Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سید سلیمان ندوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338599

Access

Open/Free Access

Pages

66

مولانا سید سلیمان ندوی
مولاناسید سلیمان ندوی طبقۂ علما میں وسیع النظر عالم،محققین میں بلند پایہ محقق اورمصنفین میں ایک گرامی مرتبت مصنف تھے، وہ جس طرح قدیم تعلیم یافتہ گروہ کے اکابر میں شمار ہوتے تھے اسی طرح تعلیم جدید کے طبقہ میں بھی اُن کو بڑا وقار اورمرتبہ حاصل تھا۔ندوۃ العلما سے فارغ ہونے کے بعد مولانا شبلی جو مردم شناسی اورجوہر قابل کی قدردانی میں ایک خاص امتیاز رکھتے تھے، اُن کے فیضان تعلیم وتربیت نے مولانا سید سلیمان ندوی کواستاد کاجانشین بنادیا۔ اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے جانشینی کا حق جس خوبی سے اداکیاہے کسی شاگرد نے کم کیا ہوگا۔انھوں نے سیرۃ النبی کے نام سے، جیسا کہ وہ خود فرماتے تھے، درحقیقت اسلام کی ایک نہایت مستند،مفصل اورمبسوط انسائیکلوپیڈیا لکھی۔قرآن مجید کے تاریخی وجغرافیائی مباحث پران کی کتاب ’ارض القرآن‘ اس موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔’’عرب وہند کے تعلقات‘‘،’’عربوں کی جہاز رانی‘‘ اور’’ عمرخیام‘‘ پراُنھوں نے جو دادتحقیق دی ہے، وہ اُن کی قبائے علم وفضل کاتکمۂ زریں ہے۔مستقل بلندپایہ تصنیفات کے علاوہ مختلف تاریخی، مذہبی، ادبی اور لسانی وتنقیدی مباحث پراُن کے قلم سے وقتاً فوقتاً جو مقالات یاچھوٹے چھوٹے رسالے نکلتے رہے ہیں وہ ان مباحث کے طلبا اورعلما کے لیے شمع راہ کاکام عرصہ تک دیتے رہیں گے۔ ان ذاتی علمی وتحقیقی کارناموں کے علاوہ آں مرحوم کا سب سے بڑااورشاندار کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے دارالمصنفین میں اپنے فیض تعلیم وتربیت سے ارباب قلم علما کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جس کے تصنیفی کارناموں کی بدولت اسلامی تاریخ،اسلامی علوم وفنون اوراسلامی ادبیات کاایک گراں قدر ذخیرہ بڑی خوبی اورعمدگی کے ساتھ اردو زبان میں منتقل ہوچکاہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔مولانا مرحوم نے اس حیثیت سے اردو زبان کی خصوصاً اور اسلامی علوم وفنون کی عموماً وہ شاندار خدمات انجام دی ہیں جن پراردو زبان و ادب کوبجاطورپر فخر ہوسکتا ہے اورجوبہت سے ممالک اسلامیہ کے لیے لائق رشک ہے۔مولانا کی تصنیفی زبان اردو تھی اُنھوں نے خود جوکچھ لکھا اسی زبان میں لکھا لیکن اُن کی تصنیفات وتالیفات اوراُن کے علم وفضل کی شہرت دوسرے ممالک میں بھی پہنچی اوروہ حجاز،مصر،ایران،ترکی اورافغانستان میں بھی بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
ادھر کم وبیش پندرہ سال سے جب وہ حضرت مولانا تھانویؒ کے دامان ارشاد و ہدایت سے وابستہ ہوئے تھے، تصنیف وتالیف کے بجائے تصفیۂ نفس اور تزکیۂ باطن کی طرف توجہ زیادہ ہوگئی تھی اوراس میں اس درجہ غلو ہوگیا تھا کہ اعمال و وظائف باطنی کے علاوہ وہ خود اپنے عمربھر کے کارناموں کو غیروقیع سمجھنے لگے تھے۔ بہرحال اُن کے کارنامے علم و تحقیق کی دنیا میں ایک مستقل مقام رکھتے ہیں اور اُن کی افادیت مسلم ہے۔
مولانا مرحوم کی یہ خصوصیت بھی لائق ذکرہے کہ خالص علمی اور تحقیقی کام کے ساتھ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی تعلیمی اورسیاسی تحریکات میں بھی برابر کے شریک رہے۔جلسوں میں صدارت کرتے تھے، تقریریں کرتے تھے اور ان تمام معاملات میں عملی شرکت کرتے تھے۔اخلاق و عادات کے لحاظ سے منکسر المزاج،خوش طبع اوربذلہ سنج تھے۔بہت دھیمی آواز میں چھوٹے چھوٹے فقرے جو بعض صنعت ایہام کے حامل ہوتے تھے بولنے کے عادی تھے۔ مولانا کی وفات سے جو خلا پیداہوگیا ہے اُس کاپُرہونا آسان نہیں۔اﷲ تعالیٰ دین وعلم کے اس مخلص خادم کوجنت الفردوس میں مقام جلیل عطافرمائے۔آمین۔
[دسمبر۱۹۵۳ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...