Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > پروفیسر حافظ محمود خاں شیرانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پروفیسر حافظ محمود خاں شیرانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338574

Access

Open/Free Access

Pages

44

پروفیسر حافظ محمود خاں شیرانی
دوسرا حادثۂ وفات پروفیسر حافظ محمود خاں شیرانی کاہے جوفروری کی آخری تاریخوں میں پیش آیا۔ مرحوم فارسی اور اردو دونوں زبانوں کی شعروشاعری اور تاریخ ادب کے نامور محقق اور فاضل تھے۔ذکاوت وفطانت کے ساتھ قوتِ حافظہ غیر معمولی تھی۔قرآن مجید کے حافظ تھے ہی۔فردوسی کاشاہنامہ بھی انھیں ازبر یادتھا۔یورپ میں ایک مدت تک رہ چکے تھے اور وہاں کے نامور مستشرقین سے روابط رکھتے تھے۔ عربی اور فارسی اور اردو کی قلمی کتابوں اور مختلف قدیم اسلامی سلطنتوں کے سکوں کوجمع کرنے کابڑا شوق تھا اوروہ علمی تحقیق وجستجو کے میدان میں ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے تھے ۔فارسی اوراردو زبان کے شعراء کے مطبوعہ اورغیر مطبوعہ تذکروں اوران کے مجموعہ ہائے کلام پر ان کی نظر بہت گہری اور وسیع تھی۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ اورعلمِ عروض میں بھی بڑا درک رکھتے تھے۔۱۹۲۰ء میں پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔بیس سال تک اس خدمت پرمامور رہنے کے بعد ۴۰ء میں اس سے سبکدوش ہوکر اپنے وطن ٹونک میں خانہ نشین ہوگئے۔اس مدت میں آپ نے بحیثیت نقاد ہندوستان کے علمی اورادبی حلقوں میں غیر معمولی شہرت پائی۔اس شہرت کاآغاز اس مقالہ سے ہوا جو ’’تنقید شعرالعجم‘‘ کے نام سے انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی رسالہ ’’اردو‘‘ میں کئی سال تک مسلسل نکلتا رہاتھا۔اورجواب اسی نام سے کتابی شکل میں چھاپ دیاگیا ہے۔اس کے علاوہ ’’آب حیات‘‘ (آزاد) ’’ہندوستان میں مغلوں سے قبل فارسی‘‘، ’’رباعی کے اوزان‘‘ وغیرہ پر جو آپ کے تنقیدی مقالات اورینٹل کالج میگزین لاہور اوردوسرے رسائل میں شائع ہوچکے ہیں ان میں سے ہر ایک مقالہ معلومات اورتحقیق و ژرف نگاہی کے اعتبارسے فارسی اور اردو ادبیات کے طالب علم کے لیے انمول موتیوں کاایک خزانہ ہے۔مستقل تصنیفات میں ’’پنجاب میں اردو‘‘، ’’فرودسی پرچار مقالے‘‘، ’’پرتھی راج راسا‘‘اور ’’خالق باری‘‘ آپ کی قابل قدر علمی یادگاریں ہیں۔تنقید کرتے وقت مرحوم کے لب و لہجہ میں کہیں کہیں درشتی اورتلخی ضرور آجاتی تھی جو بعض مواقع پرکسی ذاتی یاطبقاتی پرخاش کی غمازی کرتی تھی، تاہم بحیثیتِ مجموعی انھوں نے اردو زبان میں فنِ تنقید کا معیار اتنااونچاکردیا ہے کہ مغرب کے اربابِ تنقید بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔
مرحوم جنھوں نے اپنی تنقید سے بڑے بڑے اربابِ تحقیق مصنفوں کا ناطقہ بند کردیا تھاخود ایک عرصہ سے ضیق النفس کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔آخریہ مرض ان کی جان لے کرہی رہا۔ حق تعالیٰ ان کواپنی رحمتوں سے نوازے اور دامانِ مغفرت میں چھپالے ۔آمین۔ [ مئی ۱۹۴۶ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...