1676046603252_54338596
Open/Free Access
65
آصف علی
افسوس ہے پچھلے چند گھنٹوں کے فصل سے ہندوستان کی عموماًاوردہلی کی خصوصاً دونامور ہستیوں نے اس دنیا کوخیرآباد کہا۔آصف علی مرحوم نے وطن سے بہت دور دیارغیر میں جان جان آفریں کوسپرد کی لیکن وطن کی خاک نے یہ کشش دکھائی کہ ان کی نعش ہوائی جہاز کے ذریعہ سوئٹزرلینڈ سے دہلی پہنچی اورشفیق الرحمن صاحب قدوائی اوروہ دونوں یہیں دفن ہوئے۔ سیاسی مسلک کے علاوہ دلّی کی خاص وضع داری اورشرافت، خوش اخلاقی اوروسعت ظرف وعالی حوصلگی کے اعتبار سے دونوں میں بہت کچھ مشابہت ومماثلت تھی تاہم ہر ایک کی چند خصوصیات تھیں جن کے باعث دونوں اپنا اپنا الگ مقام رکھتے تھے۔آصف صاحب نہایت ذہین انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کے خوش بیان مقرر اور ادیب تھے اوراردو زبان کے خوش گوشاعر بھی تھے، چنانچہ انجمن ترقی اردو ہند کے سہ ماہی رسالہ’ اردو‘کے ابتدائی دور میں ان کی بعض نظمیں شایع ہوئی تھیں۔ اردو طرز تحریر میں ان پر ٹیگوریت غالب تھی جس کاثبوت ان کی کتاب’ پرچھائیں‘ سے ملتاہے ۔تحریک آزادی کے زمانہ میں ان کاشمار صف اوّل کے کانگریسیوں میں رہا۔ آزادی حاصل ہونے کے بعد وہ امریکہ میں ہندوستان کے سفیر رہے پھر اڑیسہ کے گورنر بنادیے گئے اوراب آخر میں سوئٹزرلینڈمیں اپنے ملک کی سفارت کی خدمات انجام دے رہے تھے کہ اسی عہدہ پرداعی اجل کولبیک کہا ـع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
[مئی۱۹۵۳ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |