Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا معین الدین اجمیری

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا معین الدین اجمیری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338554

Access

Open/Free Access

Pages

31

مولانا معین الدین اجمیری
دوسرا حادثۂ وفات حضرت مولانا معین الدین اجمیری کاہے جو ۱۰ محرم الحرام ۱۳۵۹ھ کواجمیرمیں پیش آیا۔مولانا کی ذات ہندوستان کے علماء میں ایک نمایاں مقام رکھتی تھی وہ علم وعمل دونوں کے پیکر تھے۔منطق وفلسفہ میں ان کومولانا ابوالبرکات ٹونکی مرحوم سے تلمذ خاص حاصل تھا، لیکن عام علماء منطق وفلسفہ کے برخلاف وہ دینیات اورعلوم قرآن وحدیث میں بھی درخور وافر رکھتے تھے۔اجمیر میں کتاب وسنت کی روشنی جو کچھ نظر آتی ہے اُنہی کے دم سے قائم تھی۔پھر طرفہ یہ ہے کہ وہ صرف ارباب درس وتدریس اوراصحاب وعظ وارشاد میں سے ہی نہ تھے بلکہ اُن کاشمار اُن ابطال عزیمت وحریت میں تھا جواعلاء کلمۃ اﷲ کی خاطر کانٹوں سے بھری ہوئی راہ کو دیکھ کر دل میں ذراخوف وہراس محسوس نہیں کرتے، اور ’’دل خوش ہواہے راہ کوپُرخار دیکھ کر‘‘پڑھتے ہوئے اُسے اپنے لیے’’تختہ گل‘‘ جان کربے خوف وخطر عبورکرجاتے ہیں اور’’بخاک وخون غلطیدن‘‘کو’’عاشقان پاک طینت‘‘کاشیوۂ خوش یقین کرنے کے باعث دست قاتل کے لیے اُن کی زبان سے بکمال خندہ پیشانی احسنت ولبیک کانعرہ بیساختہ نکل جاتاہے ۔وہ جمعیتہ علماء ہند کے سرگرم کارکن تھے، اُنہوں نے اس مجلس کے سالانہ اجلاس امروہہ کی صدارت اُس پُرآشوب زمانہ میں کی جبکہ ہندوستان کشمکش حریت و آمریت کی طوفان خیزیوں کے باعث ایک نہایت ہی خطرناک دور سے گذر رہا تھا اورجبکہ ملک میں عام داروگیر نے سخت اضطراب وہیجان پیداکررکھا تھا وہ اپنے عزائم میں پہاڑ کی طرح مضبوط تھے۔جرم حریت کوشی کی پاداش میں جیل خانہ بھی گئے لیکن علالت کے باوجود ان سب تکلیفوں کوہنسی خوشی برداشت کرگئے اوران کی جبین استقلال وہمت مایوسی وخوف کی ایک شکن سے بھی آشنا نہیں ہوئی۔ مسلمانوں میں جوقحط الرجال پایا جاتاہے، اُس کے پیش نظر مولانا ایسے جامع کمالات اورپیکر علم وعمل کاسانحۂ مرگ یقینا بہت زیادہ محسوس ہوگا۔مولانا کاوطن اجمیر تھا، وہیں ایک مدرسہ معینیہ میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اخیر عمر تک انہوں نے اس گوشہ کوترک نہیں کیا اورانجام کاراپنے جسم کی امانت اُسی سرزمین کوسپردکردی جس کی آغوش میں کئی صدی سے اُنہی کے ہمنام وہم وطن مجاہد اسلام کاجسد مقدس آسودۂ سکون ہے۔اﷲ تعالیٰ اُن کو اپنی بیش ازبیش نعمتوں سے نوازے اور اپنے دامانِ رحمت میں قربِ خاص کا شرف عطا فرمائے۔ آمین [مارچ ۱۹۴۰ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...