Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا شبیر احمد عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338582

Access

Open/Free Access

Pages

50

آہ ناموسِ شریعت و قاموسِ علم
[مولانا شبیر احمد عثمانی]
وا دریغا!آج قلم کو اس ذات گرامی کامرثیہ لکھنا ہے جس کاقلم عمر بھر قرآن و حدیث کے اسرار و حکم کے کشف وتحقیق میں گُہرافشانی کرتارہا۔آج زبان خامہ کو اُس کی ماتم سرائی کافرض انجام دیناہے جوزندگی بھر ملت بیضا کی جراحتوں کے لیے مرہم رسانی کی فکر میں لگارہا۔جس کی زبان قرآن کی ترجمان تھی اورجس کا نطق نوامیس شریعت کابیان۔حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکاسانحۂ وفات اگرچہ ’’وطن سے دور‘‘ پیش آیا لیکن الحمد ﷲ کہ دیارغیر میں نہیں جہاں غالب کے بقول بے کسی کی شرم کے رہ جانے کی تمنا ہوتی۔بے شمار فرزندان توحید نے نماز جنازہ پڑھی اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو بذات خودایک انجمن ہو وہ وطن سے دور رہ کر بھی تنہا نہیں ہوتا۔وہ جہاں بیٹھتا ہے اپنی دنیا آپ پیدا کر لیتا ہے۔
دیوبند اگرچہ ایک چھوٹا ساقصبہ ہے لیکن مقامی اعتبار سے یہاں کے تین خاندانوں نے اس کو ہندوستان کے آسمان شہرت پرآفتاب وماہتاب بنا کر چمکایا اور اسے مرزوبوم کی کلاہ افتخار کاکوہ نوربنادیا۔ایک مولانا نانوتوی کاخاندان جن کے فرزند ارجمند حضرت حافظ محمد احمد صاحب مرحوم تھے، دوسرامولانا ذوالفقار علی مرحوم کاخاندان جس کے گل سرسبد حضرت شیخ الہند تھے اور تیسرا خاندان مولانا فضل الرحمن صاحب عثمانی مرحوم کا تھاجن کے دوصاحبزادے عارف عصر و شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒاورعربی کے بہترین ادیب اور فطری شاعرمولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی ؒعہد حاضر کے اکابر علماوفضلا تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی اسی خاندان کے لعل شب چراغ اورمولانا فضل الرحمن صاحب کے فرزند ارجمند تھے۔
حضرت الاستاذ ماہ محرم۱۳۰۵ھ میں دیوبند میں پیداہوئے اس و قت آپ کے والد ماجد ضلع بجنور میں انسپکٹر مدارس کے عہدہ پرمامور تھے۔ تعلیم دارالعلوم دیوبند میں پائی،اپنی غیر معمولی ذکاوت وذہانت کی وجہ سے طلبا میں ہمیشہ ممتاز اوراساتذہ میں موقرومحبوب رہے۔ ۱؂ دارالعلوم دیوبند کایہ دور نہایت شاندار تھا۔ درس حدیث کی مسند حضرت شیخ الہند کے وجودگرامی سے مزین تھی ہی۔ اور اساتذہ بھی اپنے اپنے علوم وفنون کے ماہر اورنامور استاذ تھے۔اساتذہ ایسے اورشاگرد حضرت الاستاذ ایسا۔پھر کمی کس چیز کی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ عنفوان شباب میں ہی اسلامی علوم وفنون کے بلیغ النظر مبصر بن گئے پھر چونکہ ذہانت آپ کاجوہر تھی اور خوش تقریری وخطابت ایک فطری ملکہ، اس بنا پر سب سے کمسن ہونے کے باوجود جلد ہی اکابر دیوبند میں شمار ہونے لگے۔حضرت الاستاذ کی ذات سے سلسلہ دیوبند کے دورآخر کی پوری تاریخ مربوط تھی۔آج وہ عہد زریں یادآتا ہے توسینہ پر سانپ سالوٹ جاتاہے کہ ہائے!ابھی کیا تھااورکیاسے کیا ہوگیا،خوشاخاک دیوبند کی زرخیزی وزہے سرزمین دارالعلوم کی مردم آفرینی!