Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

خواجہ حسن نظامی دہلوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338608

Access

Open/Free Access

Pages

73

خواجہ حسن نظامی دہلوی
افسوس ہے گزشتہ ماہ میں خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے کم وبیش ۷۷ سال کی عمر میں چند روزہ علالت کے بعد اپنے وطن دہلی میں ہی وفات پائی۔ مرحوم عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے۔ دیکھنے میں کمزور ولاغر اورضعیف ومنحنی انسان تھے لیکن ارادہ وعمل کی قوت بے پناہ رکھتے تھے۔ان کی تعلیم قدیم مسلمان خاندانوں کی روایات کے مطابق ہوئی۔لیکن جس کو اعلیٰ معیار کہاجاتا ہے اس حدتک نہ تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی نہایت ہی معمولی حالت سے شروع کی، یعنی ایک مزدور کی طرح سرپرکتابوں کابوجھ لادکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانااوراس طرح اپنی معاش پیداکرنا ان کی معاشی زندگی کاسب سے پہلا قدم تھا۔ لیکن اپنی محنت، استقلال، جذبۂ عمل اورذہانت کی وجہ سے وہ اس ادنیٰ ترین حالت سے ترقی کرکے ایک ایسے بلند مقام پر پہنچ گئے جہاں ہرمذہب و ملّت کے لاکھوں انسان ان کی عزت کرتے تھے۔ بڑے بڑے والیانِ ریاست ان سے ملنے میں فخر اورمسرت محسوس کرتے تھے۔حکومتیں ان کی بات کوگوش توجہ سے سنتی تھیں اوربہت سے لوگ جن میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اورپارسی، مرد و عورت، جوان و پیر سب ہی شامل تھے ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے کے باعث ان کے ایک ایک فقرہ اور جملہ پرسردھنتے تھے۔ ۲۸ء یا ۲۹ء میں بزمانۂ قیام ڈابھیل ایک مرتبہ سورت شہرمیں ایک مسلمان بوہرہ کی دکان پرجانے کااتفاق ہواتو باتوں باتوں میں معلوم ہواکہ وہ اوراس کاپورا گھرانہ خواجہ صاحب سے بیعت ہے اور اگرچہ یہ گھرانہ اردو پڑھنے کی استعداد نہیں رکھتاتھا تاہم اس کامعمول یہ تھاکہ خواجہ صاحب کے ہاں سے ’’درویش‘‘ نام کا جورسالہ نکلتا تھا، سال کے اختتام پراس کی جلد بندھتی تھی اور ایک مطلا جزدان میں وہ محفوظ رکھ دیا جاتا تھا۔عید بقرعید کے دن نماز عیدکے بعد سب اہل خانہ کاپہلا کام یہ ہوتا تھاکہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوکر خواجہ صاحب کافوٹو اوراُن کے رسالۂ درویش کے مجلدات کی زیارت کرتے تھے اوران کوسر آنکھوں سے لگاتے تھے۔
مشہور شعر ہے :
قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
1قلم کش رابدولت می رسانم
Y
