Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا یعقوب الرحمن عثمانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا یعقوب الرحمن عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338591

Access

Open/Free Access

Pages

59

مولانا یعقوب الرحمن عثمانی
افسوس ہے کہ ہماری بزم احباب کی ایک شمع دل فروز اٹھ گئی یعنی مولانا یعقوب الرحمن صاحب عثمانی نے ۵۴ سال کی عمر میں ۱۰/فروری کواپنے وطن دیوبند میں انتقال کیا۔مرحوم دیوبند کے عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اوراس تقریب سے مولانا مفتی عزیز الرحمن اورحضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھتیجے تھے۔ ذہانت وفطانت ان کا خاندانی ورثہ اورعلم وادب کے ساتھ لگاؤ ان کا آبائی ترکہ تھا۔ اسلامی علوم وفنون کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں کی اورہمیشہ اپنی جماعت میں ممتاز رہے۔ فراغت کے بعد دوایک سال یہیں معین المدرس رہے اور پھر حیدرآباد چلے گئے، جہاں پہلے عرصہ تک ورنگل کالج میں پروفیسر رہے اور اس کے بعد جامعہ عثمانیہ میں شعبۂ دینیات کے استاذہوگئے۔ آخرایک سال ہوا کہ یہیں سے پنشن لے کر وطن مالوف میں آبسے۔ عمائد دارالعلوم دیوبند نے مرحوم کی اہلیتوں اورصلاحیتوں کے پیش نظران کو جمعیۃ طلبائے دارالعلوم کانگراں کار مقرر کردیا۔اس عہدہ پرکام کرتے ہوئے ابھی چندماہ ہی ہوئے تھے کہ اجل کا پیام آپہنچا۔
قدرت نے مرحوم کوگوناگوں صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نوازا تھا، حسن تقریر وخطابت کاجوہر ان میں فطری تھا اورطالب علمی کے دور میں بھی مسلسل مشق وتمرین کے ذریعہ انھوں نے اس میں اتنا کمال پیدا کرلیا تھا کہ تحریک خلافت کے سلسلہ میں ملک کے مختلف گوشوں میں جو جلسے ہوتے تھے ان میں دارالعلوم دیوبند کے نمایندہ کی حیثیت سے شرکت کرتے اور حاضرین سے حسن خطابت کی داد لیتے تھے۔ اردو میں شعر بھی کہتے تھے، تصنیف وتالیف کاذوق بھی رکھتے تھے، نئی معلومات کوخوش اسلوبی کے ساتھ پیش کرنے کا بہت اچھا سلیقہ تھا۔ کلام اقبال کے والہ وشیداتھے اورحیدرآباد کے زمانۂ قیام میں بعض خاص خاص ارباب ذوق طلبا اورغیر طلبا کوباقاعدہ اس کا درس بھی دیتے تھے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید کے ساتھ مرحوم کوبڑاشغف تھا۔ مختلف تفسیریں ہمیشہ ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں اور خودبھی اکثرقرآنی حقائق پرغورو فکر کرتے اوران کا مذاکرہ رکھتے تھے! اسی شغف کانتیجہ تھا کہ فرائض ملازمت کے علاوہ پرائیویٹ طریقہ سے محلہ کی مسجد میں قرآن مجید کادرس دیتے تھے۔ دیوبند آنے کے بعد ان کی صحت بہت مضمحل ہوگئی تھی لیکن یہاں بھی پابندی اوربڑے ذوق شوق کے ساتھ انھوں نے اس مشغلۂ مقدسہ کوجاری رکھا۔ درس کی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ محلہ اور آس پاس کے مسلمانوں مرد اور عورتیں بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے اور فیض حاصل کرتے تھے۔غالباً ان کا پروگرام قرآن مجید کی ایک مکمل تفسیر لکھنے بھی تھا اور اس کے لیے انھوں نے دیوبند میں ایک مستقل ادارہ قایم بھی کیا تھا اوراس سلسلہ میں’فیض الرحمن‘ کے نام سے ایک کتاب شایع بھی کر چکے تھے، جس پر مختلف اخبارات اور رسائل میں بہت اچھا اظہار رائے کیا گیاہے۔
اخلاق وعادات کے لحاظ سے وہ ایک گلِ سدابہار تھے، اخلاص ووفا کاپیکر اور محبت ومروت کی تصویر تھے، دوستوں کی محفل کی رونق اورچشم آشناؤں کی بزم کی زینت تھے۔ سانولا سلونا رنگ، متوسط قدو قامت، بڑی بڑی اور خمار آگیں آنکھیں، خندہ جبیں ولعل شکرین۔ جس سے جو تعلق اور ربط تھا اسے دم کے ساتھ نباہتے تھے۔ باتیں کرتے توپھول جھڑتے تھے، کسی مسئلہ پرتقریر کرتے توموتی بکھرتے، ہربات میں ایک آن اورہرآن میں ایک نئی شان تھی، مزاج میں لطافت اورطبیعت میں نفاست پسندی تھی، خوش خوراک وخوش لباس تھے۔ معاشی زندگی کے امروز میں فکر فردا سے بے نیاز رہتے تھے اوراس اعتبار سے وہ ہو بہو اس شعر کے مصداق تھے:
غمِ زندگی، رمِ زندگی، سمِ زندگی، دمِ زندگی
غمِ دم نہ کر سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری!!
اوریہی وجہ ہے کہ عمر بھر متوسط درجہ کی خوشحال زندگی بسر کرنے کے باوجود اب وہ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تواس طرح کہ ان کی بیوہ اوران کے بچوں کے لیے بہ ظاہر کوئی وسیلہ معاش نہیں ہے۔ حق تعالیٰ ان کوجنت الفردوس میں صلحاوابرار کامقام جلیل عطافرمائے اوراپنی کریمی و رحیمی کے طفیل پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق اور ان کی مشکلات کوآسان فرمائے۔آمین [مارچ۱۹۵۲ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...