1676046603252_54338641
Open/Free Access
88
نواب بھوپال حاجی حمید اﷲ خاں
افسوس ہے کہ پچھلے دنوں حاجی حمید اﷲ خاں کاجوعام طورپر نواب بھوپال کے نام سے مشہورتھے انتقال ہوگیا۔مرحوم اپنی سمجھ بوجھ ،علمیت ولیاقت اورتدبر و دوراندیشی کی وجہ سے تقسیم ہند سے پہلے کے والیان ریاست میں ایک ممتاز مقام و مرتبہ رکھتے تھے اوراسی وجہ سے حکومت میں ان کا بڑاوقار تھا اورپبلک میں بھی بڑے ہردلعزیز تھے۔مرحوم کی والدہ ماجدہ خودایک مثالی خاتون تھیں۔انھوں نے بیٹے کی تربیت ایسے انداز سے کی تھی کہ وہ دوسرے والیان ریاست کے لیے نمونہ کا کام دے۔چنانچہ عام والیان ریاست کی اولاد کے برخلاف مرحوم نے مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں تعلیم پائی اوریہاں جب تک رہے عام طالب علموں کی طرح سب سے گھل مل کررہے۔ایک خاص خاندانی ماحول میں نشوونما پانے کے علاوہ علی گڑھ کی فضا میں ان کی جو ذہنی و دماغی تربیت ہوئی اسی کا اثر یہ تھا کہ وہ قومی اور ملکی معاملات کے علاوہ مسلمانوں کے تعلیمی اوردینی معاملات میں بھی بڑی دلچسپی لیتے تھے اوران کاموں کی عملاً مددکرتے تھے۔چنانچہ دارالعلوم دیوبند،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،ندوۃ العلماء لکھنؤ،جامعہ ملیہ اسلامیہ دلّی، یہ سب ادارے مرحوم کے فیض کرم وتوجہ کے ممنون تھے۔مسلم یونیورسٹی کے چانسلر اوروالیان ریاست کی انجمن کے صدر بھی رہ چکے تھے۔مرحوم کے ذاتی اوصاف وکمالات اورپھراُن کی خاندانی روایات کی وجہ سے’’بھوپال‘‘ارباب علم وادب،مسلمان علماء وفضلاء، شعراء اوراصحاب فن کی امیدوں اور تمناؤں کاجولانگاہ بن گیاتھا۔ریاست بھوپال توپہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔تاہم اُن کی ذات سے بھوپال کی قدیم روایات کی بھولی بسری یاد،ذہن میں کبھی کبھی اجاگر ہوجاتی تھی۔اب یہ سہارا بھی گیا۔سدا رہے نام اﷲ کا! خاتمہ بھی بڑااچھا ہوا۔ نماز پڑھتے پڑھتے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ رحماً کبیراً۔ [مارچ۱۹۶۰ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |