Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق
Authors

ARI Id

1676046603252_54338629

Access

Open/Free Access

Pages

83

افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق
افسوس ہے افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق بھی پچھلے دنوں ستاون ۵۷ برس کی عمر میں راہی ملک بقا ہوگئے۔ شمالی ہند کے عوام میں توکم ہی لوگ ہوں گے جو مرحوم کوجانتے ہوں،البتہ جنوبی ہند میں ایک ایک بچّہ اُن سے واقف تھا اور مسلمان تواُن پرجان چھڑکتے تھے۔وہ جنوبی ہندکے ’’سرسید‘‘کہلاتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے مسلمان لڑکیوں اورلڑکوں کے سات اسکول اور کالج مدراس میں اپنی یاد گار چھوڑے ہیں۔علوم قدیمہ وجدیدہ دونوں کے مبصر عالم تھے۔پہلے کانپور کے ایک مدرسہ میں درس نظامی کی باقاعدہ تکمیل کی اوراس کے بعد انگریزی کے امتحانات کی طرف متوجہ ہوئے توآکسفرڈ یونیورسٹی سے ڈی فل کرکے ہی دم لیا۔ واپسی پرپہلے محمڈن کالج مدراس کے پروفیسر عربی اور پھر پرنسپل مقرر ہوئے، اس کے بعد مدراس کے گورنمنٹ پریسیڈنسی کالج کے پرنسپل ہوئے۔ یہاں سے پنشن لینے کے بعد مدراس کے پبلک سروس کمیشن کے ممبر اور آخر میں صدر بھی ہوگئے تھے ۔اﷲ تعالیٰ نے مرحوم کوعلمی اور عملی دونوں قسم کے کمالات سے نوازا تھا۔ علوم قدیمہ وجدیدہ کے نامور فاضل ہونے کے ساتھ صورۃً وسیرۃً نہایت راسخ العقیدہ مسلمان اورسچ مچ ایک مومن قانت تھے۔ نہایت جری اوردبنگ تھے، حق بات کے کہنے اورکرنے میں کسی کی ذرا پروا نہیں کرتے تھے۔برہان کے شروع سے خریدار اورندوۃ المصنفین کے بڑے قدردان تھے۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کچھ دنوں پر و وائس چانسلر بھی رہے تھے۔انھیں دنوں میں کلکتہ یونیورسٹی کی ایک ضرورت سے کلکتہ تشریف لائے تو دیر ینہ تعلق کے پاس خاطر سے غریب خانہ کو بھی شرف قدوم سے نوازا۔ملاقات ہوئی اور شرف ہم طعامی بھی حاصل ہوا۔اس کے بعد مرحوم نے علی گڑھ میں مسلمان طلباء کے حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں جواقدامات کیے تھے وہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ سنانے شروع کیے۔اتفاق ایسا ہوا کہ یہ روئداد سنتے سنتے بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ ’’توبس ڈاکٹر صاحب! آپ گئے، اب علی گڑھ میں نہیں رہ سکتے‘‘۔ مرحوم نے پوچھا ’’آخر کیسے؟ ’’میں نے عرض کیا ’’ میں نے جو کچھ کہا ہے اُس کومجذوب کی ایک بڑسمجھیے۔اورمجذوب کاحال یہ ہے کہ بات تو پتہ کی کہتا ہے۔ لیکن ’’کیوں ‘‘ اور’’کیسے‘‘ سے واسطہ نہیں رکھتا ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔مرحوم علی گڑھ پہنچے اور وہاں سے غالباً ایک یا ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی واپس ہوگئے۔مدراس پہنچ کر مرحوم نے مجھ کولکھا ’’میں آپ کے علمی اورادبی کمالات کاتو پہلے سے معترف تھا مگراب آپ کی ولایت کابھی قائل ہوگیا۔اَللّٰھُمَّ زِدْفَزِدْ‘‘مرحوم اس زمانہ میں ’’دین ودنیا بہم آمیزکہ اکسیر این است ‘‘کا سب سے بہتر نمونہ تھے۔ پورے ہند وپاک میں ان جیسے لوگ کم ہی ملیں گے ،حق تعالیٰ کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے اوراُن کی قبر ٹھنڈی رکھے۔آمین۔ [اپریل ۱۹۵۸ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...