Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا اشرف علی تھانوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338565

Access

Open/Free Access

Pages

36

آہ! حکیم الامت
اِنَّکَ مَیِّت’‘ وَّاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنْ
یوں تو موت اس عالمِ آب وگل کی ہراس چیزکے لیے ہی مقدر ہے جو زندگی کاعاریتی لباس پہن کر بساطِ ہستی پرنمودار ہوئی ہے۔لیکن جس طرح زندگی زندگی میں فرق ہوتا ہے۔اسی طرح ہرایک کی موت بھی یکساں نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ایسی اموات بھی واقع ہوتی ہیں جوصرف افراد واشخاص کی اموات نہیں ہوتیں بلکہ ان ہزاروں لاکھوں انسانوں کی عمارتِ حیات بھی اس سے متزلزل ہو جاتی ہے جومرنے والے کے دامانِ عقیدت وارادت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ پھراس کی موت کاماتم آنکھوں کے چند قطرہ ہائے اشک سے نہیں ہوتا۔بلکہ ہزاروں دلوں کی پرسکون آبادیاں ایک مستقل غم کدۂ آمال دامانی بن کر رہ جاتی ہیں۔ امیدوں اور ولولوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں ۔نشاط وکامرانی ٔحیات کے آتش کدے سرد ہوجاتے ہیں اورایسا محسوس ہوتاہے کہ اس حادثہِ جان کاہ نے کائناتِ عالم کی ہرہر چیز کواداس اورغمگین بنادیا ہے۔اسی قسم کی ایک موت پرعربی شاعر نے کہاتھا۔
وماکان قیس’‘ ھلکہٗ ھلک واحد
ولکنَّہ بنیانُ قومٍ تَھَدَّمَا
قیس کامرنا صرف ایک شخص کامرنا نہیں ہے
بلکہ وہ ایک قوم کی بنیاد تھا جومنہدم ہوگئی
گذشتہ ماہِ جولائی کی تاریخ ۱۹؍ ۲۰؍کی درمیانی شب کو تقریباً دس بجے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کاجو سانحۂ ارتحال پیش آیاوہ اسی قسم کاسانحہ تھا۔حضرت مولانا جس طرح شریعت کے عالم متبحر تھے طریقت اور سلوک میں بھی مقامِ رفیع کے مالک تھے۔ان کی ذات علومِ ظاہری وباطنی کا مخزن تھی۔علمِ سفینہ سے زیادہ علم سینہ ان کااصلی جوہر اور زیور تھا۔تحریریں علم و فضل کامعدن ہوتی تھیں اور تقریر بھی بلاکی اثر انگیز تھی، وہ جس بات کوحق سمجھتے تھے اسے برملا کہتے اور کرتے تھے اوراس میں انھیں کسی لومۃ لائم کی پروا نہیں ہوتی تھی۔خودایک درویش گوشہ نشین تھے۔مگران کاآستانہ بڑے بڑے اربابِ ثروت ودولت اوراصحابِ علم وفضل کی عقیدت گاہ تھا، جوبات اورجوعمل تھااخلاص اور دیانت کے ساتھ تھا۔دنیوی وجاہت وشہرت اورمالی حرص وآز کاشاید دل کے آس پاس بھی کہیں گذرنہ ہوا تھا۔اپنے اصول اوراپنے عقیدہ وخیال پراس مضبوطی اورپختگی سے عمل پیرا ہوتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کواس سے منحرف نہیں کرسکتی تھی۔حضرتِ مرحوم کاآستانہ معرفت وروحانیت کاایک ایسا چشمۂ صافی تھاکہ ہزاروں تشنہ کام آتے اور سیراب ہوکرجاتے تھے، وہ جن کی زندگیاں معصیت کوشی اورعصیاں آلودگی میں بسر ہوئی تھیں یہاں سے پاک و صاف ہوکر اور گوہرِ مقصود سے دامانِ آرزو کوبھر کرواپس لوٹتے تھے۔ان کی زندگی اتباعِ سنت کاایک زندہ درس اوران کی گفتگو اسرار ورموزِ طریقت کادفترِ گرانمایہ تھی۔بعض مسائل میں علماء ہندکی ایک جماعت کو ان سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ لیکن تقویٰ وطہارت ،تفقہ فی الدین ،شرعی علوم میں مہارت وبصیرت،راست گفتاری اور مخلصانہ عمل کوشی،انابت الی اﷲ،بے لوث خدمتِ دین،بے غرضانہ تلقینِ رشدوہدایت ، حضرت مرحوم کے یہ وہ اوصاف عالیہ اورفضائل حمیدہ تھے جو ہر موافق ومخالفت کے نزدیک برابر مسلم رہے۔ بعض عوارض واسقام کی بناپر گوشہ نشین ہونے سے قبل اپنے مواعظ حسنہ اور اپنی کثیر تصانیف کے ذریعہ حضرت مرحوم نے اصلاحِ عقائد واعمال اور ابطال رسوم وبدعات کی جو عظیم الشان خدمت انجام دی ہے وہ غالباً تمام ہم عصروں میں ان کا واحد طغرائے امتیاز ہے۔ قوم نے ان کو’’ حکیم الامت‘‘ کاخطاب دیاتھا اور بالکل بجا دیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرحوم نے اپنی تحریروں اورتقریروں سے ہزاروں انسانوں کے روحانی امراض کاایسا کامیاب علاج کیاکہ جو خزف ریزے تھے وہ گوہر آبدار بن گئے اور جو صرف پیتل تھے وہ زرِخالص ہوگئے۔
