Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

گاندھی جی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338579

Access

Open/Free Access

Pages

46

گاندھی جی
آہ!لعل شب چراغ ہند
[گاندھی جی]
گزشتہ چندماہ میں وہ کون سی قیامت تھی جو ہمارے سرپر نہیں ٹوٹی اور مصیبت وادبارکی ایسی کون سی قسم تھی جوہندوستان (۱۵؍ اگست سے پہلے کے ہندوستان) پرنہیں آئی ۔ انسانیت کی دھول اُڑی، مذہب واخلاق کے قصر رفیع کی اینٹ سے اینٹ بجی،جوہرآدمیت وشرافت کی عبائے زرنگار کاایک ایک تار بکھرگیا،امن وعافیت کی کتاب کاورق ورق منتشر ہوا اورآسائش حیات وعزت نفس کی دھجیاں بہیمیت و درندگی کی فضائے تاریک میں پراگندہ ہوکر رہ گئیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے پربھی شاید پیر فلک کے ذوق ستم وایذارسانی کی تسکین اور اس کے حوصلۂ بیدادکی تشفی نہ ہوسکی کہ اس نے ہندستان کی کلاہِ افتخار کاوہ کوہ نور ہیرا اور خستہ حال انسایت کی قبائے ناموس کاوہ تکمۂ زریں بھی توڑ لیا جوخود غرضی و نفس پرستی کی موجودہ متعفن دنیا میں ہندستان اورانسانیت دونوں کی امیدوں اور تمناؤں کاآخری سہارا اوران کی عظمت رفتہ کی آرزوے بازیافت کاواحد آسرا تھا۔
وزدیست چرخ نقب زن اندرسرائے غم
آرے بہرزہ قامت اوخم نیامدہ است
9آسودگی مجوکہ کسے رابزیر چرخ
اسباب ایں مرادفراہم نیامدہ است
درجامۂ کبود فلک بین وبس بداں
کیں چرخ جز سراچۂ ماتم نیا مدہ است
وادریغاکہ وہ عدم تشدد کادیوتا جس نے سخت سے سخت اشتعال کی حالت میں بھی کبھی اپنے دشمن پر انگلی نہیں اٹھائی ۔امن وعافیت کاوہ منّاد و داعی جس نے شدید سے شدید غیظ وغضب کے موقع پربھی اپنے مخالف کے لیے کوئی دل آزار کلمہ زبان سے نہیں نکالا، وہ انسانیت کاعلم بردارِ حقیقی جوتعصب وتنگ نظری کے جذبات کی فراوانی کے عالم میں بھی ایک کوہِ استقامت اورصبر وتحمل کی چٹان بنا اپنے مقام پر کھڑا رہا ،مذہب واخلاق کاوہ پیکر زریں جس نے حیوانیت ودرندگی کے بحرانِ عظیم میں بھی اپنے قدم کو ایک لمحہ کے لیے جادۂ مستقیم سے متزلزل نہیں ہونے دیااور حق وصداقت کاوہ سچا پجاری جوکذب وافترا اور دروغ وباطل کی بلا انگیز موجوں میں بھی صحتِ فکروعمل اورراست گفتاری وراست کرداری کی کشتی کو طوفان زدگی سے بچانے کی کوشش کرتا رہا آہ! صدآہ کہ۳۰ جنوری ۴۸ء کی شام کو خود اس کے ایک ہم وطن وہم ملک نے اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا اوراس کے نحیف ونزار جسم کواپنی گولی کانشانہ بنا کر ہندوستان کی پیشانی پرایک ایسا بدنما داغ لگادیا جوکبھی مٹائے نہ مٹے گا۔
