Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سید اصغر حسین
Authors

ARI Id

1676046603252_54338571

Access

Open/Free Access

Pages

42

مولانا سیداصغر حسین
صد حیف کہ آسمانِ علم و عمل اور فلکِ شریعت وطریقت کاایک اورکوکبِ درخشندہ ٹوٹ گیا یعنی حضرت مولانا سیداصغر حسین صاحبؒ المعروف بہ میاں صاحب نے ۸؍ جنوری۴۵ء کوبمقام راندیر ضلع سورت انتقال فرمایا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت میاں صاحب ؒ ان بزرگوں میں سے تھے جن کو بے تامل مادر زاد ولی کہا جاسکتا ہے۔ علوم ظاہر وباطن دونوں کے جامع تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی، آپ کاشمار حضرت شیخ الہند ؒکے ارشد تلامذہ میں تھا۔دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مختلف مقامات میں بسلسلۂ تعلیم وتدریس مقیم رہے۔ان مقامات میں جونپور کواس لحاظ سے خاص امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مرحوم کاقیام وہاں قدرے ممتدرہا اور وہاں کے مسلمانوں نے آپ کے وجود سے بہت کچھ فیضِ ظاہری و باطنی حاصل کیا۔
اب سالہاسال سے دارالعلوم دیوبند میں حدیث کے استاذ اعلیٰ تھے۔تفسیر کی بھی بعض اونچی کتابیں (تفسیر ابن کثیر وغیرہ) آپ کے درس میں رہتی تھیں، حدیث کی مشکل ترین کتاب سننِ ابوداؤد ہمیشہ آپ ہی کے یہاں رہتی تھی اورحق یہ ہے اس اہم کتاب کی عقدہ کشائی آپ جس فنی حذاقت سے فرمایا کرتے تھے وہ آپ ہی کاحصہ تھا۔حدیث کے علاوہ فقہ میں خصوصاًاوردوسرے علوم دینیہ و الٰہیہ میں استعداد پختہ اورنظر وسیع رکھتے تھے۔ درس میں بولتے کم تھے مگر جوبات فرماتے تھے نہایت جچی تلی اورٹھوس ہوتی تھی۔حضرت الاستاذ علامہ سیدمحمد انورشاہ صاحبؒ اپنے حلقۂ درس میں آپ کی ذہانت وفطانت کی داد دیا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے میاں صاحب’’فقیہ النفس ‘‘ہیں ۔علاوہ بریں آپ اردو زبان میں تصنیف وتالیف کاشگفتہ اور سلجھا ہوامذاق بھی رکھتے تھے۔’القاسم‘ اور’الرشید‘ کے دورِ قدیم میں دونوں میں علمی ودینی مباحث پرمضامین لکھتے تھے۔ان کے علاوہ چھوٹی بڑی متعدد کتابیں اور مستقل رسالے بھی تصنیف کیے ہیں جو چھپ کرملک میں شائع اور مقبول ہوچکے ہیں۔
لیکن ان سب چیزوں کوحضرتِ مرحوم کے اوصاف وکمالات میں دوسرے نمبر پررکھنا چاہیے۔ آپ کا اصل جوہر ِکمال اورحقیقی طغرائے امتیاز وہ عالمِ جذب و سلوک اورکیفیتِ استغراق و محویت ہے جوہرآن اور ہر لمحہ آپ پرطاری رہتی تھی، آپ کی ہرہر ادااور ایک ایک حرکت وسکون ،اس بات کی صاف شہادت دیتے تھے کہ روئے خطاب وسخن اہلِ دنیا کی طرف ہے لیکن جہاں تک دل اورروح کا تعلق ہے وہ جمالِ حدیث کی بارگاہ میں سجدۂ عبودیت بجالانے سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل ومتساہل نہیں ہے۔بات بات میں سرچشمۂ طریقت ومعرفت ابلتا ہوانظر آتاتھا، آنکھیں ہردم نورِحقیقت کی فیض گستری پیہم سے مخمور وسرشار اورچہرہ ہر گھڑی جمالِ ربوبیت کی جلوہ پاشیوں سے بشاش وشاداب نظرآتا تھاجوایک مرتبہ حضرتِ مرحوم کودیکھ لیتا بے ساختہ خداکویاد کر بیٹھتا تھا۔حضرتِ مرحوم کاذکر و فکر، خیال وتصور جوکچھ تھااس کامرکز ومحور ایک اورصرف ایک تھایعنی لاالہ الا اﷲ محمد رسولُ اﷲ۔
پھرجتنے بڑے عالم، صاحبِ باطن اورولی کامل تھے فیض بھی اسی کے مطابق تھا۔ ان کاآستانہ مرجعِ انام تھا، خاص و عام طرح طرح کی حاجتیں اور مرادیں لے کے آتے تھے اور جھولیاں بھربھر کے جاتے تھے۔امیر وغریب شاہ و گدا نیک وبد،سب حضرت کی نظرمیں یکساں مرتبہ ومقام رکھتے تھے ۔درِ فیض و عطا وا تھاتوسب کے لیے اوراگر مخصوص اوقات میں وہ بندہوتا توسب کے لیے ہوتا۔تمام ہندوستان اور ہندوستان سے باہر افریقہ ،برما اور جزائر شرق الہند وغیرہ میں بھی کثرت سے معتقدین ومریدین تھے۔
ہم لوگوں سے انتہائی ذاتی تعلق رکھنے کے علاوہ ندوۃ المصنفین اوربرہان سے بڑی دلچسپی لیتے تھے، رسالے کاایک ایک مضمون پڑھتے تھے ،علی الخصوص برادر عزیز مولاناسعید احمدکی تحریروں اوران کے اندازِ نگارش کے بڑے مداح اور قدر دان تھے ۔برہان کاچندہ جب ارسال فرماتے توساتھ ہی یہ بھی لکھتے کہ یہ برہان کاچندہ نہیں ہے بلکہ عزیزی مولوی سعیداحمد سلمہ کے مضامین کی رونمائی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سال سے معدہ وجگر کے شدید امراض میں مبتلا تھے ۔شمع بجھنے کے قریب ہوتی ہے تو اس کی لَو زیادہ تیز ہوجاتی ہے ۔اسی طرح بزمِ عرفان و سلوک کایہ چراغِ روشن گُل ہونے کے نزدیک آگیا تواس کے روحانی وباطنی فیوض وبرکات کے انوار بھی زیادہ روشن اور تیز ہوگئے۔ایسی شدید علالت میں مریدین ومعتقدین کے اصرار پر دور دراز کے سفر کرتے تھے اوراگرچہ مرض میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا تھا،اس کے باوجود چہرہ پر ہرآن اطمینان وبشاشت کے ہی آثار پائے جاتے تھے۔اسی عالم میں راندیر تشریف لے گئے اور آخر وہیں بحالت غربت و مسافرت اس عالمِ فانی کو الوداع کہہ کر رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے۔ تغمدہٗ اﷲ بغفرانہ وامطر علیہ شآبیب رحمۃ الواسعۃ ۔ اٰ مین۔
ہم آئندہ کسی قریبی اشاعت میں حضرتِ مرحوم کے حالات وسوانح پرایک مستقل مقالہ شائع کریں گے۔ [فروری ۱۹۴۵ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...