کہ انیسویں صدی کے نصف آخر اوربیسویں صدی کے ربع اول میں جو بزرگ اس خطہ سے اُٹھے ان کے نفوس قدسیہ نے یہاں کے ذروں کوہمدوش کوکب وانجم بنادیااورزمین چشمک زن آسمان ہوگئی۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب ؒجوانگریزوں سے لڑنے کے بعد مکہ معظمہ میں جاکر قیام گزیں ہوگئے تھے انھوں نے اس ملک کی نئی صورت حالات کے ماتحت یہاں کے مسلمانوں کی دینی اور روحانی واخلاقی تباہ حالی کاجائزہ لے کرحضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح کعبۃ اﷲ کے درودیوار سے لپٹ کر دیوبند کے لیے دعائیں مانگی ہوں گی کہ خدا اس خطہ کو ہندی مسلمانوں کے لیے’’مثابۃ للناس وامنا‘‘بنادے تاکہ اُن کی دینی نشاۃ ثانیہ کاسروسامان یہاں سے ہوسکے اورسیاسی طاقت وقوت سے یک بیک محروم ہوجانے کے بعد مسلمان جس دینی ابتری اورروحانی واخلاقی اختلال و پراگندگی کاشکار ہوسکتے تھے اس سے محفوظ ہوجائیں۔چنانچہ ان کی فغان نیم شبی و گریۂ صبح گاہی کا یہ اثر ہوا کہ یہاں یکے بعد دیگرے مسلسل ایسے بزرگ پیداہوتے رہے جواس ملت برگشتہ کے زخموں پر ٹانکے لگا لگاکر اس کے جسم میں دینی شعور وملی حیات کاخون پیداکرتے رہے، دین قیم کی حفاظت و صیانت اورشریعت غرا کی ترقی واشاعت گویاایک امانت تھی جو اس عہد سے لے کر اب تک سینہ بسینہ اور دست بدست ایک بزرگ سے اس کے جانشین دوسرے بزرگ کی طرف منتقل ہوتی رہی۔چنانچہ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹے سے قصبہ اور ایک مدرسے کی چہاردیواری کے اندر بندہوکر ان بزرگوں نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی ملی زندگی کونئی روح دینے میں جتنے مختلف نوع بنوع اور ہمہ جہتی کام کیے ہیں اتنے دیوبند کے سوااورکہیں کسی جگہ نہیں ہوئے۔
اب ایسا خوش نصیب توشاید ہی کوئی ہو جس نے اس سلسلہ کی ابتدائی کڑیوں یا یوں کہیے اس عہد کے صدراوّل کودیکھاہو۔البتہ ایسے حضرات بحمداﷲ کم نہیں ہیں جنہوں نے اس عہد کے دورآخری کی بہاریں․․․ خوداپنی آنکھ سے دیکھی ہوں گی۔تصور کیجیے توایک نیا عالم ہی نظروں کے سامنے آجاتاہے، ایک طرف حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ہیں کہ مسندِ درس پر علم وعرفان کے دریا بہارہے ہیں اور ساتھ ہی خلوتوں میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کاتختہ اُلٹ دینے اور اس ملک کوفرنگی اقتدار سے آزاد کرادینے کے منصوبے سوچ رہے ہیں۔زبان قال اﷲ اور قال الرسول کے لاہوتی نغموں سے سرشار ہے تودماغ انقلابی پروگرام سوچنے میں مصروف!کوئی اس کو محسوس کرے یانہ کرے لیکن ایک بالغ نظر انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت شیخ الہند کی یہ سرگرمیاں آئندہ آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کی تعمیر میں نہایت موثر اورکارگر ثابت ہوں گی اور اس کے اثرات ایک عرصہ تک فضا میں محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف دیکھیے تو عارف ربانی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی تزکیۂ نفس وتجلّیۂ باطن کی محفل گرم کررہے ہیں، مسند افتاپر بیٹھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ شیخ ابن ہمام نے ایک دوسرے پیکر خاکی میں جنم لیاہے۔علم وفن کے نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالی جائے توحضرت الاستاذ العلامہ سید محمد انور شاہ کے روپ میں نظر آئے گا کہ حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم،ابن دقیق العید،ملا علی قاری اورامام رازی وفارابی ان سب کے دل ودماغ نے مل جل کر ایک قالب میں ظہور کیاہے۔