Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد اعزاز علی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338606

Access

Open/Free Access

Pages

70

آہ! الا ستاذ الاجل
۸؍مارچ کے اخبار الجمعیۃ میں جب یہ خبر نظر سے گزری کہ حضرت الاستاذ مولانا محمد اعزازعلی صاحب پرقلب کادورہ پڑگیا اوراس کی وجہ سے کچھ بے ہوشی رہی اوراب تھوڑی تھوڑی دیرکے بعد دورے پڑرہے ہیں تواسی وقت ماتھا ٹھنکا کہ خدا خیرکرے۔چٹان جب گرتی ہے تو مٹی کے تودہ کی طرح رِس رِس کے نہیں اچانک ہی گرتی ہے۔چنانچہ دوسرے دن کااخبار آیاتو دل کے دغدغہ کی تصدیق ہوگئی اور جس خبرِوحشت اثر کوسننے کے لیے کان تیار نہ تھے اس کایقین کرنا پڑا۔ یعنی حضرت الاستاذ راہی ملک بقا ہوگئے۔اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
دارالعلوم دیوبند شروع سے معدنِ لعل وگہر رہا ہے۔کتنے ہی ذرے اس کی آغوش میں پلے اور بڑھے اورعلم وفضل کے آسمان پرآفتاب بن کر چمکے، کتنے چاند اورستارے اس کے آسمان پرطلوع ہوئے اوراپنی اپنی روشنی دکھا کراسی دارالعلوم کے دامن میں روپوش ہوگئے، کیسے کیسے گُہر ہائے آبدار اس کی خاکِ پاک سے اٹھے اورعلم وعمل، تقوی وطہارت اورزہد و ورع کی بزم قدس کوجگمگاکر پھرخاکِ لحد میں جاملے ۔آج وہ نہیں ہیں لیکن ان کی یادگاریں باقی ہیں خودان کا وجود فنا ہوگیا لیکن ان کے کارنامے زندہ ہیں اور وہ گویا خود زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں:
تلک آثارنا تدل علینا

فانظر وا بعدنا الی الآثار
دارالعلوم دیوبند اگر شاندار عمارتوں ،درسگاہوں،اقامت خانوں اور وسیع و فراخ دروازوں اور اونچی اونچی دیواروں کانام نہیں بلکہ درحقیقت وہ انھیں نفوسِ قدسیہ کاایک پیکرِ محسوس اور انھیں ارواحِ طیبہ کاایک مظہرِ مادی وجسمانی ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ حضرت الاستاذ اس عمارت کے ایک اہم ستون اوراس بزمِ انس و قدس کے ایک لعلِ شب چراغ تھے۔گزشتہ نصف صدی میں اس درسگاہ کوتعلیم و تعلم کے اعتبارسے جوشہرت وعظمت حاصل رہی ہے اس میں ایک بڑا حصہ حضرت مرحوم کاتھا۔
مولانا مرحوم علم وعمل، اخلاق وفضائل اور مکارم وشمائل کے لحاظ سے محاسن و محامد کاایک گلدستۂ صدرنگ تھے۔لیکن آپ کاسب سے بڑا نمایاں وصف وامتیاز جس میں کوئی ہم عصر شریک نہیں ہوسکتا تھا وہ یہ تھاکہ آپ ’’مثالی استاد‘‘ تھے۔ وقت کی پابندی کایہ عالم نہ کہیں دیکھا نہ سنا کہ گھنٹہ ابھی بجا ہی ہے کہ مولانا درس گاہ میں موجود ہیں۔نہ ایک منٹ ادھر نہ ایک منٹ اُدھر۔ پھر جب تک درس گاہ میں ہیں کیامجال کہ سوائے درس کے کوئی دوسری بات یاکوئی اورکام تو کرلیں، مسلسل پانچ پانچ اور چھ چھ گھنٹے سبق پڑھارہے ہیں اور باضابطگی وباقاعدگی کی کیفیت یہ ہے کہ نہ ایک سبق کے گھنٹہ کاتداخل دوسرے سبق کے گھنٹہ میں ہوتا ہے، نہ نشست بدلتی ہے، نہ ٹیک لگاتے ہیں ،نہ پان ہے نہ پانی ،نہ ادھر ادھر کی کوئی بات، طالب علم نے عبارت پڑھی اور تقریر شروع ہوگئی۔عبارت پڑھنے میں اگر طالب علم نے غلطی کی ہے یادوران تقریر میں وہ بے توجہی کرتے ہوئے پکڑ لیاگیا ہے توالبتہ درس کے ساتھ ساتھ دوچار کلمات زجرو توبیخ کے اور دوچار لفظ نصیحت و تعییر کے ضرور فرمادیے ہیں ۔گھنٹہ جونہی بجا اوراس کے بعد اب کوئی دوسرا سبق نہیں ہے توسیدھے کتاب اٹھا اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے، بظاہر دیکھنے میں ایسے خشک کہ درس کے درمیان شاید ہی کبھی کسی نے انھیں ہنستا دیکھا ہو، دیر آمیز اورکم آمیز اتنے کہ طالب علم کے ساتھ بے تکلف ہونا تو جانتے ہی نہ تھے۔لیکن درحقیقت بے حد شفیق اورحد درجہ غم گسار تھے،جس طالب علم کوشوقین، ذہین اور محنتی پاتے تھے دل وجان سے اس کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرتے تھے، خارج اوقات میں بھی اسے پڑھاتے ،چھٹی کے دن بھی درس دیتے، گویا ان کا بس نہ تھاکہ علم و فن کے نکات کسی طرح اسے گھول کرپلادیں۔ پھراپنے کام سے کام تھا نہ کسی سے کوئی غرض نہ واسطہ، نہ اِعزازکی آرزو، نہ زیادہ تنخواہ کی طلب، ہمیشہ درویشانہ اورفقیر انہ زندگی بسرکی، دن اور رات کاایک ایک لمحہ علم اور دین اور طلبا کی خدمت کے لیے وقف تھا۔درس وتدریس کی ذمہ داریوں کوخوب اچھی طرح سمجھتے تھے، کبھی بغیر مطالعہ کے درس نہیں دیا۔ درس کے علاوہ تصنیف و تالیف اورتحشیہ وتشریح کاکام بھی برابر کرتے رہتے تھے چنانچہ آج کون ایسا عربی کا طالب علم یااستاذہے جس نے دیوان متنبی اور دیوان حماسہ پرمولانا کے حواشی اوران کے مقدمات نہ پڑھے ہوں۔
مولانا کی شہرت کاآغازبحیثیت عربی زبان کے ادیب کے ہوا،مفردات پرغیر معمولی عبور تھا۔ علم معانی وبیان،عروض، صرف ونحو اورلغت یہ مولانا کے خاص فنون تھے۔دیوان حماسہ یامقامات حریری پڑھاتے وقت جب ان علوم کے مسائل پرتقریر کرتے تھے توایسا محسوس ہوتاتھا کہ ایک دریا ہے جواپنی موجیں چاروں طرف پھیلاتا ہوا امڈاچلاآرہا ہے اور جتنا وہ آگے بڑھتا ہے اس کی روانی اسی قدر تیز ہوتی جاتی ہے،بعد میں فقہ کی طرف توجہ کی اور مسند افتا کی ذمہ داری بھی آپ کے ہی سپرد ہوئی تواس میں بھی اپنا وہ رنگ دکھایا اور جمایا کہ شیخ الادب کی طرح شیخ الفقہ بھی ہوگئے۔ مولانا کادارالعلوم سے تدریسی تعلق کم وبیش نصف صدی رہا،اس مدت میں دارالعلوم میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے، لیکن مولانا کاجس سے جوتعلق تھا سرِمواس میں فرق نہیں آیااور وہ اپنے مشاغلِ یومیہ میں کچھ اس طرح مصروف رہے کہ گویاا نھیں خبرنہ تھی کہ ان کی درس گاہ اور کمرہ سے باہر کیاہو رہاہے ۔فروتنی اورانکساری اس غضب کی کہ اپنے خدامانِ خدام سے بھی اس طرح ملتے کہ گویا وہ خود خادم ہیں اور خادم مخدوم! ادھر کئی سال سے انابت الی اﷲ کاغلبہ ہوگیا تھامگر اس حالت میں بھی درس ومطالعہ کے معمولات میں فرق نہیں آنے دیا ۔انھیں دیکھ دیکھ کرحیرت ہوتی تھی کہ قدرت نے کام کرنے اور جفاکشی کی کس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز صلاحیت رکھی ہے ۔اخیر عمر میں بہت ضعیف اور کمزور ہوگئے تھے، د و قدم چلنے میں سانس پھول جاتا تھا اور ہمارے قومی ادارے تو پنشن کے مفہوم ومعنیٰ سے ہی ناآشنا ہیں اس لیے اس ضعف اور کمزوری اور درازی سن کے باوجود مولانا اسی طرح اپنے فرائض منصبی انجام دیتے تھے ۔
طبیعت کے حد درجہ مرنج ومرنجان تھے۔باتیں کم کرتے تھے ۔مگر کسی مشورہ کے وقت جب کبھی کوئی بات کہتے تھے توپوری قوت کے ساتھ اورجما کرکہتے تھے۔ مزاج میں شرم وحیا اس قدر رچی اوربسی ہوئی تھی کہ اکثر درس میں بھی نگاہ نیچی رکھتے تھے۔ تہذیب اور شائستگی کایہ عالم تھاکہ بے تکلف سے بے تکلف مجمعِ احباب میں بھی کبھی کوئی نامناسب لفظ زبان پر نہیں آتاتھا، چھوٹے بچوں اور طالب علموں کوبھی تم نہ کہتے ، آپ سے خطاب کرتے تھے پھر ساتھ ہی نہایت بیدار مغزاور روشن خیال تھے ۔اخبارات کامطالعہ پابندی سے کرتے تھے اور عالمِ اسلام کے حالات وکوائف سے پورے باخبر رہتے تھے۔ ’’برہان ‘‘ کے شروع سے مستقل خریدار تھے اور اس کے نظرات سے لے کرتبصروں تک ایک ایک لفظ پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے اور جب کبھی کہیں کسی جگہ ایک لفظ بھی نامناسب نظر آیافوراًخط لکھ کراس پر متنبہ فرماتے تھے۔
پانچ سال کے بعداسی سال کی ۸؍ جنوری کو بمبئی میں ملاقات ہوئی تو فرطِ شفقت ومحبت سے فوراً سینہ سے لگالیا اور پھرشکایت کی کہ آپ نے تودیو بند کو بالکل ہی بھلادیا ۔اب ادھر آتے بھی نہیں میں نے اپنی مجبوریوں کاذکرکیا۔آہ کیا خبرتھی کہ بس زندگی میں یہ آخری ملاقات ہے اور اب اس کے بعد یہ شفقت بھری نگاہیں پھر کبھی نہ ملیں گی۔
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ وبرد مضجعہ ونور مرقدہ۔
[اپریل ۱۹۵۵ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...