واجہ صاحب نے جوکچھ ترقی کی اس میں ان کی خواجگی کے علاوہ ان کے قلم کابہت بڑا حصّہ ہے۔ نثر اردو میں وہ ایک طرزِ نو کے موجد تھے۔زبان بڑی صاف، سلیس، شستہ و رفتہ لکھتے تھے۔ نثر میں شاعری کرنے کاان میں بڑا اچھا سلیقہ تھا۔ نہایت ہی معمولی سے معمولی چیزوں پرمضمون لکھتے تھے لیکن اپنے حسنِ تخیل اورلطافتِ بیان کے آب و رنگ سے اسے باغ وبہار بناکر پیش کردیتے تھے۔ بات میں بات پیداکرنا ان کی انشاء پردازی کاخاص جوہر تھا۔اس حیثیت سے کوئی شبہ نہیں کہ وہ اردوزبان کے صاحب ِ طرز نامور ادیب اورانشاء پرداز تھے۔ غدر دہلی کے افسانے ان کی مشہور کتاب ہے، ان میں ادبیت کے ساتھ ساتھ مرحوم دہلی اوراس کی پرانی روایات تہذیب وتمدن کاماتم کچھ اس سوزو گداز کے ساتھ کیاہے کہ ناممکن ہے کوئی شخص ان افسانوں کوپڑھے اوراس کی آنکھوں سے آنسو رواں نہ ہوں۔ان کی ایک نہیں چھوٹی بڑی سیکڑوں کتابیں، مضامین اور مقالات ہیں جو زباں دانی، انشاء پردازی اورلطافتِ بیان کے جواہر ات کاخزانہ ہیں۔ اس کے باوجود مولانا عبدالماجد دریابادی کے بقول خواجہ صاحب مرحوم پر یہ بڑاظلم ہواہے کہ ابھی حال میں اردو ادب کی تاریخ پرجوکتابیں لکھی گئی ہیں ان میں منٹو، کنھیا لال، قرۃ العین اورکرشن چندروغیرہم کو تو خوب اچھا لاگیاہے لیکن خواجہ صاحب کا یاتو سرے سے تذکرہ نہیں، یا ہے تو بہت ہی سرسری، غالباً آج کل کے ادبی مذاق کی عدالت میں خواجہ صاحب کاسب سے بڑا جرم یہ تھا کہ ان کی تحریروں میں کسی نہ کسی حیثیت سے مذہب، اخلاق اورتصوف کارنگ ہوتاتھا اور وہ آج کل کی ترقی پسندی کے ہواخواہوں میں نہیں تھے ۔بہرحال انھوں نے جو ادبی ترکہ چھوڑ اہے وہ اپنی مستقل قدر وقیمت رکھتا ہے اور اس بناء پریقین ہے کہ جس طرح نظیر اکبرآبادی ایک عرصہ تک بدنام بھی رہے اور گمنام بھی، لیکن بہرحال ایک وقت آیاجب ان کواپنے کمال کی داد ملی۔اسی طرح ہمارے زمانہ کے ادیبوں کے نزدیک خواجہ صاحب کاوہ اعتبارنہ ہوجس کے وہ مستحق تھے لیکن ایک وقت آئے گا جب کہ خواجہ صاحب کی ادبی عظمت کااعتراف کیاجائے گا ۔
خواجہ صاحب اپنی ذات سے ایک انجمن تھے، نہایت خلیق، متواضع، ملنسار۔ ان کی باتوں میں بڑا رس ہوتاتھا۔ انتہا درجہ حاضر حواس اور بیدار مغز تھے۔ ہمدردی اورغم گساری ان کی طبیعت کاخاصہ تھی ۔مخالف سے مخالف بھی ان سے بات کرتا تھا توان کی طرف کشش محسوس کرتاتھا۔مشہورتھا کہ خواجہ صاحب کو عمل تسخیر آتاہے۔ممکن ہے یہ صحیح ہولیکن سب سے بڑا عمل تسخیر توایک انسان کے لیے اس کا اپناکمال اوراس کے اخلاق ہیں اور خواجہ صاحب میں اس کی کمی نہیں تھی۔ اب یہ وضع داری شرافت، مروت اوردوسروں کی پاسداری اوررعایت سب عنقا ہوتے جاتے ہیں۔خواجہ صاحب کے اُٹھنے سے ہماری پرانی تہذیب اور کلچر کاایک بڑاستون گرگیا۔اﷲ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اور جس ذاتِ گرامی کی نبیرگی پروہ عمر بھر فخر کرتے رہے ۔ اسی کے زمرۂ ارباب اخلاص ووفا میں ان کاحشر کرے ۔آمین۔ [ستمبر ۱۹۵۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...