Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

حاجی شیخ رشید احمد
Authors

ARI Id

1676046603252_54338595

Access

Open/Free Access

Pages

64

آہ! حاجی شیخ رشید احمد صاحب مرحوم
۱۹۵۲ء جس کو ’’عام الحزن‘‘کہنا چاہیے اس کی ابتدا بردار مکرم مولانا یعقوب الرحمن عثمانی کی وفات کے سانحۂ المناک سے ہوئی اورانتہا حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ قدس سرہ کے حادثۂ ارتحال پر، اسی سال برادر عزیز مولانا سعید احمد کے والد ماجد قبلہ ڈاکٹر ابرار حسین صاحب، محب باصفا حافظ ضیاء الدین صاحب مدیر ندائے حرم، قرول باغ کے غمگسار پڑوسی چودھری محمد بخش صاحب اور بچپن کے بے تکلف ساتھی قاری محمد طاہر صاحب ناظم دارالصنائع دارالعلوم دیوبند رخصت ہوئے، یہاں تک کہ ۲دسمبر کی درمیانی شب میں مخدومی حاجی شیخ رشید احمد صاحب کی بھی رحلت کاحادثہ پیش آگیا۔
حاجی صاحب سے میرے اورمیرے بزرگوں کے تعلقات نہایت ہی قدیم اورنہایت ہی مخلصانہ تھے، کم وبیش۴۵سال سے شرفِ نیاز حاصل تھا، مسرت وغم کے ہرموقع پرایک دوسرے کے شریک رہتے تھے۔
ابھی کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے جب مارچ۱۹۱۸ء میں بزرگان میرٹھ کایہ قافلہ بڑے اہتمام وشوق سے میرے نکاح میں شریک ہونے کے لیے دیوبند آیا تھا۔اسی کایہ اثر ہواکہ ۳۵ سال کے بعد جب گذشتہ۲۹/۲۸نومبر کوبرخوردار مجیب الرحمن کی تقریب شادی ہوئی تواس وقت جوبزرگ خاص طورپر یاد آئے اورجن کے شریک نہ ہونے کاقلب پرخاص اثر ہوااُن میں ایک حاجی صاحب مرحوم ومغفور بھی تھے، انسان کی بے خبری وبے بسی کابھی کیاعالم ہے اور اس دنیا کی عجوبہ کاریوں کا بھی کیاٹھکانا ہے کہ ہم دیوبند میں تقریب کے انتظامات میں لگے ہوئے تھے اورحاجی صاحب مرحوم ملاء اعلیٰ کے لیے رخت سفر باندھ رہے تھے۔ ’’فیالِلْاَسف‘‘
مرحوم شروع میں الہٰی بخش اینڈ کمپنی میرٹھ میں ایک ملازم کی حیثیت سے آئے تھے پھر اپنی غیر معمولی قابلیت،محنت اوردیانت شعاری کی بدولت جلد ہی کمپنی کے شریکِ منفعت ہوگئے اور پھرچند سال کے بعدایک باوفا اورباوقار شریک کی حیثیت سے الہٰی بخش اینڈکو دہلی کے کاروبار کے نگران اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کی بہترین نگرانی میں حافظ فصیح الدین صاحب مرحوم کی اس تاریخی فرم نے جلد جلد ترقی کی منزلیں طے کیں اوراس کا شمار دہلی کی چوٹی کی فرموں میں ہونے لگا۔
حاجی صاحب کوقدرت نے جن گوناگوں صلاحیتوں اورقابلیتوں سے نوازا تھا قدرتی طورپراس کانتیجہ یہ ہوا کہ کاروبار کی مشغولیتوں کے ساتھ ساتھ قومی اور ملّی کاموں میں بھی زبردست حصہ لینے لگے اور چند ہی سال میں دہلی کی شہری زندگی کے مختلف گوشوں پرچھا گئے، شہر کے سب سے بڑے سماجی ادارے میونسپل بورڈ میں ان کی خدمات نہایت نمایاں رہتی تھیں اوراس کے طریق کار میں ان کی رائے کابڑادخل ہوتاتھا، چونکہ اوّل درجے کے راسخ العقیدہ اورپابند اوقات مسلمان تھے دنیوی خدمتوں کے ساتھ علم دین کی خدمت بھی بڑے شوق اور ولولے سے کرتے تھے۔ سالہاسال حضرت مفتی محمد کفایت اﷲ صاحب کے ساتھ مدرسہ عالیہ فتح پوری کے مہتمم رہے اورمدرسہ کے تمام شعبے بڑی قابلیت سے چلائے، دہلی پنجابی مسلم ہائی اسکول اورفتح پوری مسلم ہائی اسکول کے برسوں سربراہِ کار رہے، مدرسہ سہارنپور کے سرپرست خصوصی اوردارالعلوم دیوبند کے مجلس شوریٰ کے سرگرم اوربیدار دماغ رکن تھے۔ بڑے صاحب خیرتھے اور اچھے کام میں کھلے دل سے حصّہ لیتے تھے، وضع داری کے پیکر،ذی مروت، بااخلاق، کشادہ دماغ و کشادہ جبین، رونق محفل اور بہار چمن۔
ندوۃ المصنفین سے خاص علاقہ رکھتے تھے اوراس کی خدمات کی سنجیدگی اوراہمیت کاقولی ہی نہیں عملی اعتراف کیا کرتے تھے۔۱۹۴۷ء میں دہلی کی بہارلٹی تو یہ سروِ گلستان بھی چٹاگانگ کی رونق بنااور اسی شان اورآن بان کے ساتھ زندگی بسر کی، یہاں کی طرح وہاں بھی تمام دینی اوردنیوی مشاغل میں منہمک رہے، وہی سرکاری مناصب، وہی مدارس دینی کی دیکھ بھال، وہی اعمالِ صالحہ کی جستجو، وہی شوق ِحج وزیارت اوروہی کاروباری شغف۔آخری ملاقات۱۹۴۹ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی تھی اورآخری مکتوب’’جامع المجددین‘‘پرتنقید کے سلسلہ میں آیا تھا جس کی سطر سطر محبت واخلاص کے پھولوں میں بسی ہوئی تھی۔رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً۔
خاتمہ بھی ایسا ہواکہ ہرمسلمان کواس کی دعاکرنی چاہیے، اس سلسلہ میں مرحوم کے منجھلے صاحبزادے اورمیرے مخلص دوست بردارم حاجی شیخ انیس احمد صاحب کے ایک طویل خط کی آخریں سطریں سننے کے لائق ہیں: ’’یکم دسمبر کی صبح فرمانے لگے کہ اب توآپریشن بھی ہوگیا مواد بھی خارج ہوگیا۔ڈاکٹر جو کچھ کرسکتے تھے کرلیا بخار پھر بھی ہونے لگا تم لوگ مجھ کو میری حالت پرچھوڑ دو جوحق تعالیٰ کو منظور ہوگا وہی ہوگا۔‘‘ اسی دن ڈاکٹر سمیع الدین صاحب کو جوبہت متقی، پرہیزگار اورصوم صلوۃ کے پابند ہیں خاص طورپر بلایا اورفرمایا کہ:’’سب ڈاکٹروں نے کوششیں کرلی ہیں اب میں چاہتاہوں کہ آپ علاج کی ذمہ داری لے لیں اورجوکچھ بھی ہو آپ کے ہاتھوں میں ہو، اگراﷲ تعالیٰ کومنظور ہوگا تو آپ ہی کے ہاتھوں شفا ہوگی کیونکہ آپ ماشاء اﷲ متقی اور محتاط مسلمان ہیں۔‘‘ ۲ دسمبر (۱۲۔۱۳ربیع الاول)کی درمیانی شب میں حسب معمول صبح ۴ بجے اُٹھے ضروریات سے فارغ ہوکرتیمم کیا۔اسی وقت وہی ڈاکٹر صاحب انجکشن لگانے آئے تو فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب پانچ منٹ ٹھہرئیے۔میں نوافل سے فارغ ہوجاؤں تو انجکشن لگادیں، تہجد کے نوافل کے لیے نیت کی اوراسی حالت میں حرکت قلب بندہوگئی، میں ان کے پاس موجود تھا، ڈاکٹر صاحب کوآوازدی وہ دوڑے نبض کاپتہ نہ ملا۔قلب کودیکھا وہاں بھی کچھ نہ پایا۔ایک ہچکی آئی اورساتھ ہی کلمہ طیبہ کی آواز بھی۔اناﷲ واناالیہ راجعون ۔آناًفاناً سب کچھ ہوگیا ایک منٹ پہلے بھی وہم وگمان نہ تھا کہ اتنی جلدی ہم سے جدا ہورہے ہیں، انھیں ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں جان دی اور ان کی خواہش پوری ہوئی کہ’’ جو کچھ بھی ہو آپ ہی کے ہاتھوں ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بھی حیران رہ گئے کہ اتنی آسانی سے جان نکلتی ہوئی میں نے کسی کی نہیں دیکھی۔‘‘
اﷲ پاک حضرت قبلہ کواپنی خاص رحمتوں سے نوازیں، حضرت مرحوم برہان بڑی پابندی سے پڑھاکرتے تھے اورجب رسالہ کے آنے میں دیر لگ جاتی تھی تودریافت فرمایاکرتے تھے کہ اب تک رسالہ کیوں نہیں آیا۔برہان کی مطبوعات بھی برابر زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ [فروری۱۹۵۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...