Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

رفیع احمد قدوائی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338603

Access

Open/Free Access

Pages

68

رفیع احمد قدوائی
تمام ملک میں بڑے رنج و اندوہ کے ساتھ سنا گیا کہ جناب رفیع احمد صاحب قدوائی نے اچانک ۲۴/اکتوبر کی شام کونئی دہلی میں وفات پائی۔بڑے آدمی،عام آدمیوں بلکہ ذی حیات کی طرح پیدا بھی ہوتے ہیں اورمرتے بھی ہیں اوران کا ماتم بھی کیاجاتاہے۔ لیکن قدوائی صاحب کامرنا ملک کے ہرطبقہ اورہرگروہ میں،مردوں اور عورتوں کو، بوڑھوں اورجوانوں کو ایسا محسوس ہواکہ گویا ان کاکوئی قریبی اوربہت ہی عزیز رشتہ دار ان سے باتیں کرتے کرتے اچانک ان سے ہمیشہ کے لیے جداہوگیاہے اوراب وہ پھر کبھی واپس نہیں ملے گا۔ سبب یہ ہے کہ مرحوم اپنے دل ودماغ کی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے جتنے ایک بڑے انسان تھے اپنے حددرجہ خلوص،مسلسل خدمت اوربے لوث حب ِوطن کے باعث اتنے ہی ہردلعزیز بھی تھے۔وہ جس طرح جنگ آزادی کے میدان کے بہادر سپاہی تھے اسی طرح ایک بیدار مغز مدبر حکمراں بھی تھے۔دونوں حالتوں میں ان کے ہرعمل کامحرک ان کا جذبۂ خدمت ملک وقوم تھا وہ جس طرح ایک بہادر سپاہی کی حیثیت سے اپنے ذاتی عیش وآرام کے خیال سے کوسوں دور رہے اسی طرح وزارت پرفائز ہونے کے بعد وہ راحت وتن آسانی کے تصور سے ناآشنا وبیگانہ تھے۔ ان کی زندگی سرتاسر عمل اور حرکت تھی۔ بولتے کم تھے اورکام زیادہ کرتے تھے۔صاف دماغی اوربے تعصبی کے ساتھ ہرمسئلہ پرغور کرتے تھے اور آخرجب کسی نتیجہ پرپہنچ جاتے تھے توعمل کی اپنی پوری طاقتوں اورصلاحیتوں کے ساتھ اسے کرڈالنے پر تل جاتے تھے۔ملک کے سب سے پیچیدہ مسئلہ خوراک کوانھوں نے جس کامیابی کے ساتھ حل کردیا وہ اس ملک کی تاریخ مابعد آزادی میں یادگار رہے گا۔اس کارنامہ کودیکھ کر سیاسیات واقتصادیات کے ہر طالب علم کومحسوس کرنا چاہیے کہ کسی ملک کی بڑی سے بڑی گتھی کوسلجھانے کے لیے افلاطون وارسطو کی عقل اتنی درکار نہیں جتنی کہ قدوائی کاخلوص،بے غرضی، دیانت، جدوجہد اورحوصلہ مندی ہے۔
ایک انسان کا کیرکٹر اوراس کی اخلاقی عظمت حقیقتاً اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے حریفوں اوردشمنوں کے ساتھ کوئی معاملہ کرتاہے ورنہ دوست کے ساتھ لطف وکرم کابرتاؤ توہرشخص کرتاہی ہے۔ قدوائی صاحب کی سیرت و شخصیت کوجب اس معیار پرپرکھا جاتاہے توصاف نظر آتاہے کہ وہ بے شبہ غیر معمولی حوصلہ وظرف کے انسان تھے۔ان کی حیات سیاسی کاہر لمحہ جنگ وپیکار میں بسر ہوا۔لیکن اقتدار حاصل ہونے کے بعد وہ اپنے کسی دشمن سے انتقام تو کیا لیتے اپنے اثرواقتدار سے وہ اس کو جو فائدہ پہنچ سکتے تھے انھوں نے اس میں کبھی بھی کوئی دریغ نہیں کیا۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جواپنی زندگی میں اپنے چاروں طرف مخالفتوں اورنکتہ چینیوں کاہجوم رکھتے ہیں لیکن جوں ہی ان کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوتی ہے ان کے بڑے سے بڑے دشمنوں کی بھی آنکھیں بے ساختہ نم ناک واشک فشاں ہوجاتی ہیں۔قدوائی مرحوم دراصل اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے۔۱۹۴۷ء میں مہینوں تک ان کامکان مسلمان پناہ گزینوں کا ایک اچھا خاصاکیمپ بنا رہا جہاں ڈیڑھ سو دوسو آدمی روزانہ دونوں وقت ان کے دسترخوان پرہوتے تھے اورعلاوہ کھانے کے دوسری اشیاء ضروریہ بھی پاتے تھے۔ ان میں خاصی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جوچند روزپہلے تک مرحوم کے شدید ترین نکتہ چینوں اورسخت مخالفوں میں سے تھے لیکن کیا مجال کہ مرحوم کی روش یا ان کے طرزمعاملہ سے کہیں کسی جگہ بھی موافق ومخالف،اوردوست دشمن کافرق محسوس ہوسکے۔
اس میں شبہ نہیں کہ قدوائی صاحب کاواقعۂ مرگ ناگہانی ملک کے لیے ایک بڑاالمناک اور ناقابل تلافی حادثہ ہے۔ لیکن اگر دنیا کاہرحادثہ اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اس سے عبرت ونصیحت حاصل کریں تو اس حادثۂ غم فزا سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کوعبرت پذیر ہونا چاہیے۔
ہندوؤں کومحسوس کرنا چاہییے کہ وطن پرستی، قوم پروری اورخدمت ِملک کسی خاص فرقہ یامذہب کااجارہ نہیں ہے اورنہ وہ کسی ایک گروہ یاجماعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ بلکہ شرافت اورنیکی کی طرح یہ صرف قدرت کافیض ہے جس کو چاہے بخش دے اورجس کوچاہے اس سے محروم کردے۔ قدرت کی کرشمہ سازی دیکھیے انھیں پانچ چھ برسوں میں اس نے کس طرح اس حقیقت کوعملاً واضح اور نمایاں کردیا ہے کہ ہندو اگروطن دشمنی پراُتر آئے تو وہ گوڈ سے بن سکتاہے اوراس کے برخلاف اگر مسلمان وطن دوستی اورقوم پروری پرآمادہ ہوجائے تووہ رفیع احمد قدوائی ہوسکتاہے۔ اس سے معلوم ہواکہ وطن دوستی اورقوم پروری کا معیار ’’مذہب‘‘ ہرگزقرار نہیں دیاجاسکتا۔
اسی طرح جن مسلمانوں کوبعض اوقات فرقہ پرستی کے تکلیف دہ مظاہر دیکھ کر دل شکستگی اورمایوسی ہوتی ہے انھیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں قابلیت ،عمل اور مخلصانہ خدمتِ انسانیت، یہ تین ایسے اوصاف وکمالات ہیں کہ ہرمخالفت اور دشمنی، ہرتعصب اورتنگ نظری پرآخر غالب اورفاتح ہوکر رہتے ہیں۔ سونا اگرواقعی سونا ہے توعقل کااندھا کب تک اسے پیتل کہہ کرٹھکراسکتاہے، دنیا میں صرف اخلاقی طاقت ہی ایک ایسا حربہ ہے کہ جودشمن تلوار سے فتح نہیں ہوسکتے ان کی گردنیں بھی اس طاقت کے سامنے خم ہوجاتی ہیں۔
رفیع احمد قدوائی، اﷲ تعالیٰ ان کومغفرت وبخشش کی دولت ونعمت سے سرفراز فرمائے۔ ان کی موت سے اگر ہندواورمسلمان دونوں یہ سبق لے سکے توکہا جاسکتاہے کہ ان کی موت بھی ملک و قوم کی مضبوط وپائیدار تعمیر وترقی میں بڑا کام کرگئی اورواقعہ بھی یہ ہی ہے کہ ایک بڑے انسان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح بے اثرو بے نتیجہ نہیں رہتی۔ [نومبر۱۹۵۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...