1676046603252_54338611
Open/Free Access
74
پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی ؔ
پچھلے دنوں یہ خبر ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں انتہائی حزن وملال کے ساتھ سنی گئی کہ اردو زبان کے نامور ادیب ومحقق پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی ؔ اپنے وطن غازی آباد میں ۹۱ سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔آپ قبل از تقسیم انجمن ترقی اردو حیدرآباد ثم دہلی کے روح ورواں اور مولوی عبدالحق کے دستِ راست تھے۔ جتنے بڑے شگفتہ نگار، ادیب اورصاحبِ قلم تھے اتنے ہی بلند پایہ زبان و ادب کے محقق ومبصر تھے۔جو کچھ لکھتے تھے کافی غوروفکر اورمطالعہ کے بعد بڑے رکھ رکھاؤ کے ساتھ لکھتے تھے۔انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی رسالہ’’ اردو‘‘ میں اور ہفتہ وار اخبار ’’ہماری زبان‘‘ میں پنڈت جی کے مقالات بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے تھے۔ان کی تصانیف میں ’’منشورات‘‘ اور’’کیفیہ‘‘ خاص طور پر بہت اہم کتابیں ہیں۔جن میں زبان و ادب کے مختلف مباحث پر بڑی محققانہ اور بصیرت افروز گفتگو کی گئی ہے اور بعض بڑے اہم نکات بیان کیے گئے ہیں۔
اردو کے ساتھ ان کو محبت نہیں عشق تھا اس کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی کرنا اپنا فرض جانتے تھے۔ تقسیم کے بعد اس ملک میں اردو کی بے کسی دیکھ دیکھ کرانھیں بڑا ملال ہوتا تھا۔تاہم اس کے مستقبل کی طرف سے وہ مایوس نہیں تھے اوران کویقین تھاکہ جس طرح ہردرخت اپنی زمین میں ہی پھلتا پھولتا اور بڑھتا ہے۔ اسی طرح اردوزبان اس دیس کی زبان ہے وہ یہاں جتنی ترقی کرسکتی ہے کسی دوسرے ملک میں نہیں کرسکتی ۔اترپردیش میں اردو کوعلاقائی زبان بنانے کی تحریک کے سلسلہ میں جو دستخطی مہم ہوئی تھی۔کیفیؔ صاحب نے اس میں عملاً بڑی سرگرمی سے حصّہ لیا ۔پیہم علالت، امتدادِسن اورضعف کے باوجود وہ اردو کاکام کرنے سے کبھی نہیں تھکتے اوراُکتاتے تھے ۔
یوں بھی بحیثیت انسان کے بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔حددرجہ شریف، بامروت، با وضع، خود دار وغیور اور مرنج ومرنجا ن قسم کے بزرگ تھے۔ جس سے جتنا اور جس قسم کاتعلق ہوتاتھا اسے ہرحالت میں نباہتے اور بعض اوقات اس کے لیے تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے ۔لیکن ان کے ادبی کمالات کی فہرست میں شاعری درجۂ دوم کی چیز تھی۔ غزل کی بہ نسبت نظم اچھی لکھتے تھے جس میں رنگینیٔ تخیل اور ندرتِ فکر کم اور زبان کی صفائی، ستھراپن اور روزمرہ زیادہ ہوتا تھا۔ ان کی نظمیں عام طور پرصاف سپاٹ اور رواں ہوتی تھیں۔ ان کے اُٹھ جانے سے زبان وادب کی بزم میں جو جگہ خالی ہوئی ہے توقع نہیں کہ وہ آسانی سے پُر ہوسکے۔آئندہ نسلیں ان کو یاد کریں گی اور ان کانام بڑی عزت واحترام کے ساتھ لیں گی۔ ضرورت ہے کہ ان کی کوئی مستقل یادگار قائم کی جائے تاکہ ان کی مستقل اور بلند خدمات کاکچھ تواعتراف وتشکر اہل زبان کی طرف سے ادا ہوسکے اوران کی آتما کویہ کہنے کاموقع نہ ہوکہ ’’مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے ۔‘‘ [نومبر۱۹۵۵ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |