1676046603252_54338609
Open/Free Access
74
بشیر احمد کٹھوری
صدحیف کہ پچھلے دنوں ہماری بزم انس ومحبت کاایک اوررکن ہم سے بچھڑ گیا۔ یعنی مولانا بشیر احمدصاحب کٹھوری المعروف بہ بھٹہ نے طویل علالت کے بعد وفات پائی۔ مولانا نے اگرچہ علوم عربیہ اوردرس نظامی کی سیوہارہ، امروہہ اور مرادآباد میں باقاعدہ تکمیل کی تھی۔لیکن ان کوکبھی ان علوم کے ساتھ اشتغال یاان کے درس کاموقع نہیں ملا۔اس لیے نتیجہ کے اعتبارسے ان کوباقاعدہ وباضابطہ عالم کہنا بھی مشکل ہے۔لیکن دماغ اورذہن بلا کا رساپایا تھا۔ذہانت اور جودتِ طبع کایہ عالم تھاکہ اگروہ علوم دینیہ واسلامیہ میں مشغول رہتے تومولانا عبیداﷲ سندھی بنتے۔ اور اگر انگریزی تعلیم حاصل کرلیتے تو سرعلی امام یاسر فضل حسین سے کم نہ رہتے۔ بڑے بڑے علما اور انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کی مجلسوں میں جب کسی موضوع پرتقریر کرتے تھے تواپنے منطقی استدلال اور برہانی طرزِ بیان سے چھاجاتے تھے اور پھراُن کی تردید کرناآسان نہیں رہتاتھا۔معاش کے لیے انھوں نے کاروبار کاراستہ اختیار کیااور اس میں اپنی ذہانت اورمحنت سے اس درجہ ترقی کی کہ مٹی سے سونا پیدا کرنے لگے۔ اپنی اینٹوں سے سیکڑوں شاندار عمارتیں کارخانے اورفیکٹریاں بنا ڈالیں۔لیکن خودہمیشہ مزدوروں کی طرح کام کرتے رہے اور انھیں کی طرح رہتے رہے۔ خلقِ خداکی خدمت کاان میں بے پناہ جذبہ تھا۔جوشخص بھی ان کے پاس جس کام کے لیے پہنچ جاتاتھا ان کے درسے مایوس نہیں لوٹتا تھا۔ جمعیۃ علمائے ہندکے اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔اوران کا اس جماعت میں بڑا وقار اور امتیاز تھا۔کانگریس کے بھی بڑے بااثر اورسر گرم کارکن تھے۔تحریک خلافت اورپھر تحریک آزادی کے زمانہ میں کئی بارجیل گئے جس سے ان کی صحت اورکاروبار کوبڑانقصان پہنچا۔لیکن ان کے جوش،سرگرمی اور ولولۂ کار میں کبھی فرق نہ آیا۔قلب ودماغ کی ان خوبیوں کے ساتھ ان میں اخلاقی جرأت بھی کچھ کم نہیں تھی۔ صوبہ اتر پردیش کی کونسل کے ممبر تھے اس حیثیت سے مقامی حکومت کی جس روش پران کواعتراض ہوتاتھا اُس کوبڑی قوت اور بے باکی کے ساتھ بیان کرتے تھے اوراس میں کسی قسم کے خوف یاتعلق کے لحاظ کودخل نہیں دیتے تھے۔غرض کہ بڑی خوبیوں اور گوناگوں کمالات کے انسان تھے۔ صوبہ یو۔پی کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں بشیر احمد ایسا عاقل وفررانہ اور زیرک و ہوش مندانسان پیدا ہوالیکن مولانا بشیراحمد کی بدنصیبی تھی کہ وہ یہاں پیدا ہوئے اور صرف بھٹہ ہوکر رہ گئے۔ اﷲ تعالیٰ ان کواپنی مغفرت ورحمت کی بیش از بیش نعمتوں اورراحتوں سے سرفراز فرمائے کہ یوں بھی دینی، روحانی اوراخلاقی اعتبار سے بڑے بلند پایہ بزرگ تھے۔ [ستمبر۱۹۵۵ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |