Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

سرشاہ محمد سلیمان
Authors

ARI Id

1676046603252_54338559

Access

Open/Free Access

Pages

33

سرشاہ محمد سلیمان
سخت افسوس ہے کہ ۱۳/مارچ کی شب میں بارہ بجے کے قریب ہندوستان کے آسمان علم وفضل کا ایک روشن ستارہ جسے لوگ سرشاہ محمدسلیمان کے نام سے جانتے تھے یکایک موت کے آغوش میں گر کر قیامت تک کے لیے غروب ہو گیا۔سرشاہ محمد سلیمان مرحوم اپنی ذہانت وطباعی اوراعلیٰ قانونی وعلمی قابلیت و لیاقت کے باعث جس طرح سرزمین ہند کے لیے مایۂ صد افتخارونازش تھے۔اسی طرح اپنے سچے اورپکے مذہبی معتقدات واعمال کی وجہ سے آج کل کے انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے باعث ہزار عبرت وموعظت بھی تھے۔ دل اور دماغ دونوں کی اچھائیاں بیک وقت بہت کم لوگوں میں جمع ہوتی ہیں۔مرحوم ان دونوں قسم کی خوبیوں کاایک ایسا مجموعۂ دل افروز تھے جس کی یاد برسوں تک ہندوستان کے ارباب علم وفضل کوخون کے آنسو رلائے گی۔
سرشاہ محمد سلیمان مرحوم ۳/فروری ۱۸۸۶ء کوجون پور کے ایک سید گھرانے میں پید ا ہوئے۔ابتدائی تعلیم یہیں پائی۔میٹرک پاس کرنے کے بعد الہٰ آباد کے میورسنٹرل کالج میں داخل کیے گئے۔۱۹۰۶ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا اور تمام صوبہ میں اوّل رہے۔اس امتیاز کی بناپر انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ سے وظیفہ ملااورآپ ہندوستان کوالوداع کہہ کرکیمبرج کے کرائسٹ چرچ کالج میں داخل ہوگئے۔۱۹۰۹ء میں ریاضیات کا اعلیٰ امتحان (Tripos) پاس کیا اور پھر ۱۹۱۰ء میں بیرسٹری شروع کی۔جس میں اُنہوں نے بہت جلد نمایاں کامیابی حاصل کرلی۔۱۹۲۰ء میں اُن کو الہٰ آباد ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں وہ عارضی چیف جج کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ۱۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کوانہیں مستقل چیف جسٹس کردیا گیا۔پھر جب فیڈرل کورٹ قائم کی گئی تو وہ اُس کے جج بنا کردہلی بھیج دیے گئے اوربالآخر ۱۳/مارچ کی شب میں یہیں جان جاں آفریں کے سپرد کرکے نظام الدین اولیاء میں ایک مقام پرجو وادیٔ ایمن کے نام سے مشہور ہے، دفن کیے گئے۔
مرحوم اس دنیوی اعزاز ومنصب کے علاوہ ریاضیات اورعلم الطبیعات کے بھی بڑے ماہر تھے۔شوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کوئی حالت ہو،بلاناغہ صبح چاربجے سے اُٹھ کر مطالعہ شروع کردیتے تھے۔آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت کے زبردست نقاد تھے جس کواُنہوں نے عرصۂ دراز کی تحقیق وجستجو کے بعد غلط ثابت کیا تھا اورجس سے یورپ کے علمی حلقوں میں سخت ہیجان پیدا ہوگیا تھا۔آخرکار ۱۹۳۶اور۱۹۳۷ء دوسال تک مسلسل سائبیریا میں تحقیق کرنے کے بعد پروفیسر میچلوف نے اعلان کیا کہ واقعی سرشاہ محمد سلیمان کانظریہ بالکل درست اورصحیح ہے۔ پروفیسر موصوف کایہ اعلان گویا ہندوستان اوربالخصوص ایک مسلمان دماغ اور ذہانت کی یورپ کے دماغ پرفتح کا اعلان تھا۔سرشاہ سلیمان مرحوم اس حیثیت سے ہندوستان سے زیادہ یورپ اورامریکہ کے علمی حلقوں میں روشناس تھے اوروہ لوگ انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان علمی ودماغی فضائل کے علاوہ آں مرحوم اخلاقی اورمذہبی معتقدات کے لحاظ سے بھی ایک بلند پایہ انسان تھے۔دومرتبہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اورباخبر لوگ جانتے ہیں کہ اُنہوں نے اس فرض کوکس عمدگی،احساس فرض کی پوری ذمہ داری اورمحنت ودیانت کے ساتھ انجام دیا۔اگرچہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کومعقول تنخواہ دی جاتی ہے، اس کے لیے ایک الگ شاندار کوٹھی ہے اورایک موٹر کار اوراُس کا معقول الاؤنس بھی دیاجاتاہے۔ لیکن مرحوم نے ان میں سے کبھی کسی چیز کواپنے لیے پسند نہیں کیااوراپنے عہدہ کی خدمات اپنے پاس سے خرچ کرکے ہی انجام دیتے رہے۔یہاں تک کہ علی گڑھ میں جتنے دنوں قیام کرتے کوٹھی کے بجائے ایک کمرہ میں قیام کرتے تھے اورکھانا بھی یونیورسٹی کے مطبخ کاکھاتے تھے۔اُن کی مذہبی پابندی اورآج کل کی ’’بدنام قدامت پسندی‘‘ کایہ عالم تھا کہ پردہ جس کانام لینا بھی آج کل کے روشن خیال متفرنجین خلافِ شائستگی سمجھتے ہیں، مرحوم اُس کے زبردست حامی تھے چنانچہ خوداپنے گھر میں اورعلی گڑھ یونیورسٹی میں وہ اس کو اپنے اثر واقتدار کے باعث پوری طرح قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔اس قدامت پسندی کی وجہ سے اُن پرطعن و طنز بھی کیا جاتا تھالیکن وہ اس کی ذرا بھی پروا نہ کرتے اورجوبات انہیں حق معلوم ہوتی تھی اُس پر بے خوف لومتہ لائم آخر تک شدت سے عامل رہتے تھے۔غالباً مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تاریخ میں یہ پہلاواقعہ ہے کہ مرحوم نے تعطیل کادن بجائے اتوار کے جمعہ مقرر کیا۔اوریونیورسٹی کورٹ کی میٹنگ میں یہ تجویز پاس کرائی کہ ہرجلسہ کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہو۔اس تجویز کے مطابق وہ خودآیۂ کریمہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے اوراس طرح جلسہ کا افتتاح کرتے تھے۔
عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ جولوگ انتہائی علمی ہوتے ہیں اُن کی عام گفتگو علمی انہماک و مصروفیت کے باعث شگفتہ نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس مرحوم کی یہ خصوصیت تھی کہ بین الاقوامی شہرت علمی اورفیڈرل کورٹ کے جج ہونے کے باوجود ہرکہ ومہ سے نہایت خندہ پیشانی اورانبساط خاطر کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ بولتے ذراتیز تھے۔فرطِ ذہانت سے آنکھیں چمکتی رہتی تھیں اورگفتگو کے وقت سیماب وش متحرک رہتے تھے۔
اُن کاگھر علماء وطلباء کے لیے ایک مسکن امن وراحت تھا۔بڑے بڑے لوگوں کے بجائے غریب مگراربابِ علم و ذوق سے ملنے میں خاص لطف محسوس کرتے اوراُن سے بے تکلف اور دیرینہ آشنا کی طرح گفتگو کرتے تھے۔انتقال سے چند ماہ پہلے آپ نے ندوۃ المصنفین کی تمام مطبوعات کوشرف مطالعہ بخشا اور ادارہ کے ناظم اوراڈیٹر برہان کومختلف مسائل پربات چیت کرنے کے لیے اپنی کوٹھی پر مدعو کیا۔کئی گھنٹہ تک مختلف علمی واسلامی مسائل پرگفتگو کرتے رہے۔ندوۃ المصنفین کے کام پر قلبی خوشنودی کااظہار فرمایا اورچند اہم عنوانوں کی طرف توجہ دلائی جن پر مستقل تصنیفات کی شدید ضرورت ہے۔ دوران گفتگو میں آں مرحوم نے اپنے کتب خانہ کے ذکر کے سلسلہ میں کتب خانہ کی چنداہم اورنادر کتابوں کابھی ذکر فرمایا جنہیں آپ نے بصرف زرکثیر فراہم کیا تھا۔
کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ عہد قحط الرجال میں سرشاہ محمد سلیمان کاوجود ہندوستان کے لیے عموماً اورمسلمانوں کے لیے خصوصاً ایک متاع گرانمایہ تھا جس کے اس طرح ضائع ہوجانے پرجتنا بھی ماتم کیاجائے وہ کم ہے۔ لیکن ماتم کرنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ مسلمان نوجوان علم میں،اخلاق میں اورمذہبی عقائدکی پختگی میں اُن کی زندگی سے سبق حاصل کریں جو اُن کے جسم خاکی کے پیوند زمین ہوجانے کے بعد آج بھی روشن وتابناک ہے اور زبان حال سے پکار پکار کرکہہ رہی ہے:
تلک اثار ناتدل علینا
3فانظر وابعد ناالیٰ الاثار
دعاہے کہ اُنہیں صدیقین وصلحاء کامقام جلیل عطاہو اورحق تعالیٰ اُن کو جوار رحمت میں بیش ازبیش انعام واکرام سے سرفراز فرمائے۔آمین ثم آمین۔
[اپریل ۱۹۴۱ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...