Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

نواب عالی مرحوم
Authors

ARI Id

1676046603252_54338566

Access

Open/Free Access

Pages

38

نواب عالی مرحوم
صاحبزادہ مرزا حاجی ضمیر الدین صاحب عالی مرحوم نواب علاء الدین خاں صاحب علائی کے چوتھے اورسب سے چھوٹے لڑکے تھے۔مرحوم میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جواگلے بزرگوں میں ہوتی تھیں۔ وہ خاندان کے ایک ایسے فرد تھے جن کی موت نے خاندان پریہ واضح کردیا کہ اب اس کمی کوپورا کرنا بالکل ناممکن ہے۔
میرے رشتے کے ماموں تھے لیکن ان کی بزرگانہ شفقت ایسی تھی کہ حقیقی ماموؤں سے بڑھ کر تھی۔عربی فارسی کے متبحر عالم تھے نہ صرف عالم تھے بلکہ عالم باعمل۔ ان کے دل میں خدا کی تمام مخلوق کے دکھ سکھ کاپورا پورا خیال تھا۔ان کی موت سے بہت سی لاوارث عورتیں شکستہ دل ہوئیں اور بیکس یتیم بے سہارا رہ گئے۔ مرحوم کے حالات ذیل ان کے بھتیجے صاحبزادہ شمس الدین احمدخاں صاحب دیوان ریاست لوہارونے لکھ کر بھیجے ہیں جس کے لیے میں موصوف کی شکرگزار ہوں۔
آپ ۱۶؍دسمبر ۱۸۶۷ء کودہلی میں پیدا ہوئے۔ فخرالدولہ نواب علاء الدین احمدخاں بہادر فرمانروائے لوہارو کے پانچویں فرزند اورسب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپ کے باپ نے پیدائش کے وقت اپنی بیاض میں یہ درج فرمالیا تھا: ’’ تولدپسرِکامگار ہوشیار مرزا ضمیر الدین احمدخاں طال عمرہ درساعتِ سُنبلہ از بطنِ شمس النسا بیگم۔
مرزا غالب کے تعلقِ خاص کی تقریب سے نواب علاء الدین احمدخاں علائی کو دنیا جانتی ہے۔ شمس النساء بیگم دخترِ نواب جلال الدین خاں نبیرۂ امیرالامراء نواب نجیب الدولہ رئیس نجیب آباد ہیں۔ مرزا ضمیرالدین احمدخاں کی تعلیم وتربیت زیرِ نگرانی والد بزرگوار ہوئی۔بعض استاد ایرانی تھے۔ مثلاً مرزا ابو طالب شیرازی ابن سید ہاشم نجفی۔ نوعمری میں گھوڑے کی سواری کاشوق ہوا۔ لوہارومیں جرنیل صاحب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ گھوڑوں کی شناخت میں کمال رکھتے تھے۔اسلحہ کی شناخت میں خاص مہارت تھی۔خود گولی، بارود اور بندوق کی ٹوپیاں بنالیتے تھے۔ ریاست لوہارومیں ایک باغی راجپوت نے جب بغاوت کاعلم بلند کیاتوآپ بھی مقابلہ کے لیے تیار ہوئے۔ یہ واقعہ غالباً ۱۸۹۷ء کاہے۔
آپ کی شادی دہلی میں قاسم خانیوں میں اپنے ہی قریبی عزیزوں میں مرزا محمدحسن خاں عرف خضر مرزا صاحب کی دخترِ اول سے ہوئی تھی۔ مگرکوئی اولاد نہ ہوئی۔اپنی عمر کا زیادہ حصہ خدا ئے تعالیٰ کی عبادت ،نماز اورروزہ میں اورمطالعہ کتبِ دینیات میں گزارا۔ سالہاسال سے لوگوں کومفت درس مذہبِ اسلامی دیتے تھے۔لوہارومیں آپ کی یادگار سے ایک مسجد اورمدرسہ اسلامیہ ضمیریہ موجود ہے۔ مسجد کی امداد آپ کی سعی سے مستقل مقرر ہے۔آپ بڑے پایہ کے عالم باعمل اورمحدثِ بے بدل تھے۔دانش مندی میں مشہور اور ہرکہ ومہ کی خدمت بلاعوض کرنے میں نامور ۔
شعروسخن سے بھی دلچسپی تھی مگرحسبِ فرمائش اشعار فارسی واردو کہاکرتے تھے۔ آپ کی بیاض بھی موجود ہے۔ایک قصیدہ فارسی اکسٹھ (۶۱ )شعر کابمقابلہ فیضی بمدح اکبر بادشاہ بھی لکھاتھا۔ فیضی کایہ مصرع ہے:’’سحر نوید رساں قاصد سلیمانی‘‘۔
اس پرحاجی صاحب مرزا ضمیرالدین احمدصاحب المتخلص بہ عالی فرماتے ہیں:
شبی وکلبۂ تار و بخاک پیشانی
کہ روح قدس دہددرس بے دبستانی
اگربہ تکیہ گہ ناز بابتِ طناز
کسے بہ شوخیٔ وشنگی وبوس افشانی
منم کہ شاہدِ توحید ہست درپشیم
ببرگرفتہ ام اینک کلامِ یزدانی
امام ساز کلامے بمنزل افلاک
 سیس حدیث پیمبر کہ ہست برہانی
ز حاملان احادیث ز تراجم شاں
 بیب گاہ عمل گرچہ ہست نقصانی
بیابیا کہ نشانت دہم طریقِ صواب
سعاد نست قریں ارنہ روئی گردانی
رسوں رست اطاعت خدائی ر اطاعت
اگرتو اہلِ حدیثی واہلِ قرآنی
اس کے علاوہ مدح قرآن حکیم میں فارسی کے بہت سے اشعار ابدارہیں، جن کانمونہ یہ ہے:
دوش کز فیض قلم طبع سخنداں آمد
نکتۂ سفتہ باندیشہ فراواں آمد
از کدورات جہاں طبع اگر مظلم بود
عقل دراک وقائق مہ تاباں آمد
گاہ بر فلسفہ ومنطق ومعقول ونجوم
خوض کردی کہ چنیں آمدویوناں آمد
گاہ از فن طبعی و ز علم ابداں
حکم کردی کہ چنیں سود ز نقصاں آمد
sعلاوہ ازیں ایک غزل فارسی علی حزیںؔ کی غزل پربھی کہی تھی:
ہلہ من کشتۂ یارم تنہ ناہا یا ہو
?درغمش زارو نزارم تنہ ناہا یا ہو
Aغمِ دنیا نخورم زادبہ عقبی نہ برم
Cمست ودیوانہ وخوارم تنہ ناہا یا ہو
=سوخت کانون ضمیر م زتبِ ہجرچناں
=ہرنفس عین شرارم تنہ ناہا یا ہو
5کارصیاد اجل ہست مگریک روزے
=من بہروزِ شکارم تنہ ناہا یا ہو
Gآں ضمیر م کہ پس ازمرگ زافراطِ نشاط
Aآید آوازِ مزارم تنہ ناہا یا ہو
oریاست لوہارو کے قوال ان کی غزلیں آج تک گاتے ہیں۔مثلاً
ساقیا ماہ و شا ساغر صہبا آور
=عید فطر است مئی لعل ثمیناآور
انھوں نے جوکچھ سیکھا اپنے باپ سے سیکھا خود اس کااقرار کرتے ہیں:
عالی از فیضِ علائی نامور شد درجہاں
Kنکتہ سنج ونکتہ داں ازبہر آں نامیدمش
¡ڈاکٹراقبال نے ایک مرتبہ دیوبند کے مولانا حسین احمدصاحب پر طنز کرتے ہوئے لکھاتھا:
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
Gزدیوبندحسین احمدایں چہ بوالعجبی است
نواب ضمیرالدین صاحب عالی کواقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکر اسلام کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور انہوں نے جواب میں یہ اشعار لکھے:
