Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا الحاج عبدالرحمن
Authors

ARI Id

1676046603252_54338602

Access

Open/Free Access

Pages

67

شمس العلماء مولانا الحاج عبدالرحمن
ارباب علم وادب کے حلقہ میں یہ خبر بھی افسوس اوررنج کے ساتھ سنی جائے گی کہ بروزجمعہ ۳۰/جولائی کوصبح چاربجے شمس العلماء مولانا الحاج عبدالرحمن سابق صدر شعبۂ عربی وفارسی دہلی یونیورسٹی نے کراچی میں وفات پائی۔ مولانا تقسیم سے کچھ پہلے سے گوشہ نشین ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ورنہ ایک زمانہ میں ان کی بڑی شہرت تھی اورادارۂ معارف اسلامیہ اور اورینٹیل کانفرنس وغیرہ علمی انجمنوں کے جلسوں میں ان کے مقالات کی دھوم ہوتی تھی۔ طرزقدیم کے تعلیم یافتہ تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اوّل لاہور میں کوئی معمولی ملازمت کی اوروہیں کے قیام کے زمانہ میں’’پیسہ اخبار‘‘کے لیے مقدمہ ابن خلدون کااردو ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ کوشایع ہوئے کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ دہلی کے سینٹ اسٹیفنس کالج میں عربی لیکچرر کی جگہ خالی ہوئی۔مولانا نے یہ سمجھ کر کہ اس جگہ پرکسی ایم۔اے کا ہی تقرر ہوگا خود کوئی درخواست نہیں بھیجی۔لیکن مولانا کے ایک دوست نے ازخود مولانا کی طرف سے درخواست لکھ کردلّی روانہ کردی اوردرخواست کے ساتھ مقدمہ ابن خلدون کے اردو ترجمہ کاایک نسخہ بھی منسلک کردیااس کے بعد کالج کی انتخابی کمیٹی کاجلسہ ہوا تواس کے ایک ممبر مولوی نذیر احمد دہلوی مرحوم بھی تھے، ظاہر ہے کہ ترجمہ ابن خلدون کاقدردان مولوی صاحب سے بڑھ کراور کون ہوسکتا تھا۔انھوں نے جب اس کودیکھا توپھڑک گئے اورکمیٹی سے کہا کہ اگرچہ امیدواروں میں بڑے بڑے ایم۔اے اورپی ایچ۔ ڈی ہیں لیکن عبدالرحمن کوکوئی نہیں پہنچتا۔ آخر مولوی نذیر احمد مرحوم کی رائے پرہی فیصلہ ہوگیا۔اب مولانا کو لاہور میں اچانک تقررنامہ ملاتوسخت حیرت زدہ ہوئے بعدمیں ان کو اصل واقعہ کی پوری صورت حال کا علم ہوا۔بہرحال مولانا یہاں تشریف لے لائے اورآخر تقریباً تیس سال کی ملازمت کے بعد ۱۹۳۹ء میں کالج سے بڑی عزت وناموری کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
مولانا اگرچہ کالج میں عربی اورفارسی کے لیکچرر تھے اورکالج کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد دہلی یونیورسٹی میں اس شعبہ کے صدر بھی رہے۔لیکن ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے عہدکے بڑے نامور مورخ اورمحقق بھی تھے چنانچہ عربی فارسی کے ساتھ سالوں تک تاریخ میں ایم۔اے کلاس کو مغلیہ دور حکومت پرلیکچر دیتے رہے۔مولانا کے یہ لیکچر اس قدر پراز معلومات، محققانہ اور بصیرت افروز ہوتے تھے کہ کالج کے پرنسپل اورتاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر اسپیر بھی کبھی کبھی لیکچر سننے آتے تھے۔ اس کے علاوہ کالج کے جو طلبا تاریخ میں پی ایچ۔ ڈی کرنے کے لیے کیمبرج یا آکسفورڈ یونیورسٹی جاتے تھے وہ بھی وہاں سے برابر مولانا سے خط وکتابت کے ذریعہ علمی استفادہ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مولاناکے ایک تلمیذ خاص ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی حال وزیر تعلیم پاکستان گورنمنٹ نے اپنی مشہور کتاب ’’دہلی سلطنت‘‘ میں اس کابڑی شکرگزاری کے ساتھ تذکرہ بھی کیاہے۔کسی بحث کے متعلق وہ کوئی رائے بڑی تحقیق وتدقیق اور کامل غور وخوض کے بعد قایم کرتے تھے مگر جب ایک رائے قایم کرلیتے تھے تو پھر کوئی شخص ان کواس رائے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ عربی شعر وادب اوراسلامی تاریخ پربھی بڑی گہری اور دقیقہ رس نگاہ رکھتے تھے۔ ۱۹۲۹ء میں لندن کی اورینٹیل کانفرنس میں دہلی یونیورسٹی کے نمایندہ کی حیثیت سے شرکت کی اور پروفیسر مارگولیوتھ کے بالمقابل ’’شعرِ جاہلی‘‘ پرعربی زبان میں ایسا شاندار اور محققانہ مقالہ پڑھا کہ خود مارگولیوتھ نے اس کی داد دی اور جب مولانا لندن سے واپسی میں چندروز کے لیے مصر میں قیام فرماہوئے تومولانا کویہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ان کے پہنچنے سے قبل ان کے مقالہ کی شہرت مصر پہنچ چکی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹر طہٰ حسین خود مولانا سے ملنے ان کے ہوٹل میں آئے اورڈنر پر مدعو کیا اورمصر کے اخبارات ورسائل نے بھی مولانا کے فوٹو کے ساتھ ان کے مقالہ کے بعض اجزا شایع کیے۔ مولانا مصر سے حجاز مقدس گئے اوروہاں زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوکردہلی واپس آگئے۔
اردوزبان کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔چنانچہ مرحوم کی کتاب’’مرآۃ الشعر‘‘ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مولوی محمد حسین آزاداورمولوی نذیر احمد دونوں کے طرزانشاء نے مل جل کر مولانا عبدالرحمن مرحوم کے طرز نگارش کاروپ دھارا تھا۔جب ان کی کتاب ’’مرآۃ الشعر‘‘چھپی ہے تواردو زبان کی دنیائے شعر و ادب میں ایک بھونچال ساآگیا تھا اورملک کی ادبی فضا صدائے احسنت ومرحبا کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔
مولانا کے ساتھ راقم الحروف کے تعلق کاآغاز اگرچہ بحیثیت استادوشاگرد ہوا لیکن جلد ہی یہ تعلق فرزندی وپدری تعلق کی طرح مقدس، استوار اورپختہ ہوگیا اور الحمد ﷲ کہ ان کے آخری سانس تک رہا، اس لیے مولانا کے علمی وادبی کمالات اور اخلاق وشمائل پرایک مستقل مقالہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ سطور بالا کامقصد صرف اس حادثۂ فاجعہ کی اطلاع و اعلام ہے۔اﷲ تعالیٰ آں مرحوم کوجنت الفردوس میں مقام جلیل عطافرمائے اور ان کی قبر ٹھنڈی رکھے کہ یوں بھی بڑے متقی، متشرع، پابند وضع اورانتہائی بامروت وصاحب خلق عمیم انسان تھے۔ [ستمبر۱۹۵۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...