Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > لیاقت علی خان [وزیراعظم پاکستان ]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

لیاقت علی خان [وزیراعظم پاکستان ]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338588

Access

Open/Free Access

Pages

57

لیاقت علی خان
ماہ گزشتہ میں یہ خبر ہند اورپاکستان میں خصوصاًاوردوسرے ملکوں میں عموماً نہایت دکھ اوررنج کے ساتھ سنی گئی کہ پاکستان کے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان ۱۶/اکتوبر کی شام کو چاربجے کے قریب راولپنڈی میں ایک عظیم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے بڑی سفاکی اوربے دردی کے ساتھ شہید کردیے گئے۔انا اﷲ واناالیہ راجعون۔
بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کی طبعی صلاحیتیں اورفطری خوبیاں کوئی مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گوشۂ خمول وگمنامی میں پڑی سوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ عمر کا ایک طویل حصہ اسی طرح بسر ہوجاتاہے لیکن پھریکایک کوئی مناسب ماحول پیداہوتاہے اور ان صلاحیتوں کے ظہور و بروئے کار آنے کے مواقع پیداہوتے ہیں اوروہ ہی شخص جسے کم آدمی جانتے تھے ایک روز صبح کو اٹھتا ہے توفضا اس کی شہرت وناموری کی داستانوں سے معمور نظر آتی ہے۔شہید مرحوم بھی اسی قسم کی ایک عظیم شخصیت کے انسان تھے۔ وہ یوپی کے ضلع مظفر نگر کے ایک معمولی سے قصبے میں پیداہوئے، الٰہ آباد اورعلی گڑھ میں تعلیم پانے کے بعد ولایت چلے گئے، وہاں سے آکر اگرچہ وہ نوکری بڑی سی بڑی کرسکتے تھے لیکن ان کی طبیعت کواس سے میل نہ تھا۔قوم کی خدمت کاجذبہ شروع سے ہی رکھتے تھے لیکن مزاج میں انقلاب پسندی اورہنگامہ آفرینی بالکل نہ تھی، اس لیے حصول آزادی کی ان تحریکوں سے الگ رہے جن سے وابستگی حکومت وقت کے خلاف غیرقانونی بغاوت وسرکشی کے ہم معنی سمجھی جاتی تھی اورآئینی طریقہ پر ملک اورقوم کی خدمت کی راہ پرگامزن ہوگئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں وہ ایک طرف آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس سے وابستہ رہے اوردوسری طرف یوپی کونسل میں قومی نقطہ خیال کی وضاحت وترجمانی کرتے رہے، اس حیثیت سے ان کی شہرت یوپی کے ایک مخصوص تعلیم یافتہ طبقہ کے دائرہ میں محدود رہی جس میں وہ نواب زادہ کے لقب سے معروف تھے۔ اس کے بعدانھوں نے بہت ترقی کی توایک طرف مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے اور دوسری جانب آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوگئے۔اس زمانہ میں اگرچہ ان کی شہرت یوپی کے حدود سے گزر کر دور دور تک پہنچی لیکن واقعہ یہ ہے کہ عوام کے دلوں میں اُن کی عظمت کااب بھی ایساگہرا احساس نہیں تھا جووالہانہ گرویدگی اوربزرگی کابیساختہ اعتراف پیدا کردیتاہے۔
۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو ایشیاء کی سرزمین میں ایک نئی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی اورنواب زادہ اس کے پہلے وزیراعظم مقررہوئے تواب وقت آیا کہ ان کی اصل طبعی صلاحیتیں ابھریں اورقدرت نے ان میں ایک سنجیدہ فکر سیاسی مدبّر بننے کی جو اہلیت رکھی تھی وہ ظہور میں آئے۔چنانچہ قیام ریاست سے لے کر شہادت کے وقت تک یعنی کل چارسال کی مدت میں انھوں نے اپنی عمدہ اورجبلی صلاحیتوں کاجو عملی ثبوت دیا اس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ سخت طوفانی اورحوصلہ شکن موجوں میں بھی اپنی کشتی کوسنبھالے رکھنے میں کامیاب ہوسکے۔ انھیں عوام کا ایسا اعتماد حاصل تھا کہ جوبڑے بڑے سیاسی لیڈر اورپرانے کارکن نہیں کرسکتے تھے وہ آسانی سے اسے انجام دے سکتے تھے۔اگرچہ سیاست کی وقتی مجبوریوں کے باعث تقریروتحریر میں کبھی کبھی ان کا لہجہ گرم اورتیز ہوجاتاتھا لیکن طبعاً وہ ٹھنڈے دل ودماغ کے انسان تھے۔قدم احتیاط سے اٹھاتے تھے مگر جب ایک مرتبہ اٹھا لیتے تھے توپھراسے واپس نہیں لیتے تھے۔ ان کے کیریکٹر کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ شدید اشتعال کی حالت میں بھی وہ اپنے دماغی توازن کے شیرازہ کودرہم برہم نہیں ہونے دیتے تھے اور افکار وآلام کے ہجوم میں بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ اوراطمینان کی کیفیت کھیلتی رہتی تھی۔ زیادہ لمبی چوڑی تقریروں اورجلد جلد اخباری بیانات دینے کے ماہر نہیں تھے،حاضر جوابی کے ساتھ رکھ رکھاؤ اور ظرافت کے ساتھ معنی خیزی ان کی ذہانت اور حاضر دماغی کی دلیل تھی۔ پرائیویٹ زندگی میں وہ کیسے ہی بے تکلف اوریارِشاطر ہوں لیکن پبلک لائف میں اپنے آپ کو لیے دیے رکھنا ان کی طبیعت کا جوہر تھا۔
