Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338584

Access

Open/Free Access

Pages

54

مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی
افسوس ہے کہ گزشتہ مہینہ نواب صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں صاحب شروانی نے۸۶سال کی عمر میں وفات پائی۔۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد جن اکابر علم وادب نے اس ملک میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کاسروسامان کیا تھا مولاناان کے زمرہ میں ایک نوجوان رفیق کی حیثیت سے شامل تھے اس لیے انھوں نے اس دور کی بہار سامانیاں خوداپنی آنکھ سے دیکھی تھیں اور اپنی خداداد صلاحیت وقابلیت سے کام لے کر ان کی تعمیر وترقی میں خود بھی عملی حصہ لیا تھا۔ مسلم یوینورسٹی علی گڑھ، ندوۃ العلما، دارالمصنفین اعظم گڑھ، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، دارالعلوم دیوبند،حیدرآباد کامحکمہ امور مذہبی،یہ سب ادارے مرحوم کی اصلاحی و تدبیری کاوشوں اورگوناگوں ہمدردانہ دلچسپیوں کے جولانگاہ تھے۔دولت زرکی بہتات کے ساتھ دولت علم وفضل سے بھی مالا مال تھے۔ مرحوم کاکتب خانہ ہندوستان کاایک بہترین کتب خانہ تھا جہاں ریسرچ اسکالر آکر مطالعہ وتحقیق کی تشنگی بجھاتے تھے۔ کتابوں کی حفاظت ونگرانی اوران کی ترتیب وفہرست سازی کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ ذوق مطالعہ کایہ عالم تھا کہ ضعف ونقاہت اوربیماری کے باوجود روزانہ پندرہ گھنٹے کتب خانہ میں پابندی کے ساتھ بیٹھتے اورمطالعہ کرتے تھے۔ متعدد کتابیں اوربہتیرے مقالات بھی ان کے قلم سے نکلے،اردو کے صاحب طرز ادیب تھے۔فارسی اورعربی شعروادب کاشگفتہ ذوق رکھتے تھے۔ دین داری اورمذہبی شعائر وآداب کااحترام ان کی فطرت تھی۔ اخلاق و عادات، طورواطوار کے لحاظ سے اب سے ڈھائی تین سو برس پہلے کی اسلامی تہذیب و شرافت کازندہ نمونہ تھے،خودداری کے ساتھ ملنساری،تمکنت کے ساتھ ارباب علم وادب کے ساتھ انکساری ان کی طبیعت کاجوہر تھا۔ انھوں نے اپنے علم وفضل سے بھی خلق خدا کوفیض پہنچایا اور دولت و ثروت سے بھی،ان چند درچند خصوصیات وکمالات کے جامع ہونے کے اعتبار سے مرحوم مسلمانوں کے اس دور میمون و مبارک کی یادگار تھے جب کہ لوگ’’صاحب السیادتین‘‘اور’’حامل الدولتین‘‘ ہوتے تھے، اب جواس چمن میں موسم خزاں کادور دورہ اوربادصرصر کی تباہ کاریوں کاغلبہ ہے توقع نہیں کہ ایسے جامع کمالات بزرگ پھر کہیں دیکھنے میں آئیں گے۔صد حیف کہ جومسند خالی ہوتی جاتی ہے اسے پُرکرنے والاکوئی نظر نہیں آتا۔ حق تعالیٰ آں مرحوم کوبیش ازبیش رحمتوں سے نوازے اورمقربین وصلحا میں مقام نصیب فرمائے۔آمین
اس سلسلہ میں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ بعض اخبارات نے اپنے تعزیتی نوٹ میں نواب صاحب مرحوم اورمولانا آزاد کے تعلقات کابھی خاص اہتمام کیا ہے۔گویا مولانا آزاد کا’’صدیق‘‘’’حبیب‘‘ہونابھی ایک فضیلت ہے حالانکہ گستاخی معاف! مولانا مدظلہ کے دیرینہ بلاکشان محبت کاتجربہ تویہ ہے کہ مولاناکا’’صدیق‘‘ہونا فضیلت نہیں بلکہ ایک لطیف قسم کا ابتلا ہے۔
جس کے تم دلبر ہو جس دل میں تمہاری یاد ہو
وہ ہمیشہ خاک چھانے اورسدا برباد ہو
[ستمبر۱۹۵۰ء ]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...