رسول گفت کہ آرند از ثریا دیں
Gرجال فرس وعجم قول توچہ بوالعجبی است
9خلافِ قول رسولِ کریم قول کَے
Gسخافت است شقاوت کہ راہِ بی ادبی است
?ز دیوبند و ز کشمیر ہرچہ گوئی گو
Gشمول جملہ عجم یاوہ است بے سببی است
=توشاعری وندانی رموزِ دینِ متیں
Oبہ پارسی است ترا بہرہ آں زباں عربی است
;ببیں بعلم بخارا و علم نیشاپور
Eازاں بگیر نگیری اگرچہ بُو لہبی است
آخرزمانہ میں مرزا صاحب ایسے محتاط ہوگئے تھے کہ اپنے قلم سے کچھ نہیں لکھتے تھے۔ ان کی زندگی ساہ تھی۔مگرازل سے نفیس طبع لائے تھے۔اول درجہ کے قانع اورصابر تھے،ان کی وضع داری میں کبھی فرق نہ آیا۔آپ عقیدہ اورعمل کے اعتبار سے مومن قانت تھے۔توحید اورسنتِ رسول کی پابندی اوراشاعت کاخیال رہتا تھا۔اولیاء اﷲ کے منکر نہ تھے۔ان کااعتقاد تھاکہ وہ اﷲ کے فرمانبردار بندے ہوتے ہیں۔ان کوالوہیت کی شان میں کوئی حصہ نہیں۔ مستند احادیث کی پیروی کرتے تھے۔ عقائد میں فرقۂ قادریہ سے تھے۔ ؁ء میں حج بیت اﷲ سے سبکدوش ہوئے۔ بیگم صاحبہ بھی حج میں ہمراہ تھیں۔ کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہ کی منقبت میں ایک کتاب طبع کرانے کاخیال تھا۔ جس کامسودہ موجود ہے۔حوالہ جات احادیث نبوی سے دیے ہیں۔حاجی صاحب موصوف فتوی بھی دیتے تھے۔زیادہ تر رجحان امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایات پرتھا۔ صاحبزادہ موصوف کوریاست لوہاروسے خاندانی وظیفہ ملتاتھا۔ خاندان لوہارو کے یہ چراغِ روشن وہدایت تھے۔جو چراغ اب گل ہوگیا ۔
یہ لکھ کر مرے دل میں آیاکہ کہدوں
1چچاجان تھے بات کے قدرداں
;وہ عقلِ مجسم تھے دانشوری میں
9وہ تھے فخر اسلاف وہم خانداں
a (شمسؔ)
صاحبزادہ صاحب موصوف کچھ عرصہ بیمار رہ کر ۲۵؍مارچ ۱۹۴۳ء کو بمقام دہلی فوت ہوئے آپ کے پاؤں میں درد پیداہوگیاتھا۔جس کاآپریشن ہوا۔مگرکامیابی نصیب نہ ہوئی۔موت کاایک دن مقرر ہے۔حافظ شیراز نے کیاخوب کہاہے ع ’’کہ در مقامِ رضا باش واز قضا مگریز۔‘‘
سیدہاشمی فرید آبادی صاحبزادہ موصوف کے حقیقی بھانجے نے کیا عمدہ تاریخ رحلت کہی ہے :
از تخمۂ علائی و از دودۂ امیں
Aآں زبدۂ نیاگاں وآں نخبۂ پسیں
Aآں زین بزمِ دانش ومسند نشین فضل
;آموز گار فقہ و امامِ محدّثین
=دربرد ثار زہد و بہ سرتاجِ اتقا
?دل از غرض تھی وبہ طاعت فرو جبیں
9آخوند عہد و واقدی و روزگار
3علامی زمانہ و خاقانی زمین
?آسود زیرِخاک و سرِ لوحِ ہاشمیؔ
سالِ وفات یافت مرزا ضمیر دین[۱۳۶۳ھ]
[ حمیدہ سلطانہ ، نومبر ۱۹۴۳ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...