اس زمانے میں جب کہ پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں اور سیاسی وجغرافیائی حدبندیوں کے باجود سمٹ سمٹا کر مثل ایک خاندان یا قبیلہ کے ہوگئی ہے، مرحوم لیاقت علی خان ایسے صلح پسند اورٹھنڈے دماغ کے بلند پایہ سیاسی لیڈر کادفعتہ انتقال کرجانا صرف پاکستان کا نقصان نہیں اورجن حالات کے باعث یہ انتہائی درد انگیز اورناگوار واقعہ پیش آیاہے وہ صرف اس ریاست کے لیے بے حدتشویش انگیز نہیں بلکہ یہ نقصان پورے براعظم ایشیاکا نقصان ہے اور اسی طرح یہ صورتِ حال اس براعظم کے ہر ملک اوریہاں کی ہر ریاست کے لیے بے حد تشویش انگیز ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پورے ایشیا اورخاص طورپرہند میں اس واقعہ نے رنج اوردکھ کے ساتھ اضطراب وتشویش کی لہر دوڑادی ہے اورتھوڑی دیر کے لیے یہ محسوس ہوتاہے کہ تصادم افکار وخیالات کے باعث فضا میں جو تلاطم تھا وہ پُرسکون سا ہوگیاہے۔
فلسفۂ تاریخ کا یہ بھی ایک عجیب نکتہ ہے کہ جب کسی ملک یاقوم میں فتنۂ و فساد کے عناصر اقتدارِغالب کے مالک ہوجاتے ہیں اورخیر کی طاقتیں ان کے مقابلہ سے عاجز آجاتی ہیں تواب اگر قدرت کواس ملک یاقوم کاقائم رکھنا منظور ہوتاہے تووہ کسی مردِ حق آگاہ وحق پسند کوکھڑا کردیتی ہے اوروہ اپنے خون کے قطروں سے شروفساد کے ان عناصر کی آگ کوبجھانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ چنانچہ کربلا میں جو کچھ ہوااس کے تکوینی اسباب کاجائزہ لینے کے بعد یہ صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ اس وقت ملوکیت نے خلافت کوختم کرکے اسلام کے لیے جو عظیم خطرہ پیداکردیا تھا، قدرت کے ازلی قانون کے مطابق اس کے دفع کرنے کی صورت بجز اس کے کوئی اورنہ تھی کہ اس عہد کی سب سے زیادہ گراں مایہ و بلند پایہ جان کوبھینٹ چڑھادیاجائے اورظاہرہے کہ ایک جگر گوشۂ رسول سے زیادہ اور کس کی جان اس وقت زیادہ قیمتی اورگراں مرتبت ہوسکتی تھی۔مرحوم محمد علی جوہر نے اسی حقیقت کوکس بلاغت سے بیان کیاہے:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
Aاسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلا کے بعد
/پھر ابھی تقریباً چار سال پہلے سب نے دیکھا ہماراملک مذہبی جنون اور فرقہ وارانہ تنگ نظری ودرندگی کی آگ میں چاروں طرف سے کس طرح پھنس کررہ گیاتھا کہ حکومت تک اس پرقابو پانے میں ناکامیاب رہی تھی لیکن چونکہ قدرت کو اس ملک کابقا منظور تھا اس لیے اس نے گاندھی جی کی شکل میں اس ملک کی سب سے زیادہ گراں قدر زندگی کو اس آگ کے شعلوں کے نذرکردیا، جس کا نتیجہ ہرایک کے سامنے ہے کہ ایسا ہوتے ہی شر و فساد کے دیوتاؤں کی پیشانی پرپسینہ ساآگیا اورانھوں نے شرما کرجھٹ اپنی تلواریں میان میں کرلیں۔ مرحوم لیاقت علی خاں کاقتل بھی کچھ اسی نوع کے حالات وواقعات میں ہواہے، مغلوب الجذباتیت کے باعث پاکستان میں جویک بیک نہایت شدید قسم کی بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی غالباً اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوسکتے تھے، اگر اس ملک کی اس متاع عزیزکو قدرت کی طرف سے اپنی نقدِجان پیش کرنے کی دعوت نہ دی جاتی۔چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مطلع پرشک وشبہ،بے اعتمادی و جذبات پروری کے جوبادل چھا گئے تھے وہ کچھ چھٹ سے گئے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نیند کے ماتے کوجھنجھوڑ کراچانک خواب سے بیدار اورغفلت سے ہوشیار کردیا گیاہے،قرآن مجید کاارشاد :وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ [البقرہ:۲۱۶] اسی حقیقت کی طرف رہبری کرتاہے۔ پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قدرت کی طرف سے اس طرح کی نازل کی ہوئی عبرتوں اور تنبیہوں سے سبق لیتے ہیں اور اپنے کردار و فکر میں تبدیلی پیداکرکے عدل و انصاف اورسچائی کے راستے پرگامزن ہوجاتے ہیں۔
ہم کواپنے بھائیوں کے اس صدمۂ جاں کاہ میں ان کے ساتھ دلی ہمدردی ہے اوردعاہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم شہید کو مغفرت وبخشش کی نعمتوں اوررحمتوں سے سرفراز فرمائے اورجوامانت وہ قوم کے سپرد کرگئے ہیں وہ ہربلا کی چشم زخم سے محفوظ رہ کر ایک صالح اور عدل پرور سوسائٹی کے پیداکرنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ این دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد۔ [نومبرا۱۹۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...