چھوٹے بڑے رسالے اور مستقل تصانیف جو مولانا کے قلم سے شائع ہوئیں ان سب کی مجموعی تعداد تازہ ترین شمارکے مطابق آٹھ سوسے اوپر بیان کی جاتی ہے، جن میں سے کثیر تصنیفات ملک میں اتنی مقبول ہوئیں کہ اب تک ان کے درجنوں اڈیشن طبع ہوچکے ہیں۔ کہاجاتا ہے اورغالباً اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا کی تصنیفات جواب تک طبع ہوچکی ہیں ان کی مجموعی قیمت چالیس لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہے۔ مولانا کی سیرچشمی اورفیاضی ، خلوص اور ﷲیت کی دلیل اس سے بڑھ کر اورکیا ہوسکتی ہے کہ تصنیفات کی اس غیر معمولی مقبولیت کے باوصف آپ نے کبھی کسی کتاب کاحق اشاعت وطبع اپنے لیے محفوظ نہیں رکھا۔ ہرشخص کو ان کے چھاپنے اور طبع کرانے کااذن عام تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس مادی دنیا میں مولانا کاصرف یہ ایک عمل ہی ایسا ہے جوآج کل کے بڑے بڑے نامور علماء کے لیے سرمایۂ عبرت اوردرسِ موعظت ہوسکتاہے، پھریہ تصانیف کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہیں، علماء اور فضلاء ،اربابِ شریعت اوراصحابِ طریقت ،مرد اور عورتیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معمولی اردو خواں ہرایک ان سے استفادہ کرسکتا اور اپنے لیے اصلاح ظاہروباطن کاسامان بنا سکتا ہے۔مولانا کی تحریروں میں اسرار و نکات کے علاوہ ایسا عجیب وغریب منطقی اورعقلی استدلال ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا حریف بھی تصدیق وتائید سے کوئی مفر نہیں دیکھتا۔ جس بات کوبیان کرتے ہیں نہایت وثوق اوریقین کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔حضرت مرحوم کی تحریریں اور ان کی گفتگو ئیں غیرمعمولی ذکاوت وفطانت کی آئینہ دار ہوتی تھیں، بات سے بات پیدا کرنا اور ہرمعاملہ کی اصل حقیقت کو پہچاننا ان کی ذہانت کاخاص جوہر تھا۔
خواص کے لیے تفسیر ’بیان القرآن‘ اور’شرح مثنوی مولانا روم‘ اورعورتوں کے لیے ’بہشتی زیور‘ آپ کی ایسی گراں بہا اورکثیر الشیوع تصنیفات ہیں کہ جواپنی مخصوص نوعیت کے اعتبارسے اردو کے مذہبی لٹریچر میں اپنا جواب نہیں رکھتیں اور موخر الذکر کتاب تواس قدر مقبول ہوئی ہے کہ ہندوستان کاشاید ہی کوئی اردو خواندہ ہوگا جس نے کم ازکم اس کانام نہ سنا ہو۔
مولانا کی ولادت باسعادت ۵؍ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ کوہوئی تھی اس حساب سے آپ کی عمر تقریباً ۸۳ سال ہوتی ہے۔ آپ کی مفصل سوانح عمری ’اشرف السوانح‘ کے نام سے دو ضخیم جلدوں میں آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی۔ جس کی تصنیف کاشرف اردو زبان کے مشہور شاعر اور فاضل خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب اورمولوی عبدالحق صاحب کوحاصل ہے۔اب اگرچہ حضرت مولانا کی وفات ہوچکی ہے لیکن وہ اپنی تصنیفات اوراپنے عملی کارناموں کے باعث آج بھی زندہ ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جوآپ کے بعد ان زندہ جاوید یادگاروں سے روشنی حاصل کریں اوران کی رہنمائی میں اسلام کے صراطِ مستقیم پرچلیں۔
حق تعالیٰ اعلیٰ علیین میں مولانا کے مدارج ومراتب بیش از بیش بڑھائے کہ وہ عمر بھر لوگوں کواسی کی راہ کی طرف بلاتے رہے۔اورقیامت میں ان کاحشر صدیقین وابرار کے ساتھ کرے کہ انھوں نے اپنی زندگی ہمیشہ ایک مومن قانت و صدیق کی ہی طرح بسرکی۔رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً۔ [اگست ۱۹۴۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...