسمجھنے لگیں۔انھیں آسمانی عجائب کے معلوم کرنے کاشوق ہو،اورجوزمین کی حیرت انگیز چیزیں ہیں اُن کی تحقیق پروہ مائل ہوں۔مجھ کو امید ہے کہ اس تفسیر کی وجہ سے مسلمانوں کی تہذیب بہت بلند ہوجائے گی اوروہ علوی وسفلی دنیاؤں سے نکل کر نوادر کاعلم حاصل کرکے زراعت،طب،معدنیات،حساب ، ہندسہ، فلکیات اور تاریخ وجغرافیہ وغیرہ علوم میں کمال پیدا کرکے علما مغرب سے بھی سبقت لے جائیں گے اوریہ کیوں نہ ہوجب کہ علم الفقہ کی آیتیں توصرف ڈیڑھ سو ہی ہیں لیکن علوم وفنون کی آیات سات سو پچاس سے بھی متجاوزہیں۔‘‘
جن اہل علم کوعلامہ مرحوم کی تفسیر’’الجواہر فی تفسیر القرآن الحکیم‘‘کے مطالعہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے، وہ جانتے ہیں کہ آپ نے جس مقصد کے پیش نظر اس اہم تفسیر کاآغاز کیا تھا وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں۔امام رازی کی تفسیر کبیر کی طرح ممکن ہے بعض لوگ اس تفسیر کی نسبت بھی یہ کہیں کہ قرآن مجید توبنی نوع انسانی کی اخلاقی،روحانی اوردینی وعملی اصلاح کی کتاب الہٰی ہے بھلا اُسے فلسفہ وتاریخ اورعلوم عصریہ سے کیا تعلق،کہ اُس کی تفسیر میں ان چیزوں سے بحث کی جائے۔ لیکن اصل یہ ہے کہ علوم عصریہ کی روشنی میں علامہ نے جوبحثیں کی ہیں اُن سے صرف یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ قرآن مجید کس طرح کائنات عالم اورفطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتاہے تاکہ اُن کے علم کے بعد جس طرح معلول سے علت،کسی فعل سے اُس کے فاعل کی طرف ذہن منتقل ہوجاتاہے اُسی طرح مخلوق سے خالق،اُس کے وجود،اُس کی ربوبیت اور الوہیت کی طرف ذہن کا نہ صرف انتقال ہوبلکہ اس کا اذعان وتیقن پیدا ہوجائے اورانسان ان تمام سلسلہ اسباب وعلل سے متجاوز ہوکراپنے وجود کو صرف اُس وراء الوراء ذات احدیت کے ساتھ مربوط کرلے جس کی مشیت و قدرت ان تمام کل پرزوں کوایک خاص نظام کے ساتھ چلارہی ہے۔ حق یہ ہے کہ دین دنیا کی تمام سعادتوں کاسرچشمہ صرف ایک ہی اذعان ہے جس کوقرآن مجید کی تمام تعلیمات کالُبِ لباب اورعطر کہاجاسکتاہے۔پھر تاریخی حقائق کے سلسلہ میں جو مباحث پیداہوگئے ہیں ضرورت ہے کہ اُن کا حل قدیم تاریخ کے تمام ذرائع معلومات کی روشنی میں تلاش کیاجائے تاکہ کلامِ الہٰی کی حقانیت و صداقت روزروشن کی طرح واضح اورمبرہن ہوجائے۔ اسی طرح قرآن مجید نے قوموں کے عروج وزوال کے جونفسیاتی اصول وقوانین بیان کیے ہیں اُن کی سچائی کایقین دلانے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخِ اقوام پیش نظر ہواور اُن کے عروج وانحطاط کے اسباب کاسراغ لگانے کی کوشش کی جائے۔
خدا کاشکر ہے کہ علامہ مرحوم کی یہ مساعی کامیاب ثابت ہوئیں اوراُن کے کارناموں کو بارگاہ ایزدی سے خلعت قبول وپذیرائی حاصل ہوا۔ آج مصر و شام کے علاوہ ہندوستان،افغانستان،ایران،ترکی،جاوہ،انڈوچائنا،افریقہ اور یورپ میں کون ایسا صاحب علم ہے جو علامہ طنطاوی کے نام سے واقف نہیں۔ اُن کی کتابوں کے ترجمے بلادِ روس میں ترکی زبان میں،جاوہ میں ملائی زبان میں اور ہندوستان میں اردو زبان میں کثرت سے شائع ہوئے اورگھر گھر پھیلے۔وہ جس طرح علم وفن میں یگانۂ روزگار تھے، شعروادب اورخطابت میں بھی اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے اُن کی تحریر میں بلا کازور تھا، جس موضوع پرلکھتے تھے اس قوت سے اُس کے ایک ایک پہلو پربحث کرتے تھے کہ بڑے سے بڑے مخالف کو بھی سرتسلیم خم کردینے کے سوا کوئی اورچارۂ کار باقی نہیں رہتا تھا۔اُن کا طرز استدلال نہایت سلجھا ہوااورعمیق ومنطقیانہ تھا۔
ایک جلیل المرتبت علامۂ روزگار ہونے کے علاوہ آں مرحوم اپنے عہد کے زبردست اسلامی مفکر بھی تھے۔مسلمانوں کاانحطاط اُن کے دل ودماغ کوہروقت بے چین رکھتا تھا اوروہ اپنی تحریروتقریر میں برابر مسلمانوں کواصلاح کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ انھوں نے مصر کے رسالہ’’الرسالہ‘‘بابت۲۹/نومبر۱۹۷۳ء میں ’’الحلقۃ المفقودہ‘‘کے زیر عنوان ایک زبردست اصلاحی مقالہ سپرد قلم کیا تھا جس میں اُنھوں نے تمام مسلم جماعتوں اوراُن کے افراد کے رجحانات و میلانات کا تجزیہ کرکے بتایا تھا کہ آج مسلمان بحیثیت ایک قوم کے کس طرح خطرناک طریقہ پرذہنی انتشار اوردماغی پراگندگی میں مبتلا ہوگئے ہیں اوراس سے نجات پانے کی تدابیر کیاہیں۔اصلاح کے سلسلہ میں علامہ مرحوم جس خاص نقطۂ خیال کے پابند تھے اُس کااندازہ آپ اس مضمون کے اقتباس ذیل سے کرسکتے ہیں، فرماتے ہیں: مثلاً رمضان کوہی لے لیجیے۔کیا اس وقت یہ ضروری نہیں کہ رویت ہلال کے مسئلہ پر ازسرنوغور کیاجائے۔کیا موجودہ جمود کے ماتحت یہ بات مسلمانوں کے لیے انتہائی شرمناک نہیں ہے کہ ایک اسلامی شہر میں رمضان کی پہلی تاریخ ہفتہ کوہوتی ہے اوردوسرے شہر میں اتوارکو، تیسرے شہر میں پیرکو۔ پھر اس اختلاف کا اثر مسلمانوں کے تمام اجتماعی کاموں پربھی پڑتاہے، کیا کسی کویہ امر محسوس نہیں ہوتاکہ یہ ہڑبونگ شریعت اسلام کی اصل روح کے بالکل منافی ہے،میں اس مشکل کے حل کے لیے کسی نئی بدعت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ وہی کہتا ہوں جوقدیم فقہاء اسلام نے کہاہے۔فقہاء حنفیہ کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اگر چاند کسی ایک خطہ میں بھی دیکھا جائے تو تمام مسلمانوں پرروزہ رکھنا واجب ہوجاتاہے۔تواب ہم اس قول سے فائدہ اُٹھا کر یہ کیوں نہ کریں کہ کسی ایک بڑے اسلامی شہر میں ایک رصدگاہ قائم کرلیں اوریہاں چاند دیکھنے کے بعد اس خبر کو تمام اسلامی شہروں میں بیک وقت شائع کردیاجائے اورسب کومجبور کیاجائے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ اگر ہم سائنس کی غیر معمولی ترقی کے دور میں اپنے اندر یک جہتی پیداکرنے کے لیے اتنا بھی نہ کرسکیں۔‘‘
اس اقتباس سے جہاں علامہ مرحوم کی اصابت رائے،بلند فکر اورروشن خیالی کااندازہ ہوتاہے۔ یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ وہ علوم وفنون میں کمال مہارت کے باوجود مذہبی معاملات میں طریق سلف سے منحرف ہوکر کسی اورنئی شاہراہ کی تلاش نہیں کرتے تھے، اوران کے نزدیک مسلمانوں کی فلاح ونجاح کاانحصار اتباع سنت وقرآن میں ہی تھا۔
ہمارے جن بزرگوں اوردوستوں کو اُن کی زیارت کاشرف حاصل ہواہے اُن سے معلوم ہواکہ یوں بھی حضرت مرحوم اپنی عملی زندگی میں نہایت متقی اور پرہیز گار تھے اورشریعت کے اوامرونواہی کا بڑا لحاظ واحترام کرتے تھے۔
آہ صد افسوس!دنیا ئے اسلام کایہ سب سے بڑامفکر وعالم چند ہفتہ بیماررہ کر گذشتہ ماہ فروری میں داعی اجل کولبیک کہہ کراُنہی صدیقین وشہداء سے جاملا جن کے نقش قدم پر وہ عمر بھر چلتا رہا اور جن کے اتباع میں اُس کاقلم اعلاء کلمۃ اﷲ میں برابر مصروف رہا۔
فاصبح فی لحدِِمن الارض میتاً
وکانت بحیاً تضیق الصحاصح
لئن حسنت فیک المراثی وذکرھا
لقد حسنت من قبل فیک المدائح
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ وامطرعلیہ شابیب الرافۃ والغفران۔
[مارچ ۱۹۴۰ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...