Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حسرت موہانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338587

Access

Open/Free Access

Pages

56

مولانا حسرتؔ موہانی
افسوس کہ آخر مولانا حسرت موہانی بھی چل بسے۔مولانا کی شخصیت کا پیکر دو چیزوں سے بنا تھاایک شعر وسخن اوردوسری سیاست۔سیاست اس پیکر کے ساتھ جسم کی نسبت رکھتی تھی، اس بناپر جب جسم مٹی میں ملاتوسیاست بھی فناہوگئی لیکن شعر و سخن اس پیکر کی روح تھی جو مرنے کے بعد باقی رہتی ہے اس لیے حسرت کی شاعری اب بھی زندہ ہے اورزندہ رہے گی۔
مرحوم سیاست میں کبھی ایک روش میں قایم نہیں رہے وہ کبھی کسی پارٹی میں شریک ہوئے کبھی کسی میں،ان کی سیاست کاآغاز کانگریس میں شرکت سے ہوا اور اس کاخاتمہ لیگ کے پُرجوش کارکن ہونے پر ہوگیا۔ان دونوں کی درمیانی مدت میں سیاسی اعتبار سے وہ کبھی کسی روپ میں نظر آئے اورکبھی کسی جامہ میں وہ دیکھے گئے لیکن ہرجگہ اورہرمقام پربیباک خلوص ان کا امتیازی وصف رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں سے وہ سیاسی اختلاف رائے رکھتے تھے وہ بھی ان کی قدر کرتے اور ان کا احترام ملحوظ رکھتے تھے، وہ خواہ کسی رنگ اورکسی بھیس میں ہوتے ان کا اندازِ قدالگ سے الگ پہچان لیا جاتاتھا۔ ملک کی جدوجہد آزادی میں ان کا اتنا بڑا حصہ ہے کہ اس جدوجہد کی کوئی تاریخ مرحوم کے شاندار تذکرہ کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی۔ ایک زمانہ تھا کہ حسرت کانام بچہ بچہ کی زبان پر تھا اورلوگ ان کے ایثار و قربانی،محنت وجفاکشی،برطانوی حکومت سے نفرت اور اس سلسلہ میں ان کی سخت ضداورہٹ کی داستانیں مزے لے لے کر اورجوش ومسرت کے ساتھ بیان کرتے تھے، لیکن مرحوم کے یہ وہ اوصاف وکمالات ہیں جن کو لوگوں نے خود ان کی زندگی میں ہی بھلا دیاتھا اوروہ آخر میں’’یوسف بے کارواں‘‘ہوکررہ گئے تھے۔
حسرت کی شاعری جوانمٹ اورزوال ناآشنا ہے اس کا اصل جوہر حسن تغزل ہے۔ انھوں نے اپنے تغزل میں میرؔکاسوزگداز، نسیمؔ کی سلاست و روانی اور جرأت ؔکی رنگینی وبے ساختگی ان تینوں کواس طرح سمو دیا تھا کہ ان کی ترکیب و امتزاج سے حسرت کی شاعری کا ایک نہایت حسین وجمیل اورلطیف ودلکش مرقع وجود میں آیا جو اپنے مخصوص رنگ کے اعتبار سے’’باہمہ‘‘بھی تھا اور’’بے ہمہ‘‘ بھی، جو تغزل کی روایات کہن کاآئینہ دار بھی تھا اورایک خاص قسم کی انفرادیت کا حامل بھی۔
اس شاعری کے خدوخال وہی پرانے تھے لیکن اس کے تیور سب سے انوکھے اورنرالے۔حسرت کے تغزل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا عشق فرضی، وہمی اورمحض خیالی نہیں ہے بلکہ وہ زندہ ومتحرک اورحقیقی وواقعی ہے۔ ان کی غزلیں پڑھ کریہ محسوس نہیں ہوتاکہ شاعر کادل حسن کے کسی ایسے ہیولیٰ کی زلف گرہ کااسیر ہوگیاہے جو صورت جسمیہ سے مجرد ہے اورجس کا اس عالم آب و گل میں کہیں وجودہی نہیں بلکہ یہ صاف نظرآتاہے کہ شاعر جس حسن وعشق کی محاکات کررہاہے وہ ہماری اسی دنیا کی مخلوق ہیں اور نہ صرف یہ کہ مخلوق ہیں بلکہ یہ بھی کہ ہم سے بہت قریب اورگویا کہ ہمارے پاس ہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ایک اہل دل ان کاکلام پڑھتا ہے توبے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ ؂
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس تغزل میں کہیں حسن سنجیدہ ہے اورمتین اورکہیں شوخ وبیباک،کبھی غرور وتمکنت سے آشنا اورکبھی عشق کی نالہ سامانیوں سے اداس وغمگین، کبھی غمزۂ پنہاں اورکبھی عشوۂ آشکار، کہیں شرم وحجاب اورخودداری وحیا آگینی اورکہیں جلوہ فروشی کی تمنا اورکرم پاشیوں کی آرزو۔ اس کے بالمقابل عشق کاعالم یہ ہے کہ کبھی انتہائی باادب وپُروقاراورکبھی سراپانیازوافتادگی، کسی جگہ محو تحیراورپھر کبھی التفات حسن سے حوصلہ پاکرگستاخ وشریر،کہیں ہجوم غم والم سے سربگربیاں اورکہیں نوید کامیابی سے انجم بداماں، پھر حسن و عشق میں جو رازو نیاز، چھیڑ چھاڑ، نوک جھونک، گلہ وشکوہ، عتاب ظاہر اور التفات ِپنہاں الزام آشکار اور انفعالِ نہاں کی باتیں ہوتی ہیں، حسرت نے ان سب کی محاکات اس طرح پُر کی ہے کہ آنکھوں میں نقشہ پھر جاتاہے ۔اُن کااگر کوئی قصورہے تویہ ہے کہ جو باتیں پس پردۂ خلوت کہنے کی ہوتی ہیں وہ انھوں نے سربزم کہہ ڈالی ہیں لیکن جہاں حسن کاعالم بقول غالب کے یہ ہو کہ ؂
ہیں کتنے بے حجاب جویوں ہیں حجاب میں
وہاں عشق کی کوئی ادائے نیاز مندی و عبودیت ہی کیوں حجاب میں رہے، شاعر اگر واعظ بن جائے توپھر وہ کم ازکم تغزل کاشاعر نہیں رہتا۔ بہرحال حسرت کے تغزل کی یہ ہی خصوصیت ہے جس نے ان کو’’تغزل کا شہنشاہ‘‘کہلایا اورکوئی شک نہیں کہ اس لقب کاجامہ ان کی شاعری کے قدوقامت پربالکل چست آتا تھا اور وہ اس کے بجاطورپر مستحق تھے۔
مرحوم ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے’’تسمع بالمعیدی خیر من ان تراہ‘‘ کامصداق تھے لیکن غالباً فیضِ تصورات جمال لطیف نے ان کو باطنی اور روحانی واخلاقی کمالات کاپیکر بنا دیا تھا۔ شاعر، فن کار اوراردو زبان وادب کے نقاد و مبصر ہونے کے علاوہ وہ غیر معمولی کردار اورکیرکٹر کے انسان تھے۔نہایت سادہ، حلیم و بردبار پُرجوش کارکن اور مخلص اپنی بات کے پکے اوردھن کے پورے۔ہرحالت میں جری اورنڈر، تصوف اورطریقت کے رنگ میں غرق، مذہب کے دلدادہ و فریفتہ،حسن مجازی کے گن گاتے۔ حسن مطلق کے ساتھ ان کی والہانہ فریفتگی کایہ عالم تھا کہ اس حسن کی جلوہ گاہ کی خاک چھاننے کے لیے بار بار حرمین شریفین پہنچتے تھے، اس طرح مرحوم نے غالباً سولہ حج کیے تھے۔حق تعالیٰ ان کو مغفرت ورحمت کی گوناگوں نوازشوں سے سرفرازفرمائے کہ ان کی یہ ساری نیکیاں اورریاضتیں صرف اسی ایک امید اورتمنا کے سہارے پرتھیں۔
[جون۱۹۵۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...