Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مفتی محمد کفایت اﷲ دہلوی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مفتی محمد کفایت اﷲ دہلوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338594

Access

Open/Free Access

Pages

62

آہ مفتی اعظم ہند!
[ مفتی محمد کفایت اﷲ دہلوی]
واحسرتا!۳۱/دسمبر۱۹۵۲ء کو شب کے ساڑھے دس بجے یعنی ٹھیک اس وقت جبکہ ایک سال شمسی اپنی حیات ِدوازدہ ماہ کی مقررہ مدت پوری کرکے ہمیشہ کے لیے گوشۂ عدم میں آسودۂ سکون ہوجانے کی تیاری کررہاتھا علم وعمل کے آسمان کاایک آفتاب عالم تاب غروب ہوگیا۔یعنی حضرتنا الاستاذ مولانا الحاج المفتی محمد کفایت اﷲ دہلوی نے اسّی (۸۰) سال کی لگ بھگ عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ کرجان جان آفریں کے سپرد کی!انا ﷲ واناالیہ راجعون۔
حضرت مفتی صاحب کا وجود گرامی اپنی چند درچند علمی وعملی خوبیوں اور گوناگوں دماغی واخلاقی کمالات کے باعث صرف ہندوستان اورپاکستان کانہیں بلکہ پورے عالم اسلام کاایک متاع گرانمایہ اورسرمایہ بلند پایہ تھا کہ آج اس کے اُٹھ جانے پرجتنا بھی ماتم اوراُس پر جتنا بھی افسوس کیاجائے کم ہے۔حضرت مولانا خودجلیل القدر بزرگ اوربزرگوں کی یادگار تھے، انہیں دیکھ کر اوراُن کی صحبت میں دوچار لمحے گزار کرسلف صالحین کی یادتازہ ہوتی تھی۔قدرت نے اُن میں دل اور دماغ دونوں کی خوبیاں اوران کے فضائل وکمالات کچھ اس طرح بیک وقت جمع کردیے تھے کہ اُن کی ہستی’’اے تومجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم‘‘کا مصداق بن گئی تھی۔ وہ ایک طرف بہت بڑے عالم،مفسر،محدث اورفقہیہ تھے تو دوسری جانب علوم عربیہ کے جامع تھے اور ان میں بہت ٹھوس استعداد رکھتے تھے۔ پھر معاملات میں سوجھ بوجھ اورسیاسی ودنیوی امور ومسائل میں ان کی فرزانگی ودانشمندی کایہ عالم تھا کہ جس طرح علما کی بزم کے وہ صدرنشیں تھے اسی طرح ارباب سیاست وتدبیر کی محفل میں بھی اپنامقام خاص رکھتے تھے ’’جوبات کہتے تھے‘‘اورجو لفظ اُن کے قلم سے نکلتا تھاوہ اس قدرجچا تلااور نپانپایا ہوتا تھا کہ کسی بڑے سے بڑے نکتہ چیں کے لیے بھی اُس پر حرف گیری آسان نہ تھی۔ یوں تو اﷲ تعالیٰ نے آں مرحوم کوسب ہی علوم اسلامیہ میں غیر معمولی درک و بصیرت اورفہم وفراست عطافرمائی تھی۔تاہم آپ کااصل طغرائے امتیاز تفقہ فی الدین تھا۔بڑے سے بڑا پیچیدہ مسئلہ ان کے سامنے آتا تھا اوروہ قرآن وحدیث اور احکام فقہ کی روشنی میں اس کا صحیح حل اس طرح علیٰ وجہ البصیرت معلوم کرلیتے تھے کہ پھرکسی کے لیے اس کا خلاف کرنا آسان نہیں ہوتاتھا۔یہی وہ صفت تھی جس کے باعث ملت بیضاء نے ان کو مفتی اعظم کاخطاب دیا تھااوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس خطاب کاجامہ ان کے تفقہ کے قامت موزوں پربالکل چست آتا تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت مفتی صاحب کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ کافی غور و خوض اورتفکروتدبر کے بعد کسی نتیجہ پرپہنچتے تھے اوراس تفکر کے وقت مسئلہ کاکوئی پہلو ایسا نہیں ہوتاتھا جوان کی نظرتوجہ سے اوجھل رہ گیا ہواور پھران کافیصلہ ایسا اٹل اورمستحکم ہوتاتھا کہ اس کو بدلوا دینا ممکن نہ تھا۔اس حیثیت سے وہ بلاشبہ اسرار و غوامض شریعت کے بڑے محرم اوراحکام وتعلیمات اسلام کے ایک دیدہ ورنباض تھے۔ ان کے فتاویٰ مختصر مگر نہایت جامع اورمدلل ہوتے تھے۔وہ عام ارباب افتا کی طرح اپنی تحریروں میں کتب فقہ کی طول طویل عبارتوں اورمختلف اقوالِ ائمہ کے نقل کرنے کے عادی نہ تھے مگر جتنا کچھ لکھتے تھے مسئلہ کی اصل روح اوراس کے اصل مغزکاحامل ہوتاتھا۔ اسی بناپر۱۹۲۶ء میں مکہ معظمہ کی موتمر عالم اسلام میں جمعیۃ علما ہند کے صدر وفد کی حیثیت سے انہوں نے شرکت کی اوراس کے بعد قاہرہ کی موتمر میں تشریف لے گئے توہرجگہ حجازومصر اورعالم اسلام کے دوسرے ملکوں کے علما و فضلا نے آپ کے غیر معمولی تفقہ فی الدین اور اصابتِ رائے کو تسلیم کیا اور آپ کی علمی عظمت و برتری کا اعلانیہ اعتراف کیا۔ قاہرہ کے دورانِ قیام میں آپ کی علمی سیادت کا اعتراف اس سے بڑھ کراور کیا ہوسکتا تھا کہ شیخ جامعہ ازہر علامہ مراغی جو اپنے عہدہ کی حیثیت سے شاہ مصر کے محل میں جانے کے علاوہ اور کسی مکان پر جا نہیں سکتے تھے، حضرت مفتی صاحب کی مزاج پرسی کے لیے دو مرتبہ آپ کی قیام گاہ پر تشریف لائے، نہ صرف علمائے مصر بلکہ پوری مصری قوم کی طرف سے یہ سب سے بڑا خراجِ عقیدت تھا جو عالمِ اسلام کی کسی عظیم المرتبت ہستی کو پیش کیا جاسکتا تھا۔
حضرت مفتی صاحب طبعاً نہایت ٹھنڈے دماغ، سنجیدہ فکر، متین طبیعت اور مرنج و مرنجان مزاج کے بزرگ تھے۔ ہنگامہ آفرینی یا انقلاب پسندی سے ان کی طبیعت کو کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی تاریخ ِ جدوجہد آزادی کے نہایت نازک دور میں جمعیۃ علماء ہند کے پہلے صدر کی حیثیت سے جب انہوں نے ایک نہایت اہم اور بھاری ذمہ داری اپنے سر لی تو اب وقت آیا کہ ان کی قوت عمل اور کیرکٹر کی پوشیدہ خوبیاں بروئے کار آئیں۔ چنانچہ کانگریس کی تحریکِ آزادی اور جمعیۃ علماء ہند کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے اس تمام مدت میں جس تدبر، فراست، عزم و ہمت، استقلال و پامردی اور راہِ حق میں بے خوفی و بے باکی کا ثبوت دیا ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا تھا کہ ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند۔‘‘
حضرت مفتی صاحب کو اگر رئیس العلماء یا امیر العلماء کہا جائے تو ایسا کہنا صورۃً و معنی ً، ظا ہراً و باطناً، دونوں طرح بالکل موزوں ہوگا۔ کیوں کہ وہ جس طرح علم و فضل کے اعتبار سے سرخیلِ علماء تھے۔ معاشی خوشحالی اور مالی رفاہیت کے لحاظ سے بھی علما میں انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ انہوں نے ایک کتب خانہ قائم کرکے خود اپنی قوت بازو سے دولت پیدا کی۔ پھر ان کی کتاب ’تعلیم الاسلام‘ کے مختلف حصے گھر گھر اس قدر مقبول ہوئے کہ اب تک لاکھوں کی تعداد میں ان کی اشاعت ہوچکی ہے اور ان کے ذریعہ ہزاروں روپیہ کا ان کو فائدہ ہوا۔ اس مالی رفاہیت اور معاشی فارغ البالی کے باعث وہ نہایت خودداری اور حد درجہ رکھ رکھاؤ کے ساتھ رہتے تھے۔ خرچ کرنے کے موقع پر بے دریغ خرچ کرتے تھے اور اس معاملہ میں بھی ان کا ہاتھ ہمیشہ اونچا اورارباب تموّل کی امداد سے بے نیاز ومستغنی رہتا تھا۔
مجموعی حیثیت سے حضرت مفتی صاحب کاسب سے بڑا جوہر ِکمال یہ تھا کہ انہوں نے قدرت کی بخشی ہوئی ظاہری اورباطنی صلاحیتوں کواپنی خاص توجہ اور محنت سے اس طرح ابھارا اورانہیں پروان چڑھا کر اپنی شخصیت کی تعمیر اس انداز سے کی تھی کہ علم وفضل کے علاوہ وہ اندرون خانہ اور بیرون خانہ زندگی کے کسی کام میں عاجز اورتہی مایہ نہ تھے۔انہوں نے ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اپنی دنیا آپ پیدا کی تھی، جو دینی حیثیت سے جس طرح مکمل تھی دنیوی حیثیت سے بھی کہیں سے تشنہ اورخام نہیں تھی۔چنانچہ گوناگوں علمی و عملی اورروحانی ومعنوی کمالات وفضائل کے علاوہ وہ اعلیٰ درجہ کے خطاط بھی تھے اورخیاط بھی۔ایک بہترین انجینئر بھی تھے اورطباخ بھی،خوش لباس و خوش غذا تھے اور ورزشی جسم رکھتے تھے۔ملتان جیل میں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا توچندروز کی مشق میں ہی سب ساتھیوں پربازی لے گئے۔حساب دانی میں مشکل سے کوئی عالم اُن کا حریف ہوسکتا تھا۔کبھی کبھی عربی،فارسی اوراردو میں شعر بھی کہتے تھے، بات چونکہ جچی تلی کہنے کے خوگر تھے اس بنا پر ان کی تقریر اگرچہ پُرمغزاورمدلل ہوتی تھی لیکن ہنگامہ آفریں اورولولہ انگیز نہیں ہوتی تھی۔بزم احباب میں ایک بذلہ سنج مگر با وقار ومتین یار شاطر اور ارباب معاملہ کی مجلس میں ایک غائر النظر مدبر و مفکر تھے۔ اس حیثیت سے سے ان کی زندگی بے شبہ علوم دینیہ کے علماوطلبا کے لیے ایک کامیاب نمونۂ عمل اوراس بات کی شہادت تھی کہ علوم عربیہ واسلامیہ کاایک بوریہ نشین طالب علم اگرچاہے اورکوشش کرے توقوم کے عطیات اورچندوں سے، سرکاری ملازمت وغیرہ کی غلامی سے بے نیاز ہوکراپنی دنیوی زندگی بھی ایک معیاری اورخوشحال زندگی بنا سکتاہے۔
صدحیف!کہ اب یہ بزرگ صورتیں۔یہ علم وعمل کی جیتی جاگتی شکلیں، اسلام کی دیرینہ روایات کی حامل وعلمبردار یہ شخصیتیں، اپنوں اورپرایوں کاغم کھانے والی اوربنی نوع انسان کی ہمدرد و غم گساریہ ہستیاں روزبروز عنقا ہوتی جارہی ہیں اورایک وقت آئے گا کہ لوگ ان صورتوں کے دیکھنے کوترسیں گے۔ بطنِ ارضی کاخزانہ سے ان سے مالا مال ہوگا لیکن مادرگیتی کی کوک ان سے خالی ہوگی۔ آئندہ نسلیں تاریخ کے صفحات میں ان کے تذکرے پڑھیں گی لیکن ظہر ارض پر ان کی سی ایک صورت وسیرت بھی نہ ملے گی۔اللھم اغفرہ وارحمہ رحمۃ واسعۃ وامطرعلیہ شآبیب لطفک السنی وکرمک الھی تامۃً وکاملۃً ۔ [جنوری۱۹۵۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...