گاندھی جی نسلاً ہندستانی اور مذہباً ہندو تھے۔ لیکن وہ انسانیت ِ عامہ کااتنا بلند اوراعلیٰ تصور رکھتے تھے کہ دنیا میں اگرکسی انسان کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا تو اس کی چسک اپنے دل میں محسوس کرتے تھے ۔زمین کے کسی گوشہ میں بھی کسی پر ظلم ہوتا تووہ اس کی تڑپ سے خود بے چین ہوجاتے تھے۔ان کے اعتقاد میں رنگ ونسل ،مذہب ومشرب اور فکر وخیال کااختلاف محض ایک ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔انسانیت عامہ اور عالمگیر اخوت وبرادری کارشتہ ان کے نزدیک سب سے مقدم تھا۔وہ ہرانسان کودوسرے انسان کابھائی یقین کرتے اوراس کے ساتھ وہی معاملہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ عدم تشدد اورسچائی جس کا حاصل یہ ہے کہ خود اپنے ساتھ انصاف کرو اوردوسروں کے ساتھ انصاف کرو، ان کے تمام افکار و اعمال کی اساس وبنیاد تھے ۔انہوں نے نصف صدی کے قریب ہندستان کوغلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے ان تھک جدوجہد کی اور آخرکار اس میں کامیاب ہوکر رہے لیکن ان کی یہ جدوجہد قومیت کے تنگ نظرانہ تصور پرہرگز مبنی نہیں تھی اور ان کا مطالبۂ آزادی اس لیے نہیں تھاکہ وہ ہندوستانی ہونے کی وجہ سے انگریزوں سے نفرت رکھتے اوران کواپنا دشمن سمجھتے تھے، نہیں بلکہ جیسا کہ انہوں نے باربار کہا ہے اور اسے اپنے عمل سے ثابت بھی کردکھایا، وہ انگریزوں کے بھی ایسے ہی دوست اور خیرخواہ تھے جیسے کہ وہ اپنے یااپنوں کے تھے اوران کا مطالبۂ آزادی صرف اس لیے تھاکہ وہ اس کوہندوستان کاطبعی اورقدرتی حق سمجھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اتنا بڑا وسیع اورزرخیز ملک اس طرح آزاد ہوگیا کہ قوتِ حاکمہ کے کسی فرد کی ناک سے نکسیر بھی نہیں پھوٹی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گاندھی جی کایہ کارنامہ اس درجہ حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آئندہ نسلیں تاریخ میں اس کو پڑھیں گی اور گاندھی جی کی عظمت ِفکر وعمل کااعتراف کریں گی۔
گاندھی جی اگرچہ ایک خاص ملک کی پیداوار تھے اورایک خاص مذہب سے متعلق سمجھے جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے ’’سچائی‘‘ کے اصول پرشدت کے ساتھ عامل ہونے کی وجہ سے کسی حقیقت کومحض تقلیدا ً اور دوسروں کی پیروی میں کبھی قبول نہیں کیا، وہ دل و دماغ کی پوری وسعتوں کے ساتھ حق و صداقت کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ سرگرداں رہے اورجہاں کہیں ان کوکسی گوہرِ گراں مایہ کا سراغ ملا اس کوکسی کی ملامت وتردید کے خوف کے بغیر فوراً حفاظت واحتیاط کے ساتھ چن لیا۔ اس بناپر ان کی شخصیت مذہب وفلسفۂ اخلاق کی مختلف صداقتوں اور سچائیوں کاایک حسین ولطیف مجموعہ بن گئی تھی اوران کو ہرشخص اپنے سے بہت قریب محسوس کرتاتھا ۔ہندوؤں کوان میں رام چند رجی کی حق پرستی وصداقت شعاری نظرآتی تھی تو مسلمانوں کوان میں خواجہ معین الدین اجمیری اورخواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے فقرو مسکنت اور درویشی وبے نفسی کاجلوہ دکھائی دیتا تھا۔ عیسائی ان کو مسیحی تعلیمات کاعلم بردار سمجھتے تھے توسکھ ان میں گرونانک کے جرأت اخلاق اور بے باک صداقت کاپرتودیکھتے تھے غرض یہ کہ وہ اپنے فکروعمل کے اعتبارسے ایک ایسے گلِ صد رنگ وسدا بہار تھے کہ جس مذہب کاپیروبھی ان کودیکھتا بے ساختہ پکار اٹھتا تھا:
اے گل بہ تو خر سندم توبوئے کسے داری
پھروہ بدنصیب جن کے مذہب کی اصل اخلاقی اورتمدنی تعلیمات کا تعصب وتنگ نظری کے ہاتھوں خاکہ اڑچکا ہے وہ تو اس مجموعۂ رنگ وبواور پیکرِ اخلاق وحسنِ خوکودیکھ کردم بخود ہوجاتے اوریہ کہہ کر رہ جاتے تھے کہ :
مجھے خندۂ گل پہ آتا ہے رونا
Aکہ اس طرح ہنسنے کی خو تھی کسی کی
ýان کی اس ہمہ گیر محبوبیت اورہردل عزیزی کاہی یہ ثمرہ ہے کہ کتنے ہی آدمی بلااختلاف مذہب وملت حادثۂ فاجعہ کی خبر سنتے ہی شدتِ الم میں دنیا سے چل بسے اورکتنے ہی تھے جو زندگی سے بیزار ہوکر خودکشی پرآمادہ ہوگئے ۔پھرماتم بھی اس درجہ عالم گیر ہواکہ دنیا میں آج تک کسی کانہیں ہوا۔ہرطبقہ اورہرفرقہ کا، ہر رنگ اورہرنسل کا،ہرملک اورہرقوم کاچھوٹا بڑا، عالم وجاہل، امیروغریب، مذہب پرست اورلامذہب کوئی ایسا نہیں تھاجس کے دل پراس حادثہ کو سن کر چوٹ نہ لگی ہواور اس کی آنکھیں اشک بار نہ ہوگئی ہوں لوگ فرط محبت وعقیدت میں ان کو باپو کہتے تھے اور کوئی شک نہیں کہ وہ بنی نوع انسان کے سچے ہمدرد وغم گسار ہونے کے باعث نہ صرف ہندوستان کے بلکہ کل کائنات انسانی کے باپو تھے۔ آج وہ دنیا سے اٹھ گئے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ انسانیت کے سر پر سے قلبی شفقت وپریم کاایک مقدس ہاتھ اٹھ گیا۔
اس موقع پرہمیں یادآیا کہ مشہور صوفی اور بزرگ حضرت مولانا جلال الدین رومی کاجنازہ جب قونیہ میں اٹھا توجہاں مسلمان چیخیں مارمار کررونے لگے، عیسائی اور یہودی بھی بے ساختہ اشک بار ہوگئے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں رورہے ہو؟ عیسائیوں نے کہاکہ تمہارے نزدیک یہ بزرگ ہستی پیغمبر اسلام ﷺ سے شبیہ تھی تو ہمارے لیے یہ حضرت عیسیٰ تھی۔یہودی بولے کہ ہم کو اس شخصیت میں حضرت موسیٰ کاسا تقدس اوران کی سی خوبو نظر آتی تھی۔واقعی سچ فرمایا ’’جوخدا کاہوگیا ساری دنیا اس کی ہوگئی ۔‘‘
ہندوستان میں اختلافِ مذہب کی وجہ سے پچھلے دنوں جو خون خرابہ ہوا اس کی نظیر توتاریخ میں نہیں ملے گی لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس ملک پرجب مسلمان بادشاہوں کی حکومت تھی یہ مسئلہ اس زمانہ میں بھی چند درچند مشکلات کاباعث بنا ہوا تھا اوراس کے حل کرنے میں جوپیچیدگیا ں پیداہوتی تھیں اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان بادشاہ خالص اسلامی فکر کے بالمقابل اپنی اصل قومی عصبیت کے رجحانات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے یابالفاظ صحیح تر ہنگامی جذبات کی اشتعال پذیری کے عالم میں اصل اسلامی احکام کونظر انداز کردیتے تھے۔ جب سلطنت کی طرف سے اس مسئلہ کاکوئی حل پیدا نہیں ہوسکا تومسلمانوں میں صوفیائے کرام اور ہندوؤں میں ان کے مصلحین ومفکرین کی جماعت نے وقتاً فوقتاً اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ۔چنانچہ اس سلسلہ میں سکندر لودھی کے عہد میں بھگتی تحریک کاآغاز ہوا اور کبیر داس اور بابانانک جیسے لوگ اس کے علم بردار ہوئے۔پھربعد میں اکبر نے دین الٰہی کی داغ بیل بھی اسی تحریک کے زیر اثر ڈالی لیکن ان تحریکوں کواس لیے فروغ نہیں ہوسکا کہ انہوں نے مذہب کی انفرادیت کوبرباد کرکے ایک نئی چیز پیدا کردی جوکسی خاص مصلحت کے پیش نظر خواہ کتنی ہی خوبصورت اورجاذبِ نظر معلوم ہوتی ہولیکن کوئی اپنے مذہب کاسچا پرستار اسے قبول نہیں کرسکتا تھا۔
اس راہ سے ہٹ کرگاندھی جی نے اختلاف ِ مذہب کی مشکل کاجو حل نکالا وہ بالکل طبعی اور فطری تھا، انہوں نے ہندو یامسلمان ،عیسائی یاسکھ کسی سے یہ نہیں کہاکہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے کوئی نیا مذہب اختیار کرلے ۔بلکہ ان کا بنیادی فکریہ تھاکہ تمام مذاہب میں بنیادی صداقتیں اورسچائیاں ایک ہیں جسم اورقالب کے اعتبار سے شکلیں کتنی ہی مختلف ہوں لیکن روح سب کی ایک ہے یعنی یہ کہ وہ خدا پرستی اور نیک زندگی بسرکرنے کی تلقین کرتے ہیں۔پس جب روح سب مذاہب کی ایک ہے اور انسانیت عامہ کے تصور کے پیش نظر ہرانسان دوسرے انسان کا بھائی ہے تو پھر محض اختلاف مذہب کی بنا پر آپس میں لڑنا جھگڑنا اورایک دوسرے کو برا بھلا کہنا کیوں کرجائز ہوسکتا ہے۔ گاندھی جی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مذہبی رواداری اورایک دوسرے کے مذہب کے احترام کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اپنی پرارتھنا میں جس کووہ ہرروز بڑی پابندی سے مجمع عام میں کرتے تھے ، ہرمذہب کی مقدس کتاب کے ٹکڑے شامل کرلیے لیکن اپنی ہمہ گیر عظمت وشہرت کے باوجود نہ تو کوئی نیا مذہب ایجاد کیااور نہ انہوں نے کسی مذہب کے پیروکواپنا مذہب ترک کرنے کی دعوت دی۔اس کے برخلاف ان کایہ پیغام تھاکہ ہرشخص کواپنے مذہب کی پابندی کرکے صحیح معنی میں خدا پرست ہونا چاہیے ۔یہ حقیقت ہے کہ اگر ہرشخص واقعی طور پر خدا پرست ہوجائے تواختلافِ مذہب کی وجہ سے جوبربادیاں آتی ہیں وہ نہ آئیں اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رواداری ،محبت اورہمدردی کے ساتھ زندگی بسرکرسکیں ۔
گاندھی جی کی زندگی کاسب سے بڑادشمن عدم تشدد اورسچ کی تعلیم تھا۔ دیکھنے میں یہ دو لفظ ہیں لیکن ان میں اخلاق وموعظت کے دفاتر پوشیدہ ہیں، گاندھی جی جس چیز کوعدم تشدد کہتے تھے وہ وہی ہے جس کوقرآن نے آیت ذیل میں بیان کیاہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃ’‘
کَاَنَّہٗ وَلِیّ’‘ حَمِیْم’‘(السجدہ:۳۴)
ایک ایسے طریقہ پر مدافعت کروجو بہترین ہواور جس کانتیجہ
یہ ہوکہ تمہارا شدید دشمن بھی پکادوست بن جائے۔
ہتھیاروں اور تشدد کے ذریعہ صرف جسم کو فتح کیاجاسکتا ہے۔مگردل نہیں بدلے جاسکتے۔ اس کے برخلاف اگرکوئی شخص کسی حق بات پر محض حق کے لیے قائم ہواور وہ زبردست اخلاقی طاقت کامظاہرہ کرے توشدید ترین دشمن بھی رام ہوکردل سے دوست بن جاتا ہے ۔کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کی اور ہرآسمانی مذہب کی یہی تعلیم ہے لیکن گاندھی جی نے اپنے بلند پایہ کردار ،عظیم الشان ضبط نفس اور حیرت انگیز قوت عزم وعمل سے جس طرح اس حقیقت کوسچ کردکھایا وہ مصلحین عالم کی تاریخ میں ہمیشہ روشن حروف میں لکھے جانے کا مستحق ہے۔
۹؍ ستمبر ۴۷ء کووہ دہلی پہنچے توتمام شہر قتل وغارت گری کے شعلوں میں لپٹا ہواتھا۔ حکومت اوراس کی پولیس اورفوج اس آگ پرقابو پانے میں ناکام رہی تھی لیکن گاندھی جی کے یہاں پہنچتے ہی ایسا محسوس ہواکہ گویا آگ پرکسی نے پانی ڈال دیاہے۔ لیکن اس کے باوجود دلوں میں نفرت وعناد اور جذبۂ قتل و غارت گری کاجو زہر بھراہوا تھا وہ نہ نکلا ۔گاندھی جی نے پرارتھنا میں روزانہ تقریریں کیں، بیانات شائع کیے، پرائیوٹ مجلسوں میں افہام وتفہیم کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ دل پھربھی نہیں بدلے توانہوں نے حق وانصاف کے لیے جان کی بازی لگادی اور برت رکھ لیا۔یہ برت کیاتھا! گویا ایک برق تھی جو تعصب اورتنگ نظری کے پردوں کوچاک کرگئی۔ فساد پرور عناصر کواب اپنی موت نظرآئی تو انہوں نے گاندھی جی کوختم کردینے کاہی منصوبہ باندھ لیا اور ۳۰؍جنوری کی شام کووہ اسے عمل میں بھی لے آئے ۔
لیکن ہرشخص محسوس کررہاہے کہ اس کااثر کیاہوا؟ تاریخوں میں پڑھا ہے کہ پہلے زمانہ میں خاص خاص دریاتھے کہ ان میں جب طوفان آتاتھا توجب تک کسی کی بھینٹ نہیں لیتا تھا فرو نہیں ہوتاتھا۔ اسی طرح پاکستان اور ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت کا جوشدید طوفان امڈاتھا وہ غالباً فرو ہونے کے لیے اس ملک کی سب سے زیادہ قیمتی چیز کی قربانی کاہی انتظار کررہا تھاکہ اس کے عمل میں آتے ہی یک بیک مسموم دل ودماغ پاک وصاف ہوگئے اورجولوگ شدت جذبات میں اندھے ہوگئے تھے ان کوبھی شاہدِ حقیقت کاروشن وتابناک چہرہ صاف نظر آنے لگا۔پس گاندھی جی کے اصول عدم تشدد اورحق پرستی کی شاندار کامیابی کاثبوت اس سے بڑھ کراور کیا ہوسکتا ہے کہ دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا کام جو دنیا کی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں کرسکتی وہ انہوں نے اپنے خون کے قطروں سے کر دکھایا اور خودجان دے کر پورے ملک کونہایت ہولناک تباہی و بربادی سے بچالیا۔
قدرت کویہی منظور تھاکہ گاندھی جی عام محسنین انسانیت اور معلمین اخلاق کی طرح انتہائی مظلومیت کے ساتھ جان دیں ۔بہرحال اگرچہ آج ان کاجسم ہم میں نہیں ہے لیکن ان کی آتما امراورزندۂ جاوید ہے اوران کے جسم سوختہ کی راکھ کاایک ایک ذرہ پکارپکار کرکہہ رہاہے کہ حق کی بے لوث پیروی اورعدم تشدد میں ہی زندگی کاراز مضمر ہے۔ہندوستان کویاکسی اورملک کواگر خوش حال ہونا اورترقی کرنا ہے تو ان دو اصولوں پرکار بند ہونا نا گزیر ہے۔اب گاندھی جی کے نام لیواؤں اور ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کافرض ہے کہ گاندھی جی انہیں جو راستہ دکھاگئے ہیں اس پر وہ عزم وہمت اورخود اعتمادی وہوشیاری کے ساتھ اس طرح چلتے رہیں کہ فتنہ پردازاوردشمن ملک عناصر کوپھر ابھرنے اورسراٹھانے کاموقع نہ ملے۔ اگرہم نے ایسا کیاتو گاندھی جی کی آتما کو سُکھ پہنچے گااور ہم بھی امن و اطمینان سے رہ کر ترقی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں گے۔ [مارچ۱۹۴۸ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...