Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338558

Access

Open/Free Access

Pages

32

آہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری!
پچھلے دونوں ہندوستان نے اس خبر وحشت اثر کو نہایت رنج واندوہ سے سُنا کہ مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد بہاری چندروز کی علالت کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت فرماگئے۔خبر چونکہ بالکل غیر متوقع طورپر ملی تھی اس لیے فرط حزن والم نے حیرت کی صورت اختیار کرلی۔ یعنی ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری بزم علم وعمل کاکوئی لعل شب چراغ گم ہوگیا ہے، لیکن اس احساس کے باوجود تحیر کی فراوانی ہم کو رخصت گریہ اورفرصت نوحہ بھی نہیں دیتی۔
مولانا ابوالمحاسن محامدِ اخلاق اورمحاسن فضائل کے جامع تھے۔فکر ونظر،علم و عمل، محنت ودیانت،تفقہ وتدبر،ایثار وجفاکشی،خلوص وﷲیت۔ان سب اوصاف کے بیک وقت جمع ہونے نے اُن کی ذات کوایسا گلدستۂ خوبی بنادیا تھا کہ وہ’’ای تو مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم‘‘کا مصداق بن گئے تھے اوراُن پر’’ابوالمحاسن‘‘کی کنیت واقعی طورپر صادق آتی تھی۔ہندوستان میں کوئی قومی اورمذہبی تحریک ایسی نہیں ہے جس میں مولانا نے پورے جوش وخروش کے ساتھ حصہ نہ لیا ہو اوراس میدان میں اپنے ساتھیوں سے پیش پیش نہ رہے ہوں۔سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اُن کادماغ نہایت دقیقہ رس اور معاملہ فہم تھا۔وہ موضوع فکر کے ایک ایک پہلو پربڑی سنجیدگی اورعالی ہمتی کے ساتھ غوروخوض کرتے تھے،اوراُس میں ایسی ایسی باریکیاں پید اکرتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے۔وہ عملاً بڑے جری اوربہادر تھے لیکن اُن کادماغ انتہائی جوش وخروش کے عالم میں بھی کبھی مغلوب نہیں ہوتاتھا۔جذبات کی گرمی کے ساتھ وہ ہر معاملہ پرٹھنڈے دل سے غور کرتے تھے۔حق یہ ہے کہ جماعت علما ہند میں وہ اپنی گوناگوں خصوصیات کے لحاظ سے گوہر یکتا تھے۔بقول کسی کے وہ ہرشخص کی قائم مقامی کرسکتے تھے لیکن اُن کی قائم مقامی کوئی نہیں کرسکتا۔فواحسر تاکہ ہماری انجمن کایہ گل سرسبدآج خزاں دیدۂ اجل ہوکرآغوش لحد میں آسودۂ سکون ہے۔
مولانا صوبہ بہار کے ضلع پٹنہ میں میں پھنسیا ایک موضع ہے وہاں پیدا ہوئے۔درسی تعلیم مولانا عبدالوہاب اورمولانا عبدالکافی الہٰ آبادی سے حاصل کی، پھر دارالعلوم دیوبند آکر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کے درس حدیث میں شریک ہوئے۔چونکہ جوہر قابل رکھتے تھے اس لیے حضرت شخ الہند کے درس اور ان کی صحبتوں نے مولانا کو فن حدیث میں درک کے ساتھ ساتھ ایک زبردست سیاسی مفکر اور انقلابی مجاہد بھی بنادیا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر آ پ نے’ گیا‘ میں ایک مدرسہ انوارالعلوم کے نام سے قائم کیا، جہاں آپ عرصہ تک درس دیتے اورطلبا میں علم وعمل کی روح پھونکتے رہے۔۱۹۱۴ء میں جنگ عظیم شروع ہوئی جس کا سیاسی اثر تمام عالم اسلام پرپڑنے والا تھا۔۱۹۱۵ء میں حضرت شیخ الہند اپنے چند خادموں سمیت مکہ معظمہ چلے گئے اوروہاں سے گرفتار کرکے مالٹا میں نظر بند کردیے گئے تومولانا ابوالمحاسن نے ہندوستان کے مختلف مقامات کادورہ کرکے علما وصوفیا اور تعلیم یافتہ لوگوں کواُن کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اوراُن کوتحریک آزادی میں شریک ہونے پر آمادہ کیا۔۱۹۱۷ء میں مدرسہ انوار العلوم کے سالانہ جلسہ کے موقع پرآپ نے جمعیتہ العلما بہار کی طرح ڈالی۔آپ کے اتباع میں دوسرے صوبوں کے علما نے بھی اس طرف توجہ کی اورصوبائی جمعیتہ العلما قائم کرکے اپنی تنظیمی جدوجہد کا آغاز کردیا۔۱۹۱۹ء میں آپ نے بہار میں امارت شرعیہ قائم کی۔ اس کے ماتحت ایک محکمۂ قضا اوردوسرے محکمے مثلاً محکمۂ تعلیم، شعبۂ تبلیغ اوربیت المال بھی قائم کیے گئے۔مولانا کی بڑی خواہش تھی کہ اسی طرز کی شرعی امارتیں دوسرے صوبوں میں قائم ہوجائیں اوراس طرح مسلمانوں کا ایک اسلامی نظام معاملات رواج پاجائے۔ لیکن افسوس ہے کہ حالات کی ناموافقت کے باعث اُن کی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں۔
۲۰۔۱۹۲۱ء کا زمانہ تحریک خلافت کے شباب کازمانہ تھا۔مولانا نے اس میں بھی بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا۔۱۹۲۵ء میں اُنہوں نے مراد آباد کے سالانہ جلسہ جمعیۃ العلماء ہند کی صدارت کی۔اس موقع پر آپ نے جو طویل اور پُراز معلومات خطبۂ صدارت پڑھا تھا وہ آپ کے تفقہ اورتدبر کا آئینہ دار ہے۔ مولانا میں بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی جماعت کی پارٹی پالیٹکس سے کبھی مرعوب نہ ہوئے تھے۔ اُن کے نزدیک جو بات حق ہوتی تھی اُس کو برملا کہتے تھے۔ وہ ہندوستان کی آئینی ترقی کے سلسلہ میں کانگریس کے پُرجوش حامی تھے مگر انہوں نے کبھی کانگریس کواُس کی غلطیوں پر متنبہ کرنے میں تساہل نہیں کیا۔وہ گاندھی جی کے عقیدۂ عدم تشدد کے بھی بہت بڑے نقاد تھے۔اسمبلی کاخلع ایکٹ جو کاظمی ایکٹ کے نام سے مشہور ہے، مولانا ہی کی کوشش سے بنا۔
اردوزبان کے متعلق بہاراسمبلی کا فیصلہ،قربانی گاؤ کے سلسلہ میں حکومت کا معقول طرزعمل،یہ سب آپ کی خدمات کانتیجہ تھا۔ایک دفعہ قربانی گاؤ کے متعلق ہندوؤں کے مطالبات کاجواب دیتے ہوئے ڈاکٹر رجندرپرشاد سے برملا آپ نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے:
’’سال بھر صرف ایک دفعہ گائے کی قربانی سے ڈاکٹر صاحب کاخون کھول جاتاہے لیکن ڈاکٹر صاحب کویاد رکھنا چاہیے کہ کہ ایک مسلمان جب بازاروں میں، دریاؤں کے کنارے اورآبادی میں گزرتا ہے توہرقدم پراُس کا خون کھولتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ اُس کے محبوب خدا کی تحقیر کی جارہی ہے، وہ دیکھتا ہے کہ کہیں پتھروں اورمورتیوں کوپوجا جارہاہے، کہیں دریا کی موجوں کی پوجاہورہی ہے اورکہیں درخت کے پتوں کے سامنے اشرف المخلوقات انسان جھک رہاہے لیکن مسلمان ان سب کواس لیے برداشت کرتاہے کہ اب تک وہ اس سلوک کاعادی ہے جوحکمراں ہونے کی حیثیت سے اُسے غیر مذاہب کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اگر ہندو مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلمان گائے کی قربانی ترک کرکے اُن کے جذبات کااحترام کریں تو اُنہیں غیراﷲ کی پرستش چھوڑ کرمسلمانوں کے جذبات کااحترام کرنا پڑے گا۔‘‘
آہ صد آہ!کہ مسلمانانِ ہند کی یہ متاع گرانمایہ اُن سے ۱۷/شوال ۱۳۵۹ھ بروز دوشنبہ ہمیشہ کے لیے چھین لی گئی۔اچھا مرنے والے رخصت!توجا اور اپنے ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں کی حسرت نصیب آرزؤں اورتمناؤں کو بھی لیتاجا!شاید ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کی موجودہ تباہ حالی تجھ سے برداشت نہ ہوسکی کہ تویہاں سے گھبرا کراب خدا کی بارگاہ میں اُن کی طرف سے فریاد کرنے جارہاہے، لیکن تونے ہم میں اسلامی حریت و آزادی اورعملی جدوجہد کی جوگرم روح پیدا کردی ہے وہ ہم کوتیرے بعد بھی شعلۂ سوزاں وتپاں کی طرح بے قرار رکھے گی اورہمارے کارواں طلب کاجب کبھی قدم منزل مقصود کی طرف بڑھے گا، تیرے نقش پاکی یاد سے خالی نہ ہوگا۔رب السماء والارض تجھے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ تویہاں ہمیشہ مسلمانوں کے غم میں پریشاں حال رہا۔خدا تجھے اپنے دامانِ رحمت میں ایک مقام جلیل وعظیم عنایت فرمائے کہ اس زندگی کو تونے اعلاء کلمۃ اﷲ اوراعلان حق کے لیے ہی وقف رکھا۔آمین۔
[دسمبر۱۹۴۰ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...