Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > ڈاکٹر ابرار حسین [والد ماجد سعید احمد اکبرآبادی]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر ابرار حسین [والد ماجد سعید احمد اکبرآبادی]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338593

Access

Open/Free Access

Pages

60

ڈاکٹر ابرار حسین
قارئین برہان کویہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنائی جارہی ہے کہ پچھلے مہینے جولائی کی بارہ تاریخ کودوپہر کے قریب برہان کے مدیراعلیٰ برادر عزیز مولانا سعید احمد کے والد ماجد جناب ڈاکٹر ابرار حسین صاحب قبلہ مراد آباد میں رحلت فرماگئے۔انا ﷲ وانالیہ راجعون۔
مرحوم نہ صرف یہ کہ ایک کامیاب اورنامور ڈاکٹر تھے بلکہ بہت سے غیر معمولی اوصاف کی وجہ سے اکابر کی یادگار سمجھے جاتے تھے۔ مولانا سعید احمد کے تعلق سے وہ مجھے بھی اپنی اولاد کی طرح جانتے تھے اوراس تقریب سے مجھے بہت قریب سے ان کی زندگی کوپڑھنے کوموقع ملا، اوّل درجے کے متبع شریعت، راسخ العقیدہ ، فرائض وواجبات ہی کے نہیں مستحبات وآداب تک کے پابند،بڑے فرض شناس اورعاشق رسول۔انقلاب ۴۷ء اوردہلی چھوڑ دینے کے بعد بھی تین چار دفعہ یہاں تشریف لائے،پیرانہ سالی اورانتہائی نقاہت کے باوجود اسی پہلی سی آن بان کے ساتھ پابند اوقات،ان کی خدمت میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتاتھا کہ اباجی ؒکے پاس بیٹھا ہوا ہوں اُسی انداز کی محبت، اُسی طرح کی بزرگانہ شفقتیں، ان کودیکھ کر قلب میں عجیب طرح کاسکون محسوس ہوتاتھا،ہرضروری بات میں مجھ سے مشورہ لیتے اور اس کوغیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔مرحوم کی زندہ جاوید یادگار خود ان کے اکلوتے صاحبزادے مولانا سعید احمد ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کے فیوض کو تا دیر قائم رکھے اور ایسی لائق وفائق اولاد ہرمسلمان کونصیب ہو۔
میں نے جناب ڈاکٹر صاحب قبلہ مرحوم کے ضروری حالاتِ زندگی معلوم کرنے کے لیے برادر عزیز کوخط لکھا،جواب میں ان کی جوتحریر آئی ہے اس کے اقتباسات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔
’’ابا کی پیدائش بچھرایوں میں ہوئی، والد کا نام حکیم غلام نیاز تھا جو مرادآباد ضلع کے مشہور طبیب تھے۔ مڈل پاس کرکے نواب حسن پور کے ہاں اتالیق ہوگئے۔ مگر کچھ دنوں بعد خیال آیا کہ اس طرح زندگی گزارنا توشیوۂ مردانگی نہیں ہے، اس لیے والد،والدہ اورسب گھروالوں کی مرضی کے خلاف چپکے سے آگرہ آگئے اورآگرہ میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا۔ چونکہ گھروالوں کوخبر نہیں کی تھی اس لیے ٹیوشن کرکے اپنے ذاتی اورتعلیم کے اخراجات پورے کرتے تھے۔ چارسال اسی حالت میں گزرانے کے بعد جب ڈاکٹری کی ڈگری مل گئی توگھر والوں کو اطلاع کی۔شروع ایام ملازمت میں منگلور، ہردوئی،جھانسی اوراعظم گڑھ میں رہے۔آخر آگرہ کے لوہامنڈی کے شفاخانہ میں ملازم ہوکرایسے جمے کہ یہاں پچیس سال ملازمت کرنے کے بعد ۱۹۲۵ء میں ریٹائرڈ ہوگئے۔
منگلور کے زمانۂ قیام میں قاضی عبدالغنی صاحب مرحوم سے بیعت ہوئے، علمائے دیوبند کے نام کے عاشق تھے۔علی الخصوص حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت مولانا نانوتوی سے بے حد محبت تھی اورحضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒ، حضرت میاں اصغر حسین صاحب، مولانا حبیب الرحمن صاحب اور حضرت مولانا سید محمد انورشاہ صاحب سے گہرے مراسم تھے۔دیوبند کے مشہور جلسہ دستاربندی میں بڑے ذوق شوق سے شریک ہوئے اورمولوی عبدالرحیم پشاوری،جو دورہ میں فرسٹ آئے تھے ان کوکچھ روپیہ نقد اورصحیح بخاری کی دونوں جلدیں اپنی طرف سے دی تھیں۔ ان کی دینداری اورنیکی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آگرہ کے کامیاب اورمشہور ڈاکٹر ہونے کے باوجود مجھ کو انگریزی کے بجائے عربی پڑھائی اورعالم بنایا، حالانکہ اس پر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اورآگرہ میں ان کا مشہور پتہ یہی تھا کہ وہ ڈاکٹر جنہوں نے اس زمانہ میں اپنے لڑکے کوعربی پڑھائی ہے لیکن انہوں نے اس کی ذرہ پروا نہیں کی اور میری عربی تعلیم پروہی خرچ کیا جووہ میری انگریزی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ کرسکتے تھے۔اس کی اہمیت اس وقت اوربڑھ جاتی ہے کہ مجھ سے پہلے ابا کے ایک لڑکا اورایک لڑکی پیداہوئے تھے، جن کانوعمری میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسلسل سترہ سال تک ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی یہاں تک کہ انہوں نے ترک ملازمت اورہجرت کا قصد کرلیا۔مگر جب قاضی صاحب مرحوم کو اس کی اطلاع ہوئی توانہوں نے منع لکھ بھیجا اورساتھ ہی خوشخبری دی کہ ان کے ہاں لڑکا ہوگا۔چنانچہ اس بشارت کے چند سال بعد ۸ء[۱۹۰۸ء] کے رمضان کی ۷/ تاریخ کوصبح صادق کے وقت میں پیداہوا توولادت سے دوگھنٹہ قبل ابا نے حضرت مولانا گنگوہی اورحضرت مولانا نانوتوی کوخواب میں دیکھا کہ لوہا منڈی کے شفاخانہ میں تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر! لڑکامبارک! اس کا نام سعید رکھنا۔‘‘چنانچہ ابا نے اس ارشاد کی تعمیل کی اوراسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں بچہ کو دیوبند بھیج کر عالم بناؤں گا۔غرض کہ ایک معزز سرکاری عہدہ پرفائز ہونے، معقول آمدنی رکھنے اورآگرہ شہر کے خاص ماحول میں رہنے کے باوجود انھوں نے اپنے اکلوتے لڑکے کوعربی کی تعلیم دلائی۔آمدنی کافی تھی مگر پس انداز کچھ نہیں کرتے تھے۔دوست احباب کہتے کہ کوئی جائیداد خرید لیجیے۔توفرماتے کہ اگر یہ لڑکا عالم باعمل ہوگیا توبس یہی میری جائیداد ہے جو آخرت میں بھی کام آئے گی اوراگر میں نے جائیداد خرید بھی لی مگر لڑکا صالح نہیں ہواتو پھر جائیداد میرے لیے عذاب جہنم ہوجائے گی۔
نماز باجماعت،روزہ اور اورادوظائف کے سخت پابند تھے۔اب سے تین چارسال پہلے تک جب کہ وہ بے حد کمزور ہوگئے تھے، تہجد اوراشراق تک کی نماز پابندی سے پڑھتے تھے۔بقرعید کے دنوں میں کئی کئی بکرے کرتے اورصدقات و خیرات بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔کنبہ پروری،مہمان نوازی اورغریبوں کی مدد ان کا شعارتھا۔حج خود کیااوراپنی بیوی اوراولاد کوکرایا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور اہل مدینہ کے ساتھ انہیں فطری محبت تھی۔اہل مدینہ کے لیے ہرسال کچھ رقم بھیجتے تھے۔خود بہت سادہ رہتے تھے، درویش صفت،اورفقر منش طبیعت پائی تھی۔ بیٹے کے ساتھ ان کو محبت نہیں عشق تھا، بات بات پر دعائیں دیتے اوربلائیں لیتے تھے اوراب بھی وہی معاملہ کرتے تھے جوایک باپ اپنے دوبرس کے بچے کے ساتھ کرتا ہے۔تصوف کاخاص ذوق تھااوراس فن کے مسائل پرعالمانہ گفتگو کرتے تھے۔بحیثیت ڈاکٹر اپنے فن میں نہایت کامیاب اوردور دور تک مشہور تھے۔قدرت نے دستِ شفا عطا فرمایاتھا، نبض دیکھتے ہی مرض کی پوری کیفیت فوراً معلوم کرلیتے تھے اورمریض کے کچھ بغیر ہی بتائے سب حالات وعوارض بیان کردیتے تھے۔‘‘
کم وبیش ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی۔قاضی ظہور الحسن صاحب ناظم سیوہاری نے قطعہ تاریخ وفات کہا:
ابرار حسین آنکہ بہ سالک طریقت
?بہ سینہ اش منور از نور پاک ایزد
;رحلت چوکردناگہ بودم بفکر سالش
;آمدند از غیبم مغفور پاک ایزد
۱۳۷۱ھ
[ اگست ۱۹۵۲ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...