Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا عبیدﷲ سندھی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338570

Access

Open/Free Access

Pages

41

مولاناعبیداﷲ سندھی
واحسرتا! ابھی برہان کے صفحات پرمولانا محمدالیاس صاحب کاندہلوی کے ماتم میں ہمارے قلم کے آنسو خشک بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ ۲۴؍ اگست کی صبح کو اخبارات سے معلوم ہواکہ ہماری بزم علم وعمل کاایک اور صدر نشین ہماری محفل سے رخصت ہوگیا۔یعنی مولانا عبیداﷲ سندھی نے چند روز کی علالت کے بعد پنجاب کے ایک مقام دینپور ریاست بھاولپور میں ۲۳؍اگست کووفات پائی۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔
مولانامرحوم ۱۰؍مارچ ۱۸۷۳ء کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں ایک سکھ گھرانہ میں پیدا ہوئے۔سولہ سال کی عمر میں خوداپنے غوروخوض اورتحقیق وتلاش کے بعد اسلام قبول کیا۔ پچیس سال کی عمر میں علمِ دین کی طلب کاشوق انھیں کشاں کشاں دیوبند لے آیا۔ جہاں آپ نے چھ سات سال قیام کرکے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور اس سے فارغ ہوکر سندھ چلے گئے۔یہاں کئی سال تک درس وتدریس میں مصروف رہے۔ایک مدت کے بعد حضرت شیخ الہندؒ نے آپ کو پھر دیوبند بلا بھیجا۔جہاں وہ اپنے شفیق استاذ کی نگرانی میں مختلف اہم اور ضروری کام انجام دیتے رہے۔اس سلسلہ میں آپ حضرت الاستاذ کے حکم سے ۱۹۱۵ء میں کابل گئے اوریہاں افغانستان کے انقلاب میں براہِ راست حصہ لیا۔ سات سال تک اس ملک میں قیام فرمانے کے بعد ۱۹۲۲ء میں آپ ماسکو آئے جہاں انقلاب کے ہاتھوں ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی تھی۔زارکاروس ختم ہوچکا تھا اور لینن کے فیض دم سے سوویٹ روس کے خاکی پتلے میں جان پڑرہی تھی۔ مولانا مرحوم نے ان تمام حالات کاجائزہ بڑے غوروخوض سے لیا اور پھرایک سال قیام کرنے کے بعد آپ ٹرکی تشریف لے گئے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ یہاں خلافت کے نسخ کااعلان ہوچکاتھا۔اسلامی قوانین کے بجائے سوئٹزرلینڈ کاقانون نافذ کیا جا رہا تھا۔ شیخِ اسلام کوترکی سے رخصت کردیاگیا تھا۔ عربی رسم الخط کی جگہ لاطینی رسم الخط کو رائج کیاجارہاتھا ۔غرض ہر پرانا نقش ایک ایک کرکے مٹایا جارہاتھا اور نوجوان ٹرکی کے نقشہ میں نئے نئے رنگ ابھررہے تھے۔مولانا نے تین ساڑھے تین سال تک یہاں مقیم رہ کر ان تمام عوامل و محرکات کابغور مطالعہ کیا جو ٹرکی میں اس عظیم الشان انقلاب کاسبب تھے۔اورہماراخیال ہے کہ مولانا کے دماغ پراس مطالعہ کااثر اخیر تک بہت گہرارہا۔
ساڑھے تین سال کے قیام کے بعد آپ ٹرکی سے حجاز آئے۔جہاں آپ نے بارہ تیرہ سال قیام کیا۔لیکن اس مدت میں سیاسیات سے بالکل کنارہ کش ہو کر ہمہ تن درس وتدریس اورمطالعہ وتحقیق میں مصروف رہے۔یہاں اسلام کے مرکز میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر مولانا نے اپنے مطالعۂ تحقیق وتفتیش اور طویل تجربات ومشاہدات کی روشنی میں خاص ہندوستانی مسلمانوں کے استخلاص کے لیے ایک منظم لائحہ عمل مرتب کیا اورآخرکار حکومتِ ہند کے شرائط کوقبول کرکے آپ ۱۹۳۹ء میں ہندوستان تشریف لے آئے۔
دنیا میں بڑی شخصیتیں ہمیشہ دوطرح کی ہوتی ہیں۔بعض تووہ ہوتے ہیں جو صرف دل کی اچھائیوں کے مالک ہوتے ہیں اور بعضوں میں دماغ کی خوبیاں توسب جمع ہوتی ہیں لیکن دل کی خوبیوں سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملاہوتا۔ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو بیک وقت دل اوردماغ دونوں کے قویٰ اور ملکات کے لحاظ سے ایک عظیم شخصیت کے مالک ہوں۔مولانا عبیداﷲ سندھی رحمۃ اﷲ علیہ اسی تیسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک طرف وہ علوم دینیہ واسلامیہ کے بڑے عالم اور سیاسیات کے بلند پایہ مفکر تھے۔حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیزؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہم اﷲ کی کتابوں پرعبور تام حاصل تھا۔اندازفکر تقلیدی کے بجائے سراسر اجتہادی تھا۔اوردوسری جانب وہ اﷲ کے راستہ کے ایک ایسے سپاہی تھے جس نے زندگی کالمحہ لمحہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کررکھا تھا ۔ایک جذبہ تھاجوہر آن انھیں بے چین رکھتا تھا۔ایک تڑپ تھی جوان میں ۷۰ سے زیادہ کی عمر میں بھی بچوں کی طرح ہروقت رواں اورمتحرک رہتی تھی۔ عمدہ کھانا پینا، خواب وراحت ،شہرت و وجاہت ، عشرت وآسائش ،یہ تمام چیزیں ایسی تھیں کہ مولانا کے حاشیۂ تصور میں بھی ان کاکہیں دھندلاسانقش نہیں ہوگا۔وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنا ایک مخصوص پیغام رکھتے تھے جوان کے عمر بھرکے غور وفکر اورعمیق مشاہدات وتجربات کا حاصل تھا …… مولانا ہمارے قافلہ کے ایک ایسے میرِ کارواں تھے جو بڑھاپے میں نوجوانوں سے زیادہ جوش وخروش، چستی اورسرگرمی رکھتا تھااور منزل مقصود کی طرف جس کے شوق جادہ پیمائی کی شدت کایہ عالم تھاکہ وہ راستہ کے نشیب وفراز کی ذرا پروا نہ کرتا اور جس راہ کوحق سمجھتا اس پراس تیز گامی سے چلتا تھاکہ قافلہ کے اچھے اچھے باہمت لوگوں کاشوق پیروی بھی ان کے عذر آبلہ پائی سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی تمام تر جہد و مشقت، ریاضت و محنت اورمجاہدانہ سعی و کوشش میں بسر ہوئی لیکن اس کے باوجود اس کے نقشِ قدم پرچلنے والوں کی تعداد ہمیشہ محدود رہی۔بہرحال حضرت شیخ الہندؒ کے فیضِ صحبت نے مولانا کے دل میں یقین کامل کی جو شمع روشن کردی تھی وہ آخر دم واپسیں تک پوری آب وتاب کے ساتھ منور رہی۔
اچھا !اے جانے والے جا!تجھ پہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی طرف سے ہزار در ہزار سلام ورحمت، تونے اپناسب کچھ قربان کرکے عمر بھراسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی۔اب یوم الدین کامالک تجھ کواپنی بیش از بیش رحمتوں سے نوازے اور اپنے دامان مغفرت میں چھپالے ۔آمین۔
[ستمبر ۱۹۴۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...