شعروادب میں نظرآئے گا کہ مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی کی زبان سے امراء القیس اور نابغۂ دبیانی بول رہے ہیں، پھرجہاں تک عہد حاضر کے گوناگوں معاملات و مسائل کااسلامی حل سوچنے اوران پر فکر کرنے کاتعلق ہے تواس سلسلہ میں مولانا عبیداﷲ سندھی عالم اسلام کے ایک مفکر جلیل کی حیثیت سے نظر آئیں گے۔وعظ و ارشاد اوراصلاح وتزکیۂ نفس کی انجمن مولانا تھانوی کے دم سے زندہ اورروشن دکھائی دے گی،حضرت الاستاذ اسی گلزار سدابہار کے ایک گل صد رنگ وبلبل ہزار داستان تھے کہ جس محفل میں شریک ہوتے رونق محفل بن کر رہتے تھے، جس انجمن میں جابیٹھتے شمع انجمن بن جاتے تھے۔آہ صدافسوس کہ اب یہ محفل سونی ہوچلی ہے، حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی کوچھوڑ کراس بزم کے سب ارکان عالم آخرت کوسدھار گئے اور اب یہ بساط زرنگار الٹتی ہوئی ہی معلوم ہوتی ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
۱۹۳۰ء میں موتمرالانصار نامی ایک انجمن کا جسے حضرت شیخ الہند نے قائم کیا تھا اورجس کے سیکرٹری مولانا عبیداﷲ سندھی تھے، مرادآباد میں ایک نہایت عظیم الشان تاریخی جلسہ منعقد ہوا، اس میں حضرت الاستاذ نے’’الاسلام‘‘کے عنوان سے ایک مقالہ پڑھا جس کی چاروں طرف دھوم مچ گئی اورآپ کی پبلک شہرت کا باقاعدہ آغاز یہیں سے ہوا۔ پھرحضرت شیخ الہند ؒ کے مالٹا سے آنے کے بعد آپ نے۱۹۱۹ء کے آخر اور۱۹۲۰ء کے شروع میں سہارنپور، غازی پور، لکھنؤ، بنارس، کانپور ،علی گڑھ ودہلی وغیر ہ کے بڑے بڑے اجتماعات میں حضرت شیخ الہند کے ترجمان کی حیثیت سے جوبلند پایہ تقریریں کیں انھوں نے ملک کے گوشہ گوشہ میں آپ کی عظمت وبرتری کاسکہ بٹھادیا۔ تقریر وخطابت کے علاوہ تحریر و تصنیف کاذوق بھی شروع سے ہی تھاچنانچہ دارالعلوم دیوبند کے پرانے ماہناموں ’’القاسم‘‘و’’الرشید‘‘میں مستقل اورمسلسل مقالات کے علاوہ آپ نے ’’العقل و النقل‘‘کے نام سے بھی ایک رسالہ تصنیف کیا جس کی علمی اور دینی حلقوں میں بڑی شہرت ہوئی۔ ان مشاغل کے ساتھ مسند درس بھی آپ کے فیض سے محروم نہیں رہی بلکہ ایک عرصہ تک خالصۃً لوجہ اﷲ تمام علوم وفنون اورخصوصیت سے حدیث شریف کادرس دیوبند میں دیتے رہے۔ اس زمانہ میں حضرت الاستاذ کی زندگی بالکل درویشانہ اورمتوکلانہ تھی، دارالعلوم کی خدمت درس بالکل مفت انجام دیتے تھے اور معاش کاصرف یہ ایک ذریعہ تھا کہ آپ کے بڑے بھائی مولانا حبیب الرحمن صاحب غالباً سترہ روپیہ ماہوار اپنی جیب سے مولانا کے گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ اسی زمانہ میں زیارت حرمین شریفین کے جذبۂ بے قرار سے مجبور ہوکر اپنا گھر فروخت کرکے حجازچلے گئے اورواپس آکر حسب سابق درس میں مشغول ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں دارالعلوم دیوبند میں اختلافات رونما ہوئے، ان کے نتیجہ میں آپ ایک جماعت کثیر کے ساتھ ڈابھیل منتقل ہوئے، چند سالوں کے بعد آپ کاانتخاب دارالعلوم دیوبند کے صدرمہتمم کے عہد ہ پرہوا اوراب آپ پھر دیوبند آگئے لیکن سات سال کے بعد آپ کواس عہدہ سے مستعفی ہوناپڑا اور اب آپ دیوبند میں ہی خانہ نشین ہوکررہنے لگے، یہاں تک کہ اگست۱۹۴۷ء میں ترک وطن کرکے کراچی تشریف لے گئے اورآخرکار۱۳؍دسمبر۱۹۴۹ء کی شام کو ریاست بھاولپور میں دو روز علیل رہنے کے بعد داعی اجل کولبیک کہا۔ جنازہ یہاں سے کراچی لایاگیا جہاں علم وفضل کایہ پہاڑ سپردخاک کردیا گیا۔
یوں تومسلمانوں کی دینی اورملی زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جوبراہ راست حضرت الاستاذ کے فیو ض وبرکات سے مستفید نہ ہو لیکن اس میں آپ کے سب سے زیادہ شانداراوردیرپاکارنامے دو ہیں: ایک حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمہ قرآن کی تکمیل اوراس پرحواشی وفوائد اوردوسرا صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم۔ ارباب نظرجانتے ہیں کہ حضرت الاستاذ نے کس جامعیت،اصابت رائے اور دقت نگاہ کے ساتھ قرآن وحدیث کی خدمت کے یہ دونوں شاہکار مرتب کئے ہیں، موخرالذکر کاچرچا توہندوستان چھوڑ ممالک اسلامیہ تک میں ہے،مصر کے اکابر علم نے فتح الملہم کی داد دی ہے۔
فنون ظاہر ی میں درک و ادراک اورجامعیت وکمال کے ساتھ آپ علوم باطنیہ سے بھی بہرہ وافر رکھتے تھے اس سلسلہ میں پہلے حضرت شیخ الہند سے بیعت ہوئے پھر پیرومرشد مالٹا کے اسیر ہوگئے توآپ نے مولانا تھانوی سے رجوع کرلیااور جب حضرت شیخ الہند واپس آئے توپھرا نھیں کی طرف رجوع ہوگئے ۔ نماز انتہائی خشوع وخضوع سے پڑھتے تھے، خشیۃ اﷲ اورشرم وحیا کاپیکر تھے ،قلب نہایت نازک اوررقیق پایاتھا۔لیکن تقریر کے وقت عقل کوکبھی جذبات سے مغلوب نہیں ہونے دیتے تھے، جوبات کہتے تھے ذمہ داری کے پورے احساس کے ساتھ بہت ناپ تول کرکے کہتے تھے۔ تحریک خلافت کازمانہ حددرجہ اشتعال اور جذبات کی برانگیختگی کاعہد تھا لیکن اس زمانہ میں بھی کبھی تقریر اًیاتحریراً کوئی ایسی بات نہیں کہی جوصرف جذبات کانتیجہ ہو۔حق بات کہنے میں ہمیشہ بے باک اور نڈر تھے۔ہرمعاملہ میں اپنی رائے صفائی اورآزادی کے ساتھ پیش کرتے تھے چنانچہ شاید لوگوں کواب تک یادہو کہ دہلی کے ایک عظیم الشان جلسہ میں پنڈت مدن موہن مالویہ کے مقابلہ پراور۱۹۲۲ء میں گیا میں جمعیۃ علمائے ہند کے سالانہ جلسہ کے موقع پر کونسلوں کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر حکیم محمد اجمل خاں مرحوم کی مخالفت میں حضرت الاستاذ نے کس قدرہنگامہ آفریں اورمعرکۃ الآرا تقریریں کی تھیں۔طبیعت کے مرنج ومرنجان تھے،کسی کو دکھ پہنچانایاکسی کی بدخواہی کرنااُن کے دائرہ تصور سے باہر تھا، جس سے جو وضع تھی اس کوہرحال میں نباہتے تھے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے قیام کے بعد بھی جب کبھی دہلی تشریف لاتے یہ ناممکن تھا کہ کتنی ہی عدیم الفرصتی ہو دوچارگھنٹہ کے لیے اپنے بھتیجے مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی، ان کے بچوں اورہم خدام سے ملنے کے لیے دفتر برہان تشریف نہ لاتے۔
جہاں تک سیاست کاتعلق ہے حضرت الاستاذ اپنے مخصوص افتادطبع کے باعث کبھی بھی اس میدان کے مردِدارورسن نہیں ہوئے البتہ خیالات و افکار میں وہ ہمیشہ حضرت شیخ الہند کی قایم کی ہوئی جمعیت علمائے ہند کے ساتھ رہے اوراس کی مجلس عاملہ کے ممبر کی حیثیت سے اس کے فیصلوں میں برابر شریک وسہیم رہے۔ آخر میں جب ہندوؤں کی بددماغی اوران کی تنگ نظری سے خوف زدہ ہو کر مسلمانوں کی اکثریت تحریک پاکستان کی ہمنوا ہوگئی توحضرت الاستاذ بھی اس سے وابستہ ہوگئے۔اورآخرکار اس ملک کوہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ گئے۔
تحدیث نعمت کے طورپر یہاں ا س کا ذکرکرنا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ راقم الحروف کوجہاں اوراکابردیوبند کی بارگاہ میں خصوصی تقرب کاشرف حاصل رہاہے جو بلاشبہ اس گنہگار کے لیے ذخیرۂ آخرت ہے ،حضرت الاستاذ ؒ بھی خاص محبت کرتے اورشفقت فرماتے تھے۔اس میں جہاں دخل اس ہیچمرز کی استعداد کے ساتھ بزرگانہ حسن ظن کو تھا، اس بات کو بھی تھا کہ بھائی عتیق (مولانا عتیق الرحمن صاحب عثمانی)کے ساتھ خصوصی برادرانہ تعلق کی وجہ سے میں گویا عثمانی خاندان کا ہی ایک فرد بن گیاتھا۔جب کبھی ملاقات ہوتی، انتہائی شفقت اورمحبت کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتے۔دیوبند جاتاتوکئی کئی وقت کی دعوت کرتے اورخود اپنے ہاتھ سے عمدہ کھانوں کی قابیں میری طرف بڑھاکر ان میں سے کھانے کی فرمائشیں کرتے۔ میری تقریروں اورتحریروں کی بڑی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور اکثر دعائیں دیتے تھے۔ ترک وطن کرجانے کے بعد ہم تہی دستان قسمت آپ کے فیوض وارشادات علمیہ سے محروم ہوگئے تھے یہاں تک اس مدت میں خط و کتابت کی سعادت بھی حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ ہواکہ کراچی سے ایک عزیز دوست نے لکھاتھا کہ:’’حضرت مولانا‘‘تم کو یادکرتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ یہاں چلے آؤ۔اس کے جواب میں راقم الحروف نے اس دوست کوحکیم ناصر خسرو کاصرف یہ شعر لکھ بھیجا تھا:
حاجی برہِ کعبہ و من طالب دیدار
اوخانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ
ایک عرصہ ساتھ رہنے کی وجہ سے بعض معاملات میں کئی مرتبہ شکوہ سنج ہونے کی نوبت بھی آئی لیکن حضرت الاستاذ کی شفقتوں کی ہمہ گیری کایہ عالم تھا کہ ان سے شکوہ سنج ہونے میں بھی ایک لذت ملتی تھی پھر دل میں خواہ کیسے ہی شکوے ہوں لیکن جہاں خندۂ زیرلب اورآنکھوں کی ایک خاص جنبش کے ساتھ آپ نے خطاب کیا،بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ دل میں شکایت وگلہ کاگویا کبھی احساس پیداہی نہیں ہوا۔آہ صد حیف!اب یہ شفقتیں خواب خیال و فکررہیں گی:
وکنا کندمانے جذیمۃ حقبۃ من
الدھر حتی قیل لن یتصد عا
فلما تفرقنا کانی وما لکا
بطول اجتماع لم بنت لیلۃ معاً
حضرت الاستاذ کاحادثۂ وفات ملت اسلامیہ کے جسم پرایک ایسازخم کاری ہے جو عرصہ تک مندمل نہیں ہوسکتا۔اس حادثہ سے علم شریعت کی دیوار میں جو شگاف پیداہوگیا ہے وہ مدت تک بند نہیں کیاجاسکے گا، ان کا وجود اس عہد ضلالت و گمراہی میں اﷲ کی رحمت کاایک سایہ تھا۔وہ شریعت مصطفوی کے ناموس اوردین قیم کی آبرو تھے۔اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کونور سے بھرپور کرے اورآخرت میں صد یقین وشہداء کے ساتھ ان کا حشرفرمائے۔آمین [جنوری۱۹۵۰ء]

۱؂ مولانا۱۳۱۲ھ میں درجہ قرآن مجید میں داخل ہوئے اور۱۳۲۰ھ میں دورہ حدیث کی پوری جماعت میں اوّل درجے میں کامیابی حاصل کی۔۱۳۲۸ھ میں دارالعلوم میں باقاعدہ مدرس مقرر ہوگئے اورکچھ عرصے کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری کے صدر مدرس بنا کر بھیجے گئے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...