Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا عاشق حسین سیماب اکبر آبادی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا عاشق حسین سیماب اکبر آبادی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338585

Access

Open/Free Access

Pages

55

مولانا عاشق حسین سیماب اکبر آبادی
افسوس ہے پچھلے دودن کے ہی آگے پیچھے سے اردو کی بساط شعروادب کے دوپرانے اورنامور مہرے اٹھ گئے۔مولانا عاشق حسین سیماب اکبر آبادی اور مولانا احسان اﷲ خاں تاجورؔ نجیب آبادی آج کل کے عام شاعروں کی طرح شاعر یاادیب ہی نہیں تھے بلکہ صاحب فن استاذ،علم عروض ومعانی وبیان اور لغت و قواعد لسان کے بڑے مبصر اورناقد بھی تھے۔مولانا سیماب۱۸۸۰ء میں آگرہ میں پیداہوئے اورجنوری۱۹۵۱ء میں کراچی میں انتقال کرگئے شاعری اٹھارہ انیس برس کی عمر سے ہی شروع کردی تھی اس طرح گویا مرحوم نے پوری ایک نصف صدی اردو زبان وادب کی خدمت میں بسر کی۔اس مدت میں سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں اوربے شمار مقالات،نظمیں وغیرہ ان کے قلم سے نکلیں۔ان کے شاگردوں کاحلقہ بھی نہایت وسیع تھا جو خط وکتابت کے ذریعہ ان کی فنی بصیرت ومہارت سے استفادہ کرتارہتاتھا۔ابتدا میں اگرچہ مرزاداغ سے مشورہ سخن کرتے تھے مگر جلد ہی ان کااپنا ایک مخصوص رنگ قائم ہوگیا۔کثرت مطالعہ وفکر عمیق نے ان میں شعروادب سے متعلق ایک مجتہدانہ شان پیداکردی تھی۔وہ کسی کے مقلد نہیں تھے بلکہ ہرچیز اورہرشعری وادبی مسئلہ کے متعلق اپنی ایک جچی تلی سنجیدہ اورمتین رائے رکھتے تھے اورعلیٰ وجہ البصیرت رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے طوفانی اورانقلابی دوردیکھے جس نے ادب وشعر کی پرانی قدروں کومتزلزل کرکے رکھ دیا اورصورت ومعنی دونوں کے لحاظ سے شاعری کی دنیا میں ہنگامہ برپاکردیا، لیکن مرحوم ایک چٹان بنے اپنے مقام پرکھڑے رہے یہاں تک کہ انقلاب فکروسخن کی موجیں ان سے ٹکرائیں اوربالآخر راستہ کاٹ کر ان سے دامن بچاکر نکل گئیں۔یہ سب کچھ اس لیے ہوسکا کہ مرحوم طرزقدیم کے حامل ہونے کے ساتھ وقت کے جدید تقاضوں سے بھی بے خبر نہ تھے اورقدیم وجدید میں ہم آہنگی پیداکرلینے کاان میں بڑااچھا سلیقہ تھا۔آخر عمر میں قویٰ ضعیف ہوگئے تھے لیکن پھر بھی تصنیف وتالیف اورشعری وادبی اصلاح و ارشاد کے کاموں میں برابر مصروف رہے۔ اس بنا پرانھوں نے جوقلمی ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے بلامبالغہ اس زمانہ کاکوئی ادیب اورشاعر اس میں اور قدرت کلام و جامعیت فن میں ان کاہمسروحریف نہیں ہوسکتا۔
قدرت کلام کایہ عالم تھا کہ چند سال ہوئے انھوں نے قرآن مجید کامنظوم ترجمہ کیا اورندوۃ المصنفین کے رفقا کوبربناے تعلق خاطرومودت قدیم دکھانے اوران سے رائے لینے کے لیے دہلی میں آکر تقریباً دوہفتے قیام کیا تومیں نے پہلی ہی ملاقات میں کہا کہ میں قرآن مجید کے منظوم ترجمہ کا حامی نہیں ہوں، میرے نزدیک ایسی کوشش نہ صرف غیر مفید بلکہ مضر اورگمراہ کن ہوسکتی ہے۔اس پر مرحوم نے کہا کہ آپ پہلے میراترجمہ پڑھ لیجیے اوراس کے بعد کوئی رائے قائم کیجیے۔ چنانچہ میں اس پررضامندہوگیااور روزانہ دو دو،تین تین گھنٹے نکال کر مرحوم کے ساتھ ہی میں نے ترجمہ ازاوّل تاآخر پڑھا۔اب میری حیرت کی انتہا نہ تھی جب میں نے دیکھا کہ ترجمہ بڑی حد تک اس قدر صاف اوررواں تھا کہ نظم اورنثر کا فرق ہی معلوم نہیں ہوتا تھا اوریہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ قید وزن وقافیہ کی وجہ سے کسی جگہ بھی کوئی لفظ آگے پیچھے ہویاکسی مناسب لفظ کی جگہ کوئی نامناسب لفظ رکھا گیا ہے۔ [فروری ۱۹۵۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...