Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا سید حسین احمد مدنی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سید حسین احمد مدنی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338626

Access

Open/Free Access

Pages

80

کل شیٔ ھالک الا وجھہ
آہ!کیوں کرکہئے کہ فلک علم وفضل کاآفتاب رخشندہ غروب ہوگیا۔بزم انس وقدس کی شمع فروزاں گل ہوگئی۔درج تقوی وطہارت کالعل شب چراغ گم ہوگیا۔شریعت وطریقت کے اسرار ورموز کامحرم جاتارہا۔اخلاق ومکارم اسلامی کے ایوان میں خاک اُڑنے لگی۔جو کل تک لاکھوں انسانوں کے لیے طبیب عیسیٰ نفس تھا خود وہ موت کی آغوش میں جا سویا۔ملت بیضا کاسہارا، فرزندان توحید کی امیدوں کامرجع، پیروان دین محمدی کی تمناؤں کا مرکز راہی ملک عدم ہوگیا۔یعنی حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نے ۵/دسمبر کوبمقام دیوبند سہ پہر میں داعیٔ اجل کولبیک کہا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا کی وفات ایک فرد،ایک شخص اورایک انسان کی موت نہیں ہے۔بلکہ ایک خاص دور، ایک عہد اورحیات ملّی کے صحیفہ کے ایک باب کا اختتام ہے۔حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت شیخ الہند نے اپنے مقدس ہاتھوں سے جو چمن لگایا تھا مولانا اس چمن کی آخری بہار تھے۔ حضرت حاجی امداد اﷲ اور نانوتوی نے شریعت وطریقت، علم وعمل اورتقدس وطہارت کی جوبزم سجائی تھی، اجل کی باد صر صر اُس کے چراغ بجھاتی رہی مگر ساتھ ہی چراغ سے چراغ بھی روشن ہوتے رہے اوربزم کبھی تاریک نہیں ہوئی لیکن اب اس بزم کاآخری چراغ بجھ گیا۔روشنی کی جگہ ظلمت نے لے لی۔تاریکی چھا گئی اوربزم کی بساط الٹ گئی۔
اسلام میں اعلیٰ اورمکمل زندگی کاتصور یہ ہے کہ تزکیۂ نفس اورتصفیۂ باطن کے ساتھ فکرونظر کی بلندی اورجہدوعمل میں پختگی اورہمہ گیری ہواوریہ سب کچھ تعلق باﷲ کے واسطہ سے ہو۔مولانا اس دور میں اس معیار پر جس طرح پورے اُترتے تھے ہندوپاک توکیا پورے عالم اسلام میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ علم و فضل کایہ عالم کہ اسرار وغوامض شریعت وطریقت ہروقت ذہن میں مستحضر۔کسی سائل نے کوئی مسئلہ پوچھا نہیں کہ معلومات کاسمندر ابلنے لگا۔چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی طرح حضرت مولانا کے مکتوبات بھی جو کئی جلدوں میں چھپ چکے ہیں اورجوسب کے سب بے ساختہ اورقلم برداشتہ لکھے گئے ہیں،علم و فضل اورحکمت ربانی کاگنجینہ ہیں۔علوم شریعت وتصوف کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ اورسیاسیات کاخاص ذوق اوران کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔بین الاقوامی سیاسیات حاضرہ اورعلی الخصوص مشرق وسطیٰ اورممالک عربیہ کی سیاسیات پربڑی گہری اور مبصرانہ نگاہ رکھتے تھے اوراس پربرابر غوروفکر کرتے رہتے تھے۔ گزشتہ سال کلکتہ میں ناگا قبائل کاتذکرہ آگیا تومولانا نے ان قبائل کی تاریخ اوران کی جغرافیائی پوزیشن پراس قدر عالمانہ اور مبصرانہ تقریر کی کہ سننے والے حیران رہ گئے۔عربی زبان خالص عربی لب ولہجہ میں بولتے اورگھنٹوں اس میں برجستہ تقریرکرسکتے تھے۔ ترکی زبان سے واقف اور مگدھی زبان سے آشنا تھے۔اس زبان کے بعض گیت اوراشعار یاد تھے۔سلوک ومعرفت میں یہ حال تھا کہ لاکھوں مسلمانوں نے تجلیۂ باطن کافیض حاصل کیا اورروحانی مقامات طے کیے۔مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ نے ایک مرتبہ عالم جذب میں مولوی ظہیر الحسن ایم۔اے کاندھلوی مرحوم سے خود ان کے مکان پرفرمایا کہ میاں ظہیر!لوگوں نے مولانا حسین احمد کوپہچانا نہیں۔خدا کی قسم ان کی روحانی طاقت اس قدر بڑھ ہوئی ہے کہ اگروہ اس طاقت سے کام لے کر انگریزوں کوہندوستان سے باہر نکالنا چاہیں تو نکال سکتے ہیں۔لیکن چوں کہ یہ عالم اسباب ہے اس لیے ان کو ایسا کرنے سے منع کردیا گیاہے اوراس غرض کے لیے ان کو وہی طریقے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اس دنیا میں برتے جاتے ہیں۔
جہد وعمل کے میدان میں مولانا کی زندگی سرتاپاارباب عزیمت کی زندگی تھی۔ مالٹا کی اسارت سے لے کر آزادی کے حصول تک یہ زندگی جو ورع و تقدس کی مکمل آئینہ دار تھی ہمیشہ دارورسن کے خطرات سے کھیلتی رہی۔مصائب و آلام اور شدائدو محن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کراُن کا مذاق اڑاتی رہی۔حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے مکتب خیال کے ایک فردفرید ہونے کی حیثیت سے اپنے مرشد حضرت شیخ الہند کے ساتھ مولانا نے حریت واستخلاص وطن کی راہ میں دارورسن کو اُس وقت لبیک کہا جب کہ ابھی کانگریس کی زبان کامل آزادی کے لفظ سے آشنا بھی نہیں ہوئی تھی۔اس راہ میں طوفان آئے،زلزلے آئے،بجلیاں کوندیں،بگولے اُٹھے، کوہ آتش فشاں پھٹ پڑے لیکن یہ مرد حق آگاہ حق پرست اپنے مقام پر کھڑا رہا اوراس کے پائے ثبات واستقلال میں ذرابرابر جنبش نہ ہوئی۔سیاسیات میں اس درجہ عملی انہماک وتوغل کے باوصف، جس کا مقصد وحید بھی دین قیم کا احیا اوراعلأ کلمتہ اﷲ تھا۔ظواہرشریعت میں تقشف اورسخت گیر ی کایہ عالم تھا کہ اُس مجلس نکاح میں شرکت نہیں فرماتے تھے جس میں عام رسم ورواج کے مطابق دھوم دھڑ کا،شاندار دعوت،مسرفانہ رسوم اورمہر حضرت فاطمہؓ سے زیادہ مہر باندھا جاتا ہو۔اگر حسن ظن کی بنا پر کسی ایسی مجلس میں شریک ہوبھی گئے توجونہی کوئی ایسی بات علم میں آئی توفوراً سخت غیظ وغضب کے ساتھ مجلس سے اٹھ کرچلے آئے۔ نشست و برخاست،کھانا پینا،وضع قطع ہرچیز میں آنحضرت ﷺکے سنن عادیہ تک کا اتباع کرتے اور دوسروں کواس کی تلقین کرتے تھے۔دینی اورملّی معاملات کے علاوہ نجی زندگی میں حددرجہ خوش مزاج، خندہ جبیں اورشگفتہ طبع تھے۔مہمان نوازی کی یہ کیفیت تھی کہ دونوں وقت کھانے پراورناشتہ پرلوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ اُن کوکھلاکر قلبی راحت اورسکون محسوس کرتے تھے۔ متواضع اورمنکسر المزاج اس درجہ کہ بس عجز وتواضع اورانکسارکااس سے بڑھ کر تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں مولانا کے بعض واقعات ایسے ہیں کہ قلم کو ان کاذکر کرتے ہوئے بھی حجاب آتاہے۔
مولانا جامعیت کمالات واوصاف کے اعتبار سے بے شبہ شیخ العرب والعجم تھے، وہ خود تو۸۲برس کی عمرمیں رفیق اعلیٰ سے جاملے جس کے لیے کم وبیش پانچ ماہ سے ان کی روح ہروقت بے چین اورمضطرب تھی لیکن عالم اسلام یتیم ہو گیا۔ مولانا کی وفات ملت بیضا کے لیے ایک سخت اورعظیم حادثہ ہے جس کی تلافی کی بظاہر مستقبل قریب میں کوئی امید نہیں۔نور اﷲ مرقدہ وبردمضجعہ۔
[دسمبر۱۹۵۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...