Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا احسان اﷲ خاں تاجور نجیب آبادی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا احسان اﷲ خاں تاجور نجیب آبادی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338586

Access

Open/Free Access

Pages

55

مولانا احسان اﷲ خاں تاجورؔ نجیب آبادی
مولانا احسان اﷲ خاں تاجورؔ ۱۸۹۳ء میں نجیب آبادضلع بجنور میں پیدا ہوئے، روہیلہ افغانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ابتدائی تعلیم وطن میں ہوئی پھر دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر اسلامی علوم وفنون کی تکمیل کی۔ شعروشاعری اورلکھنے کاذوق فطری تھا چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی دارالعلوم دیوبند کے بلندپایہ علمی اوردینی رسالوں ’’القاسم‘‘ دوراوّل اور ’’الرشید‘‘میں ان کے مقالات نکلتے تھے۔ یہاں سے فارغ ہوکر وہ لاہور پہنچے اورسرعبدالقادر مرحوم ایسے مربی اورمشفق کے فیض صحبت وتوجہ نے ان کوایسا چمکایا کہ وہ جلدہی نہ صرف لاہور بلکہ شمالی ہندوستان کی علمی اورادبی محفلوں کی رونق وزینت بن گئے۔ وہ اردو کے بلند پایہ شاعر اور زبان کے ماہر و نقاد اور نامور ادیب کی حیثیت سے پنجاب کے اساتذۂ فن کی صف میں ایک نمایاں جگہ کے مالک ہوگئے۔ سینکڑوں نوجوان ان کے فیض صحبت وتعلیم سے اردو کے نامور ادیب وشاعر ہوئے۔ وہ زندہ دلان پنجاب کے ادبی اکھاڑہ میں ایک پہلوان کی حیثیت سے رہتے تھے۔
وہ جس طرح دوستوں کے ساتھ انتہائی خلیق وملنسار اورہمدرد تھے اسی طرح مخالفوں کو دنداں شکن جواب دینے میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔لاہور میں رہ کر انھوں نے دولت بھی پیداکی اورشہرت وناموری بھی حاصل کی۔ لیکن دیوبند میں چند سالہ قیام نے ان کے دل ودماغ پرایسے گہرے نقوش ثبت کردیے تھے کہ وہ نام کے ساتھ’’فاضل دیوبند‘‘بڑے فخر کے ساتھ لکھتے تھے اوردیوبند کے حضرات اکابر تواکابر معمولی منتسبینِ دارالعلوم پربھی جان چھڑکتے اوران سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ اگرچہ تصنیف وتالیف کے ذریعہ کوئی بڑا ذخیرہ انھوں نے یادگار نہیں چھوڑا ہے، تاہم’’انجمن ارباب علم پنجاب‘‘،’’اُردومرکز‘‘ایسے ادارے قائم کرکے اور’’ادبی دنیا‘‘اور’’شاہکار‘‘وغیرہ بلند پایہ رسالے نکال کر اور نوجوانوں میں صحیح اورشگفتہ ادبی وشعری ذوق پیداکرکے انھوں نے اردوزبان وادب کی جواہم خدمات انجام دی ہیں وہ عصر حاضر کے تاریخ ادب کابے شبہ روشن باب ہیں اورانھیں آسانی سے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
آج کل کے بعض کم ظرف اوربداصل وبدنہاد شاعروں نے شاعری کوایسا بدنام کیاہے کہ شاعری اوررندمشربی وآوارہ مزاجی دونوں لازم وملزوم سے بن گئے ہیں۔
سیمابؔ اورتاجورؔ دونوں نے اس فن شریف کے مرتبہ ووقار کوپوری طرح قایم رکھا، چنانچہ یہ دونوں حضرات ارباب فن ہونے کے ساتھ مشرقی آداب واطوار معاشرت کابھی مکمل نمونہ تھے شرافت ان کاجوہر اورپاک طینتی و مروت ان کی خُو تھی، فن ان کے دم سے نیک نام تھا اوریہ فن کے وقارپر دم دیتے اور اخلاقی حیثیت سے بھی فن کاوقار کم نہیں ہونے دیتے تھے۔آہ صد حیف کہ اردو کی شبستان گل بدامان کے یہ پرانے چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں اوران کی جگہ نئے چراغوں کوروشن کرنے کا سامان کاکال پڑرہاہے،جوجاتاہے اپنی جگہ بالکل خالی چھوڑ کرجاتاہے۔واحسرتا!
اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ
کہیں ڈھونڈے نہ پائیں گے یہ لوگ
حق تعالیٰ دونوں کی قبر ٹھنڈی رکھے اور مغفرت وبخشش کی نعمتوں اور رحمتوں سے سرفراز فرمائے۔
[فروری۱